ایک جملے میں وضع کیا جائے تو ڈاکٹر کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔ ڈاکٹر
جو معالج بھی ہے اور مسیحا بھی ۔انسانیت کی خصوصیات اس عنصر میں بے دریغ پائی جاتی
ہیں- لیکن اگر یہی مسیحا دیگر شعبوں کی طرح صرف دولت کدہ بنانے میں لگ جائیں اور
پروفیشنلیزم کا ٹیگ اپنے آپ پر لگا کر اپنی زمہ داری ادا کرنے نکل پڑیں تو کوتاہیوں
اور غفلت کا باعث بنتے ہیں اور اگر ضمیر مردہ ہو جائیں توکسی زندہ کو مردہ کرنے میں
زرہ دیر نہیں کرتے- گورنمینٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹرز میریٹ کی بنیادوں کو چھو کر نہیں
گزرتے۔ پرچی سسٹم کے تحت آنے والے یہ مسیحا کے روپ میں قاتل کا درجہ رکھتے ہیں یہ
اپنے تمام تر تجربے اس غریب طبقے پر آزماتے ہیں جن کے لب بھی مفلسی اور بیماری نے
جکڑ رکھے ہیں اور جنہیں پہلے ہی ملکی و معاشی حالات نے زندہ درگور کر دیا ہے۔
گورنمنٹ ہسپتالوں میں فنڈز کا رونا رو کر اپنی جیبیں بھرتےاعلیٰ درجے کے یہ مسیحا
غریبوں کے سینوں میں آخری کیل ٹھونک دیتے ہیں اور اگر کوئی بدقسمتی سےان کے خلاف
آواز اٹھانے کی جسارت کر لے تو معاشرے میں عدم برداشت کا قصیدہ پڑھتے دکھای دیتے
ہیں۔ کوئی تو ہو جو ان کا احتساب کرے؟
اس بات کا سدِباب کرنا نہایت ضروری ہےکے سینیر ڈاکٹرز اپنے مریضوں کو جونیئیرز یا
نئے آنے والے ناتجربہ کارڈاکٹرز کے ہاتھوں میں دے کر اپنے پرائیوٹ کلینکس کی طرف
رخصت کیںوں ہو جاتے ہیں۔ کم سے کم جونئیرز ڈاکٹر جب تک ایمرجنسی سیچویشنکو ٹیکل
کرنے میں مہارت حاصل نہ کرلیں ۔مریضوں کو ان کے حوالے کر کے رخصت ہو جانا سراسر ظلم
ہے۔ اور ان سینیرز ڈاکٹرزکی سپرویژن میں کام لیا جئےتاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا
سکے -
اس بات کو یقینی بنایاجائے کے معاشرے میں ہر طبقہ ان فیسلیٹیز سے فائدہ اٹھائے جو
گورنمنٹ صرف اعلیٰ عہدیداران کو دیتی ہے- میریٹ کی بنیادوں پر جو مزاق کیا جا رہا
ہے اسے بند کیا جائے اور اور درست سکروٹنینگ کے زریعے قابل نوجوانوں کو ان کا حق
دیاجائے اور انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کے وہ تجربہ کار ہو کر ملک سے باہر نہ
جائیں بلکے انہیں وہ تمام تر مراعات دی جا ئیں جو انہیں اپنے ملک سے بیوفائی کرنے
پر مجبور کرتی ہیں- خدا جانے یہ سب صرف خواب رہے گا یا اس کی کوئی تعبیر بھی ہو گی
-
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ -
|