پانامہ کا ایک لمبا چوڑا سکینڈل اور مقدمہ چلا اور
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک روشن باب شامل ہوا کہ ہماری عدالتوں میں
ایسے منصفین بھی موجود ہیں جو حقیقتاََ حاکم وقت سے پوچھ گچھ کر سکتے
ہیں۔فیصلہ آیا ،ملک کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا گیا تو عوام نے بھی
تسلی کا سانس لیا اور اُمید کرنے لگے کہ اب اُنہیں بھی انصاف ملنے لگے گا
،اُن کی دولت ملک میں واپس لے آئی جائے گی،اُن کے مجرم کم از کم اُن کے
حکمران نہیں بن سکیں گے اور سالہا سال سے اُن کی دولت لٹنے کی روایت ختم ہو
جائے گی ۔ابھی عوام خوشی منا ہی رہے تھے کہ ایک بار پھر ان کے منتخب کردہ
نمائندوں نے ان کی اُمیدوں اور ارمانوں پر اوس ڈال دی اور ان کو اور
عدالتوں کو ان کی اوقات یاد دلا دی۔ منتخب حکومت کے نمائندوں نے ان تمام
فیصلوں،عدالتوں اور ملکی مفاد کی دھجیاں بکھیر دی۔پولیٹیکل پارٹی آرڈر میں
ترمیم کرنے کے لیے ایلیکٹورل ریفارمز بل 2017پاس کیا گیا اور اسی کی ایک شق
کے مطابق نا اہل سابق وزیر اعظم کو حکمران پارٹی کا دوبارہ سربراہ منتخب
کیا گیاتو کیا پوری جماعت کی اہلیت مشتبہ نہیں ہو گئی یہی وہ حرکات ہیں
جنہوں نے ہمارے ملک کو پیچھے رکھا ہو اہے۔یہاں فوجی آمریت نہ ہو تو سول
آمریت ہوتی ہے یعنی آمریت کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتی ہے۔پارلیمنٹ میں
بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے یوں عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور اگلی بار پھر
انہی کے پاس ووٹ لینے جاتے ہیں یہ ووٹ اکثر اوقات بلکہ زیادہ تر خاندانوں
اور علاقوں کی بنیاد پر دیے اورلیے جاتے ہیں ان کا کارکردگی سے کوئی تعلق
نہیں ہوتا اور اسی لیے نہ ہم ترقی کر رہے ہیں نہ ہمارے مسائل حل ہو رہے ہیں
اور نہ ہی ہم بین الاقوامی طور پر اپنے لیے کوئی حمایت حاصل کرنے کے قابل
ہو رہے ہیں کیونکہ ہمیں تو ایک دوسرے پر بازی لے جانے سے فرصت نہیں مل
رہی۔ہماری تمام تر توجہ اپنا ، اپنے بچوں اور خاندان کا مستقبل بنانے پر
مرکوزہوتی ہے۔سینٹ میں یہ بل جب پیش کیا گیاتو حکومتی اراکین کے علاوہ دیگر
جماعتوں نے بھی اسے ووٹ دیا ،پی ٹی آئی کے کچھ اراکین غیر حاضر ہو گئے یا
کر دیے گئے اور یوں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا گیا ۔ اصل مقصد حکومت کے
ساتھ تعاون نہ تھا بلکہ نااہلی کی لٹکتی تلوار کے نیچے سے اپنے لیڈر کو صاف
بچا کرنکال لینا تھا ۔خیر عمران خان کی اہلیت یا نا اہلیت کا فیصلہ تو
آناابھی باقی ہے ہو سکتا ہے وہ نااہل قرار بھی نہ دیے جائیں لیکن حفظ
ماتقدم کے طور پراس بل کی نامنظوری کے لیے وہ جوش و خروش نہیں دکھایا گیا
جو دکھانا چاہیے تھا۔ اس بل کے لیے دی گئی اپوزیشن کی سوترامیم نا منظور کی
گئیں بقول شیخ رشید کے ایک شخص پر جمہوریت کو کو قربان کر دیا گیا۔پارلیمنٹ
کے احساس ذمہ داری کا عالم یہ ہے کہ اس اہم بل پر رائے د ہی کے لیے دونوں
ایوانوں میں حاضری انتہائی کم تھی معلوم نہیں ہمارے’’ عظیم جمہوری نمائندے
‘‘تنخواہ اور مراعات کس چیز کی لے رہے ہیں، کام وہ نہیں کر پاتے قانون سازی
ان کے خیال میں اتنی بھی اہم نہیں کہ اس کی منظوری نامنظوری میں دلچسپی لیں
لیکن کہلاتے خود کو پھر بھی عوامی نمائندے ہیں۔ اس بل کی شق نمبر 203کی
روسے پاکستان کا کوئی بھی شہری سوائے سرکاری ملازمین کے اس بات کا اہل ہے
کہ وہ اپنی پارٹی بنائے اور اس کا عہدہ حاصل کر سکے یعنی چاہے وہ مجرم ہو
ملزم ہو، مشکوک ہو مشتبہ ہو اور اور بھی بہت کچھ ہو وہ نہ صرف پارٹی بناسکے
گا بلکہ اس کا سربراہ بھی بن سکے گا۔ یہ شق صرف اور صرف نااہل سابق وزیر
اعظم محمدنوازشریف کودوبارہ نون لیگ کی صدارت تک لانے کے لیے ہی ڈالی گئی
ہے اس سلسلے میں اپوزیشن کے احتجاج اور اعتراض کو یکسر مسترد کر دیا
گیا۔ختم نبوت کی شق کو حذف کر کے ایک اور جرم کیا گیا حکومت نے پہلے اس بات
کو مانا ہی نہیں لیکن جب اس بات کا سیاسی سے لے کر عوامی سطح تک سختی سے
نوٹس لیا گیا تو حکومت کو اعتراف جرم کرنا پڑاپھر بھی اسے غلطی قرار دیا کہ
ایسا سہواََ ہوا ہے اور یہاں حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اس واقعے کی
تحقیقات کا حکم وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نہیں دے رہے بلکہ سابق اور نا
ہل ورزیراعظم محمد نواز شریف یہ حکم دے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی
صدارت کے ساتھ ساتھ انہیں دوبارہ حکومت کے اختیارات بھی تفویض کر دیے گئے
ہیں جو ان کے حکم سے وزراء پر مشتمل کمیٹیاں بن رہی ہیں۔
مسئلہ اور معاملہ صرف ایک بار کا نہیں ہمارے ملک میں اکثر اوقات شخصیات
ملکی مفادات سے زیادہ اہم رہی ہیں اور انہی کو نوازنے کے لیے ملک کو نقصان
بھی پہنچایا گیا ہے اگرچہ ہمارے ملکی ماحول میں حالیہ واقعے پر بھی زیادہ
حیرت اور پریشانی نہیں ہونی چاہیے لیکن پریشانی اس بات کی ہے کہ آخر کب تک
،کیا ہم اپنی قومی سوچ اور عمل میں تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں اورکیا
ہمارے حکمران ہمیشہ صرف اپنے بارے میں ہی فکر مند رہیں گے۔ ہمارے سیاستدان
ویسے تو ایک دوسرے کے خلاف بولتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف شدید زہر
افشانیاں کی جاتی ہیں،کردار تک پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے،ایک دوسرے کی ذاتی
زندگیوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے لیکن جہاں ان کا ایک عمومی مفاد خطرے
میں پڑ جائے تو پھر ایک دوسرے کی کسی بھی ممکن طریقے سے مدد شروع کر دی
جاتی ہے اور یہی کچھ اب بھی ہوا ہے۔اب اس سلسلے کو رُک جانا چاہیے کیونکہ
ہمارے پاس اب غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں ،اب اس کی بھی کوئی گنجائش نہیں
کہ نااہل لوگوں کے ہاتھ میں قوم کی رہبری دی جائے اور سوال یہ بھی ہے کہ
کیا ان سیاسی جماعتوں کے پاس مستقبل کی کوئی لیڈرشپ نہیں ،کیا ان کے پاس
صرف ایک ہی لیڈر ہے جو نا اہل ہونے کے بعد بھی پارٹی لیڈر کے لیے چنے جا تے
ہیں۔ممبران پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور وہی عوام جن کے ووٹوں
سے یہ پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں ان کے ساتھ مزید دھوکہ نہ کریں بڑی مہربانی
ہو گی۔ |