آنٹی مریم نے نرمی سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
کیوں اللہ پر یقین نہیں ہے تمہیں ۔ مدد ضرور ملتی ہے اگر یقین سے مانگی
جائے۔اگر تمہیں یہ یقین ہے کہ تمہاری مدد کوئی نہیں کر سکتا تو پھر واقعی
تمہاری مدد کوئی نہیں کر سکتا۔ میں مذید رونے لگی۔ مریم آنٹی نے پیار سے
میرے سر پر بوسہ دیا اور شفقت سے کہا، میری این جی او میں روز عورتیں روتی
ہوئی آتی ہیں ۔ میں انہیں یقین کرنا سکھاتی ہوں ۔ یقین بہت بڑی قوت ہے۔
دوسروں پر یقین اپنے آپ پر یقین ۔
میں نے روتے ہوئے کہا۔ یقین کرنے کی وجہ سے میں نے اپنی عزت گنوا دی ، آپ
کے بیٹے نے میرا سب کچھ چھین لیا۔ میں نے تو سوچا تھا کہ اوصاف سے معافی
مانگ لوں گی ۔ لیکن سفیر نے مجھے میرے گھر واپس جانے ہی نہیں دیا۔ وہ مجھے
لگا تار بلیک میل کر رہا ہے آنٹی ۔ میں کیا کروں ۔ آپ کہتی ہیں میں یقین
کروں ۔ خود پر یقین کروں۔ میرا وجود مجھے ایک کٹ پتلی لگ رہا ہے۔ جس کی ڈور
سفیر کے ہاتھوں میں ہے۔ نہ جانے شادی کے پردے میں وہ میرے ساتھ کیا کرنا
چاہ رہا ہے۔ آپ کی نوکرانی سفینہ ہر وقت مجھ پر نظر رکھتی ہے تا کہ میں
خود کشی نہ کر لوں ۔وہ مجھے لگاتار نیند کی گولیاں دیتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ
میرا دماغ ہر وقت سوتا ہی رہتا ہے۔ آپ بتائیں میں کیا کروں ۔ اب تو میں
اپنے شوہر اور بیٹی کے پاس بھی نہیں جانا چاہتی ۔ اپنا وجود مجھے اس قدر
گندہ محسوس ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔آنٹی مریم نے میری باتیں غور سے سنی اور کچھ
بھی کہے سنے بغیر کمرے سے باہر نکل گئی۔ انہوں نے اپنی نوکرانی سفینہ کو
پولیس کے حوالے کر دیا۔ جس نے سفیر کے خلاف ثبوت فراہم کیے۔ سفیر کو پولیس
نے گرفتار کر لیا۔
سفیر کو پتہ چل چکا تھا کہ اس کی ماں کو میں نے اس کے کرتوت بتائے ہیں ۔ اس
نیک عورت نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنی تما م جائداد سے عاق کر دیا۔ انہوں
نے مجھ سے معافی مانگتے ہوئے کہا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میر ا اپنا
بیٹا ایسا کر سکتا ہے۔اس دنیا میں ہر انسان اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے
بیٹا ۔ میرے گھر میں تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ۔ اس کے لیے میں بہت شرمندہ
ہوں ۔ بیٹا تم میرے ساتھ میری این جی او میں چلا کرو ۔ وہاں کام کر کے
تمہیں اچھا محسوس ہو گا۔ اگر تم اپنے شوہر کے پاس نہیں بھی جانا چاہتی تو
زندگی ختم نہیں ہو جاتی ۔ زندگی کا کوئی مقصد بنا لو۔ تمہیں زندگی خوبصورت
لگنے لگے گی۔ اچھا سوچو گی تو اچھا ہی ہو گا۔
کچھ ماہ سکون سے گزر گئے ۔ میں بھی کام میں سکون محسوس کرنے لگی۔ تم سے
جدائی میں نے اپنی سزا سمجھ کر قبول کر لی۔آنٹی نے مجھے دوسروں کی خوشی
میں خوش ہونا سکھایا ہی تھا کہ ،سفیر کو اس کے کچھ دوستوں نے رہا کروا دیا
۔اس نے غصہ اور طیش میں آ کر اپنی ماں پر گولی چلا دی ۔ آنٹی مریم کو
سفیر کے ہاتھوں گولی لگی ۔ان کا ڈرائیور مر گیا۔ آنٹی مریم نے اپنی تمام
جائداد میرے نام کر دی۔ انہوں نے مجھے اپنے آخری دنوں میں زندگی جینے کا
حوصلہ دیا۔
انہوں نے مجھے کہاکہ زندگی کا مقصد متعین کرنا لازمی ہے۔ تم دوسروں کی
زندگی بہتر بنانے کو اپنا مقصد بنا لو۔ جو ہو چکا اس پر کسی کو اختیار نہیں
لیکن ہم اپنے آج کو خوبصورت ترین بنا سکتے ہیں ۔ سفیرکو دیکھو۔اس نے اپنی
زندگی اپنے گندے مقاصدکر پورا کرنے کے لیے ضائع کر دی۔ اس کی گولی سے مرنے
والا ڈرائیور اور زخمی ہونے والی ماں اسے نظر نہیں آ سکتے ۔ کیوں کہ اس کے
دماغ میں کسی کو سکون پہنچانا مقصد نہیں ۔ سکون پہنچانے والا دماغ پر سکون
رہتا ہے۔ سفیر کو شروع سے کچھ نفسیاتی مسائل تھے مگر وہ اس حد تک پہنچ
جائیں گئے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
ہمارا دوسروں پر اختیار نہیں لیکن ہمارا خود پر اختیار ہے۔ بیٹا، میں چاہتی
ہوں تم میری این جی اومیں آنے والے انسانوں کے لیے تسکین فراہم کرو۔ انہیں
جینے کی امید دو۔ خود کو سکون کی تلاش ہو تو دوسروں کو سکون دو۔ سکون آپ
سے دور جا ہی نہیں سکے گا۔ اگر خود کٹ پتلی نہیں بننا چاہتی تو دوسروں کو
بااختیار ہونے کے طریقے سکھاو۔ وہ مرتے مرتے مجھے جینا سکھا گئی۔ اس عورت
کے حوصلہ کی داد دیتی ہوں میں ،جس نے اچھائی کےساتھ کے لیے اپنے اکلوتے
بیٹے کی کوئی پروا نہیں کی۔
وہ چاہتی تو مجھ پر شک کر سکتی تھی۔ اس نے پلٹ کر مجھ سے ایک لفظ نہیں کہا۔
بلکہ تحقیق کے بعد اپنے بیٹے کو سزا دینے کی ٹھان لی۔ اگرچہ وہ اندر سے
دُکھی تھی ۔ اس نے ایک لفظ ایسا نہیں کہا جس سے مایوسی چھلکتی ہو۔ میرے
سامنے اس نے دم توڑا ۔ اس نے مرنے سے پہلے جو مجھ سے کہا۔ وہ میں نے لکھ کر
اپنے بستر کی دراز میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا۔ شاہد میں اب ایک
آدھ دن ہی اور زندہ رہوں ۔ زندگی اور موت انسان کے اختیار میں نہیں ۔ جو
اختیار میں نہیں اس کے پیچھے بھاگنے سے اچھا ہے کہ جو اختیار میں ہے اس میں
بہتری کی جانب سفر کیا جائے۔ میں تم میں مریم مجتبی دیکھتی ہوں ۔ میرے بعد
تم میرے جیسی بننا۔درست اور غلط کا فرق دل بتا دیتا ہے۔ اگر تم خود بھی غلط
ہو تو غلط کا ساتھ مت دو۔ اپنے آپ کو روکو ۔اسے تفکر کہتے ہیں ۔ اپنی ذات
کو پل پل سوچو ۔
سوہا مجھے اس عورت کی موت سے ایسا لگا سچ میں اس کی روح مجھ میں آگئی ۔
سفیر جب جیل میں تھامیں آنٹی مریم کے ساتھ این جی او جاتی ۔ وہ مجھے ایسے
کام سکھاتی ۔ جیسے وہ جانتی تھی کہ وہ مرنے والی ہیں ۔ مجھے وہ ایسے سب سے
ملواتی جیسے اپنا سب کچھ انہیں مجھے سونپنا ہے۔ میں نے زندگی کا مقصد بنایا
کہ جو غلطی مجھ سے ہوئی ہے میں دوسری عورتوں کو اس سے روکنے کی کوشش کروں
گی۔ میں ہر طرح سے لوگوں کو سکون فراہم کرنے کی کوشش کروں گی،بس اب مجھے
یہی کرنا ہے۔ جو میرے پاس سکون کی اور مدد کی جستجو لے کر آتے ہیں ۔ میں
ان کی ہر حال میں مدد کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ مریم آنٹی نے ہر کسی کو
بتایا تھا کہ میں ان کی بھتیجی ہوں ۔ سفیر کو سزاے موت ہوئی تھی۔ مریم
آنٹی کا ڈرائیور عباس سفیر کی گولیوں سے موقع پر ہی مرگیا۔اس کے خاندان کی
میں نے ہر ممکن مدد کی اور مریم آنٹی سترہ دن ہوسپٹل میں رہنے کے بعد فوت
ہوئیں ۔
شواف نے تھکے ہوئے سر کو صوفےپر ٹیکا لیا۔ سوہا ابھی تک اپنی ماں کی بیان
کردہ کہانی میں گم تھی۔ شواف نے پھر دھیرے دھیرے سے کہا۔ زندگی کی طویل
داستان جسے جینے میں ہم سر تا پاوں تک ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں ۔کچھ لمحوں کی
محتاج بیان ہوتی ہے۔ سوہا نے اپنی ماں کی طرف دیکھااور کچھ لمحوں کے توقف
سے بولی ۔ ماما کیا آپ واپس نہیں آ سکتی ۔ شواف نے مسکراتے ہوئے کہا۔
زندگی پیچھے نہیں آگے جانے کا نام ہے سوہا۔ میری جان میری غلطیوں سے سبق
سیکھو۔ میری غلطیوں کو نہ دُہرانا۔ واپس گھر جاو۔ اپنے گھر۔
سوہا نے افسردگی سے کہا۔ آپ ۔ آپ گھر نہیں جائیں گی۔ اگر آپ کو لگتا ہے
کہ آپ غلط ہیں تو معافی مانگ لیں نا پا پا سے۔ شواف نے کچھ لمحے سوچا اور
پھر مسکراتے ہوئے کہا۔ معافی تو مانگ لوں گی مگر کچھ غلطیوں کی معافی نہیں
ہوتی ۔ جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ۔ وہ میں اوصاف کو نہیں بتا سکتی ۔ فائدہ
بھی نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں بتانے کا مقصد فقط اتنا تھا سوہا کہ تم خود سے
سوچنا سمجھنا شروع کرو۔ ہمارے بڑے غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتے ۔ وہ اپنی
زندگی اپنی عقل و سمجھ کے مطابق گزارتے ہیں ۔ ہمیں ان کی سمجھ کے ساتھ ساتھ
خود چیزوں کو پرکھنا ہوتا ہے۔ تم نے اپنی نانی کی باتوں کو مان لیا مگر خود
غور و فکر کو ترجیح دیتی تو اس قدر مایوسی کا شکار نہ ہوتی کہ گھر چھوڑ دو
۔ مگر تم نے بھی میرے والی غلطی کی ۔ سوہا نے افسردگی سے کہاماما مجھے لگتا
تھاکہ پاپا نے آپ کے ساتھ بُرا کیا ، اس لیے میرے دل میں ۔
شواف نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اوصاف نے میرے ساتھ کچھ بُرا نہیں کیا۔ میرے
ساتھ جو بھی اچھا یا بُرا ہوا ۔ اس کی زمہ دار میں خود ہوں ۔ میں اوصاف کو
فون کر رہی ہوں ،کر دو ں نا۔
سوہا نے روتے ہوئے کہا۔ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ماما۔ شواف نے اسے
گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے میں تمہارے پا پا سے کہوں گی کہ وہ تمہیں میرے
پاس رہنے دیں ۔ تم اپنی زندگی کے مقاصد متعین کرو۔ اب تم چھوٹی بچی نہیں ہو
سوہا کہ میں تمہیں گود میں بیٹھا کر رکھوں گی۔ تمہیں خود جینا سیکھنا ہے ۔
سوہا نے روتے ہوئے کہا۔ جب میں چھوٹی تھی تو آپ نے مجھ سے اپنی گود چھین
لی۔ اور۔
شواف نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ میں اپنی ہر غلطی کی
سزا پا چکی ہوں اگر پھر بھی تم مجھے کوئی سزاد ینا چاہو تو میں حاضر ہوں ۔
سوہا نے شواف سے لپٹتے ہوئے کہا ،آپ کی سزا یہ ہے کہ اب آپ مجھے چھوڑ کر
کہیں نہیں جائیں گی۔ سمجھی آپ ۔
شواف سوہا کو لے کر اپنے گھر چلی گئی۔شواف نے اوصاف کو فون کر کے سوہا کے
ملنے کی اطلاع دی ۔ جوسوہا کے لیے بہت پریشان تھا۔ جب اوصاف اس کے گھر
پہنچا تو شواف اور سوہا کو ساتھ ساتھ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شواف ۔۔۔۔۔اس
کے منہ سے اتنا ہی نکل پایا۔
شواف نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔ آئیں اوصاف بیٹھیں ۔ شواف کے چہرے پر
لگی عینگ اس کے بالوں میں اترئی ہوئی ہلکی سی چاندی بہت سا وقت بیت جانے کی
گواہی دے رہی تھی۔ وہ کچھ دیر اس کی انکھوں میں نہ بیان کیے جانے والی
شکایات کے ساتھ دیکھتا رہا۔
شواف نے پھر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ آپ آگے آئیں نا۔ وہا ں ہی کھڑے
رہیں گئے کیا۔ اوصاف نے ایک سرد آہ بھری ۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا شواف
کے سامنے رکھے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گیا۔ اس نے سوہا سے کہا،تم کہاں تھی بیٹا
میں کس قدر پریشان تھا،تمہیں اس بات کا اندازہ بھی ہے۔ سوہا نے نظریں
جھکاتے ہوئے کہا۔ پاپا ایم سوری ۔
اوصاف نے شواف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ تین دن سے تمہارے پاس تھی اور تم
نے بتایا تک نہیں ۔ سوہا نے اوصاف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ نہیں پاپا ،
ماما توا ٓج ہی یہاں مجھے لائیں ہیں ۔ میں نانی کے گھر اکیلی ہی رہ رہی
تھی۔ اوصاف نے افسردگی اور غصے سے کہا کیوں ۔ تم نے گھر کیوں چھوڑا ۔ اس کی
نظریں واپس شواف پر جا رُکی تھیں ۔ شواف نے نظریں جھکا لیں ۔ سوہا نے فوراً
کہا۔ پاپا ماما اور میں آپ سے سوری کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا آپ ہمیں معاف
نہیں کر سکتے۔ شواف نے اوصاف کی طرف دیکھا۔ جس کی انکھو ں سے آنسو چھلک
گئے تھے۔
اوصاف کا فون بج رہا تھا۔ مومنہ اوصاف نے شواف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، وہ
مومنہ ہماری سوہا مل گئی ۔وہ شواف تھی جس نے فون کر کے اس کے متعلق اطلاع
دی تھی۔ مومنہ نے فوراً سے کہا اللہ کا شکر ہے ،ہماری بیٹی مل گئی ۔ آپ
اسےگھر لے آئیں نا۔ اوصاف نے مومنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں ۔لا رہا
ہوں۔
اوصاف نےسوہا کو گھر چلنے کے لیے کہاتو سوہا نے اوصاف سے کہا۔ پاپا میں
ماما کو گھر نہیں لے جاسکتی۔ میری ماما میرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اوصاف نے
افسردگی سے کہا، یہ تم اپنی ماما سے پوچھو۔ میں نے کبھی اسے گھر سے نہیں
نکالا تھا۔ وہ یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا ۔ سوہا بیٹا گھر چلو۔
شواف نے سوہا سے کہا۔ سوہا بیٹا تمہارے پاپا ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ تم ان کے
ساتھ چلی جاو ۔ میں تم سے ملتی رہوں گی۔ تم فکر نہ کرو۔ ہم اب کبھی جدا
نہیں ہوں گئے۔اوصاف نے شواف کی طرف ایک نظر دیکھا اور باہر جا کر گاڑی میں
بیٹھ گیا۔ سوہا ،شواف سے ملنے کے بعد اوصاف کے پیچھے پیچھے چل دی۔
سوہا اور اوصاف کچھ دیر میں گھر پہنچ چکے تھے۔ سوہاکو دیکھتے ہی مومنہ نے
آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا۔ اللہ کا شکر ہے تم ٹھیک ہو بیٹا۔ سوہا نے
مومنہ کی طرف اداسی سے دیکھا۔ اسے شواف کی بات یاد آئی ۔ہمیشہ ٹھیک کا
ساتھ دینا چاہیے۔ اگر اپناآپ غلط ہو تو اسے بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اس نے
مومنہ سے کہا۔ آنٹی مجھے معاف کر دیں ۔ میں آپ کو اپنی نظروں سے کبھی
دیکھ ہی نہیں پائی ۔ مجھے جو نانی نے دیکھایا۔ وہی دیکھتی رہی۔
مومنہ نے اس کے سر کو چومتے ہوئے کہا، کوئی بات نہیں بیٹا ، بچے تو غلطیاں
کرتے ہی ہیں ۔ بڑوں کا فرض ہے کہ انہیں معاف کر دیں ۔شواف اپنے اس گھر میں
تھی جو مریم آنٹی کا تھا۔ایک اعلیٰ ظرف عورت کا۔آج اس کی زندگی کی وہ گرہ
بھی کھل چکی تھی ،جو اس نے سالوں سے کس کر رکھی ہوئی تھی۔ وہ خود کو ہلکا
پھلکا محسوس کر رہی تھی۔اسے کی نگاہوں میں سوہا اور او صاف کی صورتیں گھوم
رہی تھیں ۔
اس نے اپنی این جی اوکا شائع کردہ میگزین اٹھایا اور یوں ہی ورق گردانی
کرنے لگی تا کہ سوچوں کو کوئی نیا رُخ ملے۔اس کی نظر اپنی لکھی ہوئی ایک
غزل پر گئی ۔وہ اسے مسکراتے ہوئے پڑھنے لگی۔
شجر ممنونہ
بہت خوبصورت جنت ہے،زندگی جس کو کہتے ہیں۔
کسی کے کام آجانا ، ذرا بھی ، بندگی اس کو کہتے ہیں۔
جنت کی سی زندگی میں بدگمانی شجر ممنوعہ ہے۔
آپ کی زندگی فقط آپ کی ،سوچوں کا مجموعہ ہے۔
شجر ممنوعہ سے دور رہیں ، اسی میں ہی سمجھ داری ہے۔
آپ کی جنت ،آپ کی زندگی ،آپ کی ہی زمہ داری ہے۔
شواف کے فون کی بیل بج رہی تھی۔ این جی او سے فون تھا۔ اس کی سیکٹری اسے
بلا رہی تھی۔ اس نے اپنے بوجھل سے ذہین کو خالی کیا،پھر سے اپنے کام کی طرف
چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوصاف خاموش بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا۔ مومنہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے
کہا۔ آپ نے شواف کے بارے میں کیا سوچا ہے۔ سوہا کا کہنا ہے کہ اس کی ماما
نے شادی نہیں کی ، وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں ۔ وہ چاہتی ہے کہ شواف بھی
ہمارے ساتھ آ کر رہے آپ کا کیا خیال ہے۔
اوصاف نے مومنہ کی طرف سنجیدگی سے دیکھا اور کہا۔میں نے تمہاری امی سے کہا
تھا کہ اگر تم سے شادی کے بعد شواف لوٹ آتی ہے تو میں سے طلاق دے دوں گا۔
میں نے جو کہا تھا وہی کروں گا۔
مومنہ نے کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ لازمی تو نہیں کہ وہی کیا جائے
جوہم کہہ دیں ۔ وقت اور حالات کے مطابق تبدیل ہونے میں سمجھداری ہی ہوتی
ہے۔ آپ کا جو جی چاہے کریں ۔ میں تو یہ ہی مشورہ دوں گی کہ آپ شواف کو
طلاق نہ دیں ۔ اس سے ملیں ۔اس کا موقف سننا بھی تو لازمی ہے۔ ہماری بیٹیاں
ہیں ۔ طلاق کا لفظ ہی مجھے تو بُرا لگتا ہے۔ اوصاف نے مومنہ کی انکھوں میں
دیکھا۔اوصاف نے دھیرے سے کہا، لوگ تو کہتے ہیں کہ عورت سب کچھ برداشت کر
سکتی ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔مومنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ لوگوں کا کیا ہے ۔ہمیں تو
اپنے حصے کی زندگی جینی ہے نا۔ سوہا نے پہلی دفعہ مجھ سے اس طرح سے کچھ
مانگا ہے۔ہمیں اس کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شاہد شواف بھی یہ
ہی چاہتی ہو۔ہم شواف کو کھانے پر بلاتے ہیں ۔
اوصاف نے حیرت سے مومنہ کی طرف دیکھا۔کیا تم سچ میں ایسا چاہتی ہو
مومنہ۔مومنہ نے مسکراتے ہوئے کہا،میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ چاہتے ہیں ۔
یہ تو آپ کو سوچنا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔ اوصاف نے نظریں نیچے کر لیں
۔ وہ حیران تھاکہ مومنہ کو اس کے دل کی ہر بات کیسے پتہ چل جاتی ہے۔ وہ
کتنی آسانی سے اس کی ہر مشکل حل کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوہا نےشواف کو فون کر کے بتایا کہ اوصاف نے اسے گھر آنے کی اجاذت دے دی
ہے۔ سوہا اس قدر خوش تھی کہ شواف خاموش رہی ۔ اس نے سوہا کو گھر آنے کی
خوشخبری دی۔ سوہا کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا ۔ اس نے مومنہ کے ساتھ مل
کر شام کا کھانا اپنے ہاتھوں سے تیار کیا۔ مومنہ سوہا کی خوش کو محسوس کر
رہی تھی لیکن مومنہ کے دونوں بچے اپنی ماں کے فیصلے سے نا خوش تھے۔ مومنہ
نے مگر اوصاف اور سوہا کی خوشی کو ترجیح دی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اوصاف
شواف کو طلاق صرف اپنی زبان رکھنے اور اس کی وجہ سے دینا چاہ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سالوں بعد شواف نے جب اپنے ہی گھر میں قدم رکھا تو سب کچھ تبدیل ہوچکا
تھا۔ کچھ دیر میں سب کھانے کی ٹیبل پر تھے۔ شواف نے اوصاف کی طرف دیکھا جو
اپنی پلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جب اس کی نگاہ مومنہ کی طرف اُٹھی تو وہ
شواف کی طرف دیکھ رہی تھی۔ شواف نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی نظر کا
زاویہ بدل لیا ۔ اس نےسوہا سے پوچھا۔ تم نے پھر کیا سوچا ہے ،آگے پڑھنے کے
بارے میں ۔ مومنہ اور اوصاف کی نظریں بھی سوہا پر جا رُکی ۔اس نے سنجیدگی
سے کہا۔ میں نے سوچا ہے کہ میں دوبارہ سے کالج جوائن کروں گی۔
اوصاف کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے فوراًْ سے کہا۔ اس سے ذیادہ خوشی
کی اور کیا بات ہو سکتی ہےبیٹا۔ سوہا نے شواف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ماما
آپ تو کچھ بھی ساتھ نہیں لائی ہیں۔اب آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گی نا۔ ہم نے
آپ کے لیے اوپر کا کمرہ سیٹ کر دیا ہے۔ شواف نے اوصاف کی طرف دیکھااور پھر
دھیرے سے کہا۔یہ کیسے ممکن ہے سوہا۔
مومنہ نے شواف کی طرف دیکھا۔ شواف نے پھرسوہا سے مخاطب ہو کر کہا۔تمہارے
پاپا اور چھوٹی ماما بہت اعلی ٰ ظرف ہیں۔ انہوں نے مجھے معاف بھی کر دیا
اور اپنے گھر میں جگہ دینے کا بھی سوچا مگر یہاں رہنا بیٹا بہت مشکل ہو گا۔
تم جب چاہو،میرے ساتھ آکر رہو۔ سوہا نے فوراً کہا اور پاپاوہ ۔ آپ نے کہا
تھا کہ آپ ان سے معافی مانگ لیں گی۔
شواف نے اوصاف کی طرف دیکھا، وہ پہلے ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شواف نے
نظریں نیچے کرتے ہوئے کہا۔ہاں میں نے جو کیا تھا، اس کے لیے میں شرمندہ ہوں
۔ میں اس کے لیے سب سے معافی مانگتی ہوں لیکن بیٹا میں اس گھر میں اور
تمہارے پاپا کی زندگی میں واپس آنے کی حقدار نہیں۔ کچھ غلطیوں کی معافی
نہیں ہوتی۔ شواف کی انکھوں سے آنسو چھلک گئے ۔ سوہا خاموش اور اداس تھی۔
اس نے شواف کو مذید کچھ نہیں کہا ،وہ اپنی ماں کو روتا ہوا نہیں دیکھنا
چاہتی تھی۔ شواف گھر سے جا چکی تھی۔ مومنہ کے دونوں بچے بہت خوش تھے۔ سوہا
بہت اداس تھی مگر شواف نے اسے اپنے پاس آ کر رہنے کی پیش کش کی ۔ اس نے
اوصاف سے اجاذت مانگی کہ وہ کچھ دن اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ اوصاف
نے خوشی سے اسے اجاذت دے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوہا جب شواف کے ہاں رہ رہی تھی تو اس نے اپنی ماں سے سوال کیا۔ ماما آپ
نے کیوں واپس پاپا کے ساتھ سے انکار کر دیا۔ کیا آپ پاپا سے پیار نہیں
کرتی۔ شواف نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پیار، تم اگر پیار کامطلب لینا ، دینا
سمجھتی ہو تو ،زندگی کے ایک حصے میں ،میرا بھی خیال یہ ہی تھا کہ جیسا میں
سوچتی ہوں ،ویسا ہی میرے محبوب کو سوچنا چاہے ، میں جو ٹھیک سمجھوں اسے بھی
وہی ٹھیک لگنا چاہیے۔ لیکن آج میرے خیالات علم نے اور زندگی کے تجربات نے
بدل دیے ہیں ،محبت میں محبوب کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنا ، اس کی پسند
و ناپسند کو سمجھنا کہ وہ آپ سے مختلف ہو سکتی ہے لازمی ہے۔ ہمارے اردگرد
شادیاں اسی لیے ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ شوہر بیوی کی یا پھر بیوی شوہر کی
انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔کچھ لوگ اپنا آپ مٹا دینے کو
،اپنی انفرادیت کو ختم کر لینے کو محبت قرار دیتے ہیں پھر اس بات کا رونا
روتے ہیں کہ میں نے تمہارے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔سچائی تو یہ ہوتی ہے کہ
ان کے پاس کچھ ہوتا ہی نہیں ،جس کو وہ قربان کر سکیں۔ محبت کرنے کے لیے کسی
کے ساتھ رہنا لازمی نہیں ۔ہاں اچھا ہے ۔بیٹا محبت روح کی بالیدگی کا نام ہے
، اپنی بھی اور دوسرے انسان کی بھی۔یہی تو وجہ ہے کہ انسان سب سے ذیادہ
پائدار محبت ایک انسان سے ہی کرتا ہے ،جو اس سے بہتر بننے کا ،خود کو محبت
کے قابل بنانےکا تقاضا کرتی ہے ۔محبت دینے کا نام ہے کہ پا لینے کا۔ میں
چاہتی ہوں کہ تمہارے پاپا کی زندگی پرسکون رہے اور میری بھی۔
(ختم شد)
|