سلمان نے روزی کو مخاطب کرکے اپنا اٹل فیصلہ سنانا
چاہا،،،اس نے اپنی بات
میں وزن پیدا کرنے کے لیے لاجک ڈھونڈنا شروع کر دی،،،اکتائے ہوئے لہجےمیں
کہا،،،میں تنگ آگیا ہوں،،،چھوٹے چھوٹےکام کرکے،،،روز شام کو کل کی فکر ہو
جاتی
ہے،،،کہ کل کچھ پاس ہوگا،،،یا پھر خود کو کوسنا ہو گا،،،
زندگی ایسے نہیں گزاری جاسکتی،،،ویسے بھی بڑے کہتے ہیں،،،جب انسان محتاجی
کی جانب بڑھنےلگے،،،تو سفر کرلینا چاہیے،،،میں بھی یہاں سے اب بوریا بستر
سمیٹ
لینا چاہتا،،،شاید ہوا پانی بدل لینے سے ہاتھ کی لکیریں بدل جائیں،،،میں اب
اتنا
گیا گزرا بھی نہیں،،،کہ خود کو سہارا بھی نہ دے پاؤں،،،
لوگ اس دنیا میں بہت سے بے سہارا لوگوں کاسہارا بن جاتے ہیں،،،تو کیا میں
خود کا
بھی سہارا نہیں بن سکتا،،،
روزی کے چہرے پر اک کے بعد دوسرا کرب آ آ کر گزرنےلگا،،،ماں کی محبت نے جو
خوشی دی تھی،،،اب وقت پھر سے اسے وہاں دھکیل رہا تھا،،،جہاں سے گزر کے اسے
درد سے ہی آشنائی ہو پائی تھی،،،
سلمان کی مایوسی اسے حیرت اور دکھ دے رہی تھی،،،وہ کیسے سب سے سامنے
خود کو بے نقاب کردیتی،،،
مگر سلمان کو کچھ تو سمجھنا چاہیے تھا،،،آج سلمان کے لہجے میں کس قدر
اجنبی پن تھا،،،جو لمحوں میں دوسروں کی خوشی کے لیے خود کو وقف کردیتا تھا،،،
آج بے بس سا کیوں ہے،،،
ندا کے پورے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی،،،جو چاند میرا نہیں،،،اچھا
ہے
کسی کا بھی نہیں،،،دل نے گنگنا کرکہا،،،مس روزی جو میرا نہیں،،،وہ تیرا بھی
نہیں،،،
تمام تر دولت حسن کے باوجود سلمان نے اسے ٹھکرا دیا تھا،،،
ندا کے لیے لائے ہوئے کپڑے بے دلی سے روزی نے بانو کے حوالے کردئیے،،،روزی
کے
لہجے کی کھنک کہیں دفن ہو گئی تھی،،،بانو نے بھی محسوس کیا روزی کا موڈ آف
ہوگیا تھا،،،
مگر اگلے ہی لمحے روزی کا اعتماد واپس آگیا،،،اس نے بھرپور لہجے میں
کہا،،،اور
اس کا مخاطب کوئی اور نہیں،،،صرف سلمان تھا،،،
خیر جو بھی ہے،،،اک بات کان کھول کر سن لو،،،مسٹر سلمان!!!۔۔۔۔۔(جاری)
|