کیا ہم زندہ کہلانے لائق ہیں

کہا جاتا ہے کہ اگر تم معاشرے کو باقی رکھنا چاہتے ہو تو اس میں موجود انسان کو زندہ رکھنا ہوگا۔ آج بحیثیت پاکستانی اگر میں خود پر نظر ڈالوں تو مجھے معلوم پڑتا ہے کہ میرے اندر کا انسان تو جانے کب کا مر چکا ہے۔۔۔۔۔۔ حالیہ سیلاب جو کہ ھماری زندگی کا تباہ کن سیلاب تھا جس میں دو کروڑ پاکستانی متاثر ہوئے۔۔ اس نے باقی کے سولہ کروڑ پاکستانیوں کو کتنا متاثر کیا تو یہ حقیقت ہم پر آشکارا ہوتی ہے کہ شاید ان سولہ کروڑ میں سے صرف چند لاکھ ہوں گے جن کی زندگیوں میں کوئی رونما ہوئی ہوگی۔۔ نہ تو ھمارے اخراجات میں کوئی کمی واقع ہوئی اور نہ ہم نے دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا مناسب جانا۔۔

ایک خبر جو عید کے روز ہی کے اخبارات میں شائع ہوئی وہ آپ کے ساتھ بھی شئیر کرتا ہوں۔۔ ایک محنت کش نے عید پر بچوں کے لیے خریداری نہ کر سکنے پر خودکشی کر لی۔

یہ ایک طمانچہ ہے ان نام نہاد عوام کے خیرخواہوں کے منہ پر جو اپنی کسی بھی تقریر میں عوام کو تنھا نہ چھوڑنے کا دعوٰی کرتے ہیں لیکن انہی کے محلوں کے پاس سے بھی عوام کو گزرنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قصور کن کا ہے۔۔ ان حکمرانوں کا جو خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں لیکن عوام کے لیے ہمیشہ حاکم ہی رہتے ہیں۔ یا پھر عوام کا جو انہیں خود اپنے اوپر حکومت کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔ تو میں حکمرانوں کی بجائے خود کو یعنی عوام ہی کو مورد الزام ٹھراؤں گا جو خود اپنے ذاتی مفادات کو نگاہ میں رکھتے ہیں ۔۔۔ ان میں کمی ہے تو قومی سوچ کی ۔۔ کمی ہے تو اتحاد کی ۔۔۔ کمی ہے تو ملی شعور کی۔۔۔۔۔

جس دن یہ کمی دور ہو جائے گی اسی دن سے ہماری ملکی ترقی کا آغاز ہو جائے گا۔ مگر معلوم نہیں آغاز کے سورج کو دیکھنے سے پہلے ہمیں ظلم و بربریت کی کتنی شامیں دیکھنا ہوں گی۔۔۔ اللہ کرے کہ اب یہ رات مزید طول نا پکڑے۔ آمین۔
khalid_kisana
About the Author: khalid_kisanaI am teacher..... straight person as many say about thier selves....
studying ACCA(UK).
.. View More