علماء وفضلاء کی مجلس کے میر مگر کبر و بڑے پن سے
متنفر، بے لوث محبت کر نے والے ہزاروں افراد کے محبوب ،جذبۂ فدائیت سے
سرشار بے شمار طلبہ کے منظور نظر مگر ناز محبوب اتراہٹ معشوق سے عاری
،میدان علم و تحقیق ،حلقہ درس وتدریس میں اعتبار واعتماد کا مقام حاصل
کرلینے والے مشہور اساتذۂ فن کے استاذ مگر انکساری و عاجزی کے پیکر،سیاسی
گلیاروں میں اہم مناصب پر براجمان قائدین کے مشیر ورہنما مگر زہد واستغناء
کا سراپا ، متعدد بیماریوں سے نبرد آ زما،پیہم عوارض سے دوچار مگر صابر
شاکر، مقبول مدرس ،عظیم محدث ، کامیاب منتظم مگر متواضع وملنسار، شعرو
شاعری میں کامل ،نظم گوئی میں پختہ ،نثر نگاری میں منفردوممتازمگر شہرت
پسندی اور امتیازی اطوار سے نفرت ،نہایت ذکی و دوراندیش مگر حصول منفعت سے
ناواقف،رحمدل وہمدرد،شیریں بیاں ،زبان پر پیار ومحبت سے لبریز موتی جیسے
حسیں الفاظ،جسم پر سادہ لباس،بھیڑ ومجمع سے بچ کر راستہ کے ایک پہلو پر
اکیلے چلنے کو ترجیح،شکایتوں کا ازالہ کر نے والے ،کسی کو شکایت کا موقع نہ
دینے والے،دیکھنے میں ہلکا پھلکاجسم وجثہ مگران کے معنوی کمالات و خوبیوں
کے آگے کوہ گراں شرمسار۔اگر مذکورہ اوصاف کا کسی انسانی پیکرمیں مشاہدہ ہو
تو یقین کر لیجیئے کہ وہ ہمارے استاذ حضرت مولانا ریاست علی صاحبؒ کی شخصیت
ہوگی، جو دنیا میں بھی محبوب تھے اور یقینا آخرت میں بھی اﷲ تعالی کے محبوب
ومقبول بندوں میں ہوں گے۔
تقریبا ۲۵؍۲۶ سال پہلے شمالی ہند کے معروف ادارے احقر کی مادر علمی جامعہ
عربیہ اعزازالعلوم ویٹ میں پروگرام کی مناسبت سے علماء کرام کی آمد تھی ،
صغر سنی اور لاشعوری کے باعث احقر کو ان علما ء عظام کے ناموں سے واقفیت
تھی نہ ہی ان کے علمی مقام اور بلند رتبی کی معرفت،وعظ وخطاب کا سلسلہ جاری
تھا کہ اناونسر صاحب نے ایک نئی شخصیت کو خطاب کی دعوت دی، سر پر دو پلی
ٹوپی ،سفید لباس ،رفتار وگفتار پر سنجید گی کا غلبہ ،مدعو موصوف کرسی خطابت
پر آے تو علماء حاضرین کی توجہ اور سامعین کے انہماک کے اضافے نے ذات گرامی
کی عظمت کا پتہ دیا، تقریر شروع ہوئی ،الفاظ کی شیرینی، گفتگو میں ٹھہراؤ
،پر لطف انداز ،دلچسپ مضمون ،ظرافت کی آمیزش اور سامعین کبھی سنجیدہ کبھی
مبتسم ،بتلایا گیا کہ آنجناب ہمارے اساتذہ کرام کے محبوب استاذحضرت مولانا
ریاست علی صاحب ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث ،ترانہ دارالعلوم
’’یہ علم و ہنر کا گہوارہ‘‘کے تخلیق کار ہیں ،اس پہلے تعارف نے مناسبت کا
نقش قائم کردیا۔پروگرام کے بعد اساتذہ کی مجلس میں حضرت کے حسن انتظام کا
ذکر ،ظرافت کے واقعات کامحبت بھرا تذکرہ احقر کے دل میں محبت کا رنگ بھرتا
رہا ،تا آنکہ احقر مادر علمی دارالعلوم میں داخل ہو گیا پھر تو حضرت والا
کو قریب سے دیکھنے اور استفادے کے بے شمار مواقع میسر ہوئے ، چناچہ پہلے ہی
سال، سال ہفتم میں مقدمہ مشکاۃ شریف ،نخبۃ الفکر ،اور مشکاۃ شریف جز اول
حضرت سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی،وقت کی پابندی ،درس کا نرالا انداز ،آسان
پیرائے میں مفہوم کی توضیح ،ترجمہ کا حسن ان سب پر مستزاد،طلبہ کے ساتھ
مشفقانہ برتاؤ ، کوتاہی پر لطیف پیرائے میں تنبیہ ،جیسے جیسے وقت گزرتا گیا
حضرت کی خوبیاں عظمت وعقیدت میں اضافہ کرتی رہیں اور اگلے سال دورہ حدیث
میں ابن ماجہ شریف کے درس میں آپ کی علمی شان مزید نمایاں ہو کر نظر آئی
۔احقر اکثر طلبہ میں حضرت والا سے محبت کی جھلک محسوس کرتا جس کی بنا پر
عصر بعد کی مجلس کے حاضرین میں شامل ہوگیا ،دورہ حدیث ،تکمیل افتاء ،معاونت
تدریس کی پوری مدت حضرت والا کی مجلس میں حاضری ،خدمت کے مواقع سے سعادت
حاصل کرتا رہا۔ جب احقر جامعہ قاسمیہ شاہی مراداباد منتقل ہو گیا تو دیوبند
حاضری کے موقع پر حضرت کی محبت وشفقت اور میزبانی سے محظوظ ہونے کا موقع
ملتا،پھر جب دارالعلوم دیوبند تقرر ہوا تو پھر سے حضرت والا شفقتوں سے لطف
اندوزہو نے اور قریب سے حضرت والا کی خوبیوں کے مشاہدہ کا موقع میسر
آیا۔حضرت کی ذات نوع بہ نوع خوبیوں کی حامل تھی ،علمی کمالات فنی مہارت
،اخلاقی محاسن کے ساتھ آپ کی بعض خصوصیات ایسی تھیں کہ راہ علم کے ہر راہی
کوانھیں اپنا نا چاہیئے۔
اصحاب فضل وکمال سے گہری وابستگی اور فضل وکمال کا حصول
درس میں حاضر ہو کر اساتذہ کی تقریر وتشریح کے چند حصوں کا محفوظ رہ جانا
،کتابوں کی ورق گردانی کرتے کرتے کچھ اصول وقواعد کا مستحضر ہوجاناایسی بات
ہے جس کا اہل کمال کے یہاں کوئی مقام نہیں ہے،لیکن اہل فضل وکمال کے دامن
کو مضبوطی سے تھام کر ،ان تھک محنت اور اساتذہ کی توجہات کے طفیل فن میں
کمال حاصل کرلینا یقینا قابل تقلید ہے ، حضرت کی زندگی میں یہ وصف بہت
نمایاں ہے،کہ آپ نے عربی زبان وادب ،اردو ادب ،اور فن حدیث میں ان فنون کے
ماہرین سے گہری وابستگی پیدا کرکے نمایاں مقام حاصل کیا۔
عربی زبان سے گہری مناسبت
آپ کے تمام شاگرد جانتے ہیں کہ آپ کو عربی زبان وادب سے گہری مناسبت تھی
دور طالب علمی میں ہی محنت وشوق کے ساتھ عربی زبان کے حاصل کرنے میں مشغول
ہوگئے تھے، اس وقت دارالعلوم میں باضابطہ شعبہ تکمیل ادب کا قیام نہیں ہوا
تھاحضرت مولانا وحیدالزمان صاحب کیرانوی دارالعلوم میں داخل ہو کر حصول
تعلیم میں مصروف تھے اور خود ذاتی طور پرطلبہ کو عربی زبان سکھا تے تھے
محنتی اور شوقین طلبہ مولانا کیرانوی سے عربی زبان سیکھتے تھے، حضرت مولانا
ریاست علی صاحب بھی مولانا کیرانوی سے وابستہ ہو گئے آپ عربی سیکھنے کی
خاطر بہت محنت کر تے تھے، دیواری پرچوں کی تیاری ان کی کتابت و تزئین میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ،ماہ نامہ الازہار کی ادارت آ پ سے متعلق رہتی تھی
،اپنے ساتھیوں مولانا عبدالجلیل آسامی مولانا لقمان الحق بجنوری کی معیت
میں اپنے ہاتھو ں سے کتابت کر کے دیواری پرچہ کوآویزاں کر تے، آپ کے ہاتھوں
کے تیار کردہ متعدد شمارے آج بھی النادی کے ریکارڈ کی زینت ہیں جو نہایت
خوش خط ،شستہ تحر یر، مختلف رنگ کے قلموں سے ڈیزاین کئے ہوے ہیں ان کی ہیئت
آج بھی بھلی معلوم ہوتی ہے ،الازہار رسالے کی پابندی اور بروقت اشاعت میں
حـضرت والا کی دل چسپی سے خوش ہو کر ایک مرتبہ حضرت مولانا کیرانوی نے
تشجیعی کلمات رقم فرمائے جن کوپرچہ میں شائع کیا گیا تھا مولانا کیرانوی کے
الفاظ تھے ، ہینئا لکم یاأغراس دارالعلوم ہنیئاً۔ لقد قمتم بواجبکم المہم
الذی اہملہ الجمیع حیث تقد مون الی اخوانکم الیوم ازھارا جمیلۃ ،یسر منظرہا
وتطیب رائحتھا النفوس حقا، لقد کسوتم الحدیقۃ القاسمیۃ رونقا و بہجۃ
،وزدتموہا بہاء وحسنا، بارک اﷲ فیما تقومون بہ وجعلکم موفقین فیما ترید ون۔
(الازہار ،العدد ، الاول۔۳؍ربیع الاول)مبارک ہو اے فرزندان دارالعلوم مبارک
،یقینا آپ لوگوں نے اپنے اس اہم فریضہ کو ادا کر دیا جس میں باقی ساتھیوں
نے سستی برتی ، آج تم اپنے بھائیوں کے سامنے خوبصورت پھول پیش کر رہے ہو،
جن کا منظر خوش کن اور ان کی خوشبو دلوں کو بھاتی ہے، حقیقت میں آپ لوگوں
نے چمستان قاسمی کو خوش منظری اور پر رونقی کا لباس پہنا دیا ،اس کے حسن
وخوبصورتی کی دوبالا کردیا اﷲ تعالی تمہاری سرگرمیوں میں برکت دے اور
تمہارے ارادوں کو کامیاب کرے۔
حضرت الاستاذ کا مختلف فنون کی عربی کتب سے اشتغال، عربی رسائل کا مطالعہ
،عربی زبان ادب سے انس رکھنے والوں سے محبت ،طلبہ کو عربی زبان کے حصول کی
ترغیب اور تدریس کی ابتدا سے ا نتہا تک عر بی ادب کی مختلف کتب کی تدریس آپ
کے ذوق عربی کی آئینہ دارہیں، تکمیل ادب میں داخل نصاب ’’ البلاغۃ
الواضحہ‘‘ تو تقریباً پوری مدت تدریس آپ سے متعلق رہی اورآپ دلجمعی سے اس
کو پڑھا تے، جن احباب کو البلاغۃ الواضحہ پڑھنے کا موقع ملا ہو وہ اس کتاب
کی دشواری ، انوکھے انداز تحریر، مشکل تمرینات، قد یم شعراء کے کلام سے
استشہاد،امثلہ کا اصول وقواعد سے انطباق ایسے مشکل امور ہیں جن سے طلبہ جی
چراتے ہیں، مگر حضرت والا کا پر کشش انداز، شفقت ومحبت سے لبریز گفتگو،
امثلہ کی تفہیم وانطباق، ظرافت کے چھینٹے، ذاربھی دشواری محسوس نہیں ہونے
دیتے تھے اور بہت جلدطلبہ کو فن سے مناسبت ہونے لگتی ۔
اردو ادب کا اعلی ذوق
آپ اردو ادب میں بھی اعلی ذوق کے حامل تھے ، دوران درس عربی عبارات کے
ترجمہ کیلئے مناسب وبرمحل الفاظ کا استعمال ،پرکشش پیرایہ ، مجلس یا
پروگرام میں مخاطبین کے فہم سے مسئلہ کو قریب کرنے کیلئے معتد ل و متوازن
اور مؤثر الفاظ کی تلاش آپ کے اردو ادب کے ذوق شیریں کا پتہ دیتی،آپ بہت
خوبصورت حشو و زوائد سے پاک نثر لکھتے تھے،اسی وجہ سے دارالعلوم کی جانب سے
جاری ہونے والی تحریریں ، تجاویز وغیرہ کی تیاری کیلئے آپ کی خدمات حاصل کی
جاتیں۔ حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے انتقال کے بعد آپ کو شیخ الہند
اکیڈ می کا ڈائریکٹر متعین کیا گیا، چنانچہ مضمون نگاری وصحافت میں طلبہ
کوفائدہ بہم پہنچا نے کے ساتھ اکیڈمی نے ترقی کے مراحل طے کئے، آپ کے زمانے
میں متعد د کتابیں منظر عام پر آئیں ،اسی طرح رسالہ دارالعلوم دیوبند کی
ادارت بھی آپ کے سپرد کی گئی، غرضیکہ شوری کی شرعی حیثیت ، رسالہ دارالعلوم
کے اداریئے ، ایضاح البخاری کی ٹکسالی اور خوبصورت زبان سے ہر کوئی آپ کے
اردوادب میں بلند ذوق ہونے کی شہادت دیتا ہے، جس میں آپ کی ذاتی محنت ولگن،
کثرت مطالعہ کے ساتھ حضرت مولانا فخرالدین صاحب کی عمدہ بیانی اور کاشف
الہاشمی صاحب کی صحبت وتوجہ کا بھی حصہ ہے جس کی بدولت آپ کی زبان میں
نکھار پیدا ہوا۔
بلند پایہ شاعری
اردو شاعری کا بھی آپ کو اچھا ذوق تھا،معیار بلند اور مقبول ترین ، آپ کے
اشعار میں لطافت فکرو خیال کی بلندی دل کوچھو جانے والی تعبیرات، اور سہل
انگیزی بکثرت ملتی ہے، آ پ نے اردو کے نامور شعراء مثلاً غالب، مومن، میر،
اقبال، او رمجاز لکھنوی کے بعض اشعار کو سامنے رکھ کر ان کے بیان کردہ
مضامین کو ان سے عمد ہ اور واضح پیرایہ میں کہنے کی کوشش کی ، اصحاب فن کے
بقول آپ اپنی اس کو شش میں مکمل کامیاب ہیں جس سے آپ کی قدرت شعرگوئی، نیز
قدیم شعراء کے کلام پر نظر عمیق کا اندازہ ہوتا ہے ،آپ کا مجموعہ کلام
’’نغمہ سحر‘‘کافی پہلے شائع ہوا اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاگیا ،اردو
اکیڈمی لکھنو کی طرف سے اس پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔نیز آپکا ترتیب دیا ہوا
ترانہ دارالعلوم تو شعری دنیاکا بے مثال ادبی شاہکار ہے جو بحر طویل کے
۳۱اشعار پر مشتمل عقیدت ومحبت کا شاندار نذرانہ ہے، جس میں دارالعلوم
دیوبند کی تمام تاریخ کا خلاصہ ، مزاج ومنہاج ،موسسین کی آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم سے گہری مناسبت ، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تاسیسی اشارے ،کوہ صفا
کی صدائے دعوت ، مدینہ منورہ سے رشتہ محبت، حضرت شاہ ولی اﷲ سے فکری
مناسبت، تحریک آزادی کی قیادت ، حضرت حاجی امداداﷲ حاجی عابد حسین صاحب
حضرت نانوتوی حضرت گنگوہی حضرت تھانوی حضرت کشمیری ، حضرت شیخ الہند، حضرت
مدنی حضرت مولانا فخرالدین صاحب وغیرھم اور سرپرستان، ذمہ داران ،اساتذہ
،مشہور فیض یافتگان کا تذکرہ، ان کی خصوصیات وا متیازات کی طرف لطیف تلمیح
، دارالعلوم کی تعلیمی خصوصیات ، تربیتی امتیازات ،جذبہ عمل جگانے،رازی کی
نظر سے استفادہ ،رومی کے طرز کو اپنانے ،نیزمعاشرہ کی اصلاح ،دینی روح
پروان چڑھانے میں دارالعلوم کردار کو بیان کرنے کے ساتھ شاعر نے ماضی حال
مستقبل ہر زمانے سے متعلق ترجمانی کو ایسے حسیں پیرایہ میں ڈھالا ہے کہ
سننے والا اس کی خدمات، قربانیوں، منصوبوں اور اس کے مزاج سے بخوبی واقف
ہوجاتا ہے، ترانہ کیلئے الفاظ کا حسین انتخاب ،معانی کی وسعت، بر جستگی پھر
دارالعلوم کی آفاقیت وطرز اعجاز کی توضیح نے ترانہ کو انفرادیت عطا کردی
ہے، بعد کے شعراء کی جانب سے اس ترانہ کی نقل کی بہت کوشش ہوئیں مگر کسی کو
اس کے جیسا قبول حاصل نہ ہوسکا۔یہ آپ کی شاعری کے بلند معیار ہو نے کی دلیل
ہے ،جس میں مولانا کاشف الھاشمی کی محبت وتربیت کاخصوصی حصہ ہے۔
حدیث شریف سے خصوصی شغف
آپ کی زندگی کا زیادہ حصہ حدیث شریف کی خدمت میں گذرا،حدیث شریف سے آپ کو
خصوصی شغف تھا، علوم کی تکمیل کر کے جس وقت آپ دورہ حدیث کے درس میں شامل
ہوئے اس وقت دارالعلوم دیوبند کی مسند حدیث پر حضرت مولانا فخرالدین صاحب
جلوہ افروز تھے جن کے درس کی نرالی شان، احادیث کی مبسوط دل نشیں تشریح اور
ٹکسالی زبان کے چرچے ہر زبان پر جاری تھے، حضرت مولانا نے ان کے دامن کو
مضبوطی سے تھام لیا، اس گہری وابستگی نے استفادے کے مواقع فراہم کئے چنانچہ
آپ نے پابندی کے ساتھ حاـضردرس ہوکر حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کے درسی
افادات کو قلم بند کرنا شروع کیا ،پھرمزید علمی تشنگی دور کرنے اور استفادے
کی غرض سے دوسرے سال بھی دورہ حدیث کے اسباق میں شامل ہوئے، اس مرتبہ بھی
افادات کو قلم بند کیا۔ فراغت کے بعدبھی حضرت شیخ سے ا ستفادہ کرتے رہے ،آپ
کو حضرت شیخ سے عشق کی حد تک تعلق تھا، حـضرت کی زندگی میں ہی درسی افادات
کو ایضاح البخاری کے نام سے ترتیب دے کر حضرت شیخ کی نظر ثانی کے ساتھ شائع
کرنا شروع کردیا تھا یہ صرف ایک درسی تقریر نہ تھی بلکہ اس میں تمام شروح
بخاری کا عطر، اکابر دارالعلوم کی تحقیقات کا نچوڑ، تراجم ابواب پر محققانہ
گفتگو ،حضرت والا کے ذوق کے مطابق اس انداز سے مرتب کی گئی ہے کہ فن حدیث
سے واقفیت رکھنے والے اس کی اعلی شان اور قدرو قیمت کا اعتراف کرتے ہیں۔
بڑوں چھو ٹوں ہر ایک کا اعتماد
زندگی میں انسان کتناہی بلند مقام حاصل کرلے مگر حصول اعتماد سے محروم رہ
جاتا ہے دوسرے تو کجا بسا اوقات اپنے بھی اس پر اعتماد نہیں کر پاتے مگر
حضرت والا کی خوبی کہ آپ کو اپنوں، پر ایوں ہر ایک کا خوب اعتماد حاصل
ہوا۔کسی بھی کام کے آپ کے سپرد ہوجانے ،آپ سے مشورہ کرنے ،آپ کی طرف سے
تائیدمل جانے پر لوگ مطمئن ہو جاتے تھے ،اپنے پھوپا حضرت مولانا سلطان الحق
صاحب کا اعتماد ، اساتذہ کا اعتماد ، خصوصاً حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا
فخرالدین صاحب کا اعتماد آپ کے شخصی جوہراورطبعی سلامتی مزاج کے استحکام کو
نمایا ں کر تاہے، جب آپ دارالعلوم دیوبند میں تدریس پر مامور ہوئے تو ذمہ
داران اور اراکین کا اعتماد بھی آپ کو حاصل رہا، دارالعلوم دیوبند کی نشاۃ
ثانیہ میں تو آپ انتظامیہ کے دست راست اور فکر وخیال کا اساسی رکن قرار
پائے، اس دور کے حالات کا مشاہدہ کرنے والے حضرات آپ کی اس وقت کی خدمات
،استقلال واصابت رائے کا وقیع الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں، آپ کو جوذمہ داری
بھی ملی آپ نے اس کے گیسو کوسنوار کرنئی جہت عطا کی۔ معاملات کی شفافیت ،
نظام کے استحکام کی غرض سے اصول وضع کئے جو بعد کے زمانہ میں معمول بہ قرار
پائے، بہت سے اہم امور کو آپ کے مشورے کے بعد ہی عملی شکل دی جاتی۔اساتذہ و
طلبہ کے علاوہ دیگر لوگ بھی اپنے نجی معاملات میں آپ سے مشورہ کرکے اطمینان
حاصل کرتے۔
ملی مسائل سے دلچسپی
عزلت پسندی ، کم آمیزی، اسفار سے طبعی نفرت کے باوصف ملی مسائل سے بھی دل
چسپی رکھتے ، اور سر گرم تنظیموں میں جمعیت علماء ھند کے نظریہ سے اتفاق
رکھتے تھے، اپنی جوانی کے ایام میں اس سے وابستہ بھی رہ چکے تھے، دارالعلوم
دیوبند میں مصروف تدریس ہونے کے بعد بھی ذمہ داران جمعیۃ سے روابطہ، اجلاس
میں شرکت ،اہم امور میں مشورے دیتے رہتے تھے، اخیرعمر میں اس کے رکن عاملہ
اور پھر نائب صدر بنا دیئے گئے، اور تا زندگی اپنے تجربات اصابت رائے سے اس
عہدہ کو زینت بخشتے رہے۔
آپ اپنی زندگی میں وفاشعار، سخی ،فیاض ، کمزوروں کے معاون ،بے سہاروں کے
محسن تھے، کتنے ہی ایسے لوگ تھے، جن کوآپ کے علاوہ گھر کا کوئی فرد نہ
جانتا تھا اور آپ کے ذریعہ ان کا تعاون جاری رہتا، تعلقات کو نباہنا ، رشتہ
داروں اور بڑوں کے تعلقات کو باقی رکھنا آپ کا خصوصی شعار تھا بسا اوقات
عصر بعد کی مجلس میں کسی شریک کی عدم سنجیدگی ،بدا خلاتی کی وجہ سے
پراگندگی ہو جاتی ، دیگر شرکاء کو ناگواری ہوتی مگر آپ صورت حال کو نباہنے
کی کوشش کرتے اور نباہتے رہتے۔
الغرض: ذاتی محنت ولگن، اساتذہ فن سے گہری وابستگی پیدا کر کے فنی مہارت کا
حصول، رواداری، اصابت رائے ،بڑوں چھوٹوں کے اعتماد کا حصول، حضرت والا کی
قابل تقلید صفات ہیں جس وقت انھیں شعور ملا، وہ یتیم ہوچکے تھے ،اور جب
دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنوں پرائیوں کے جم غفیر نے خود کو یتیم محسوس
کیا،آپ کو انفرادیت عطا کرنے والا یسا اتفاق کم ہی انسانوں کے حصہ میں آتا
ہے ، آپ بلند صفات کے حامل اور اعلی مقام پر فائز تھے، اچھے تھے، اﷲ تعالی
نے مزید بلند مقام عطا کر کے زیادہ اچھوں میں شامل کرلیا، آپ کی زندگی کے
روشن نقوش پسماندگان ، عقیدت کیشوں کے لئے خصوصاً اور سبھی کیلئے عموما ً
قابل تقلید ہیں ۔ |