دعوتیں، ضیافتیں اور تقریبات اخوت ومحبت کا مظہر، انسانی
زندگی کا جزء لاینفک اور اسلامی سنت وشعار ہے ۔ عموماانسان اپنی خوشی کے
اظہار میں تقریب کا اہتمام کرتا ہے اور لوگوں سے اپنی خوشیاں بانٹتا ہے ۔
آج سے پہلے دعوت وتقریب کا ماحول ومنظر کچھ اور تھا آج مغربی تہذیب وتمدن
کی نقالی ،مسلمانوں میں قسم قسم کے رسوم ورواج کی ایجاداور مختلف طورطریقے
رواج پاجانے سے دعوتوں میں نہ صرف تکلفات ومشکلات پیدا ہوگئیں ہیں بلکہ یہ
دعوتیں دین اسلام کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں ۔ ایک طرف میزبان میں
ہزار خامیاں تو دوسری طرف مہمان میں سیکڑوں قابل گرفت باتیں پائی جاتی ہیں
۔ دونوں طرف مختلف قسم کی خامیاں ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف دعوت دینے میں
پریشانیاں ہیں بلکہ دعوت میں شریک ہونے میں بھی بیحد مشکلات کا سامنا ہے ۔
کہیں پر اچھیمسلمان کو کسی دوسریمسلمان کی ناجائز دعوت مثلا بیٹے کی یوم
پیدائش یا تیجہ وفاتحہ کی دعوت میں شرکت کرنا دینی اعتبار سے مشکل کاسبب
بنا ہواہے، جائے تو دین کی مشکل اور نہ جائے تو رشتہ داری کی مشکل۔ اور
کہیں کوئی جائز دعوت مثلاولیمہ کااہتمام کرتا ہے تو اس میں دنیا بھر کی
خرافات موجودہوتی ہیں ۔ عورتوں کا بن سنور کر ،زیب وزینت کا اظہار کرکے
مردوں کے ساتھ میل جول ، گانے بجانے ، آلات لہو دوسری طرف،کھڑے کھڑے کھانا
اور پینا اپنی جگہ ، اختلاط مردوزن کی عریاں تصویر کشی اس پر مستزاد ، کیا
کیا گنایا جائے آج کل کی پرتکلف وفضول خرچ ضیافت کے حالات وکیفیات کون نہیں
جانتا؟۔ اﷲ کی پناہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل واقعی کھانے کی دعوت میں اس قسم کی ہزاروں
دینی ودنیاوی مشکلات ہیں ،گلوبلائزیشن کی وجہ سیبڑی تیزی سے حالات بدسے
بدتر ہورہے ہیں ۔ دعوت میں فضول خرچی، دکھاوا، عریانیت ، رسم ورواج ، بدعات
وخرافات ، رقص وسرود اوراختلاط عام سی بات ہے ۔ کوئی اس میں جائے تو کیسے
جائے ؟ اس پہ مستزاد ان لوگوں کی دعوت جو رشتہ دار ہوں اور سودی کاروبار
کرتے ہوں یا شرک وبدعات میں ملوث ہوں یا فسق وفجور کے عادی ورسیا ہوں ۔
اسلام ہرموڑ پہ ہماری رہنمائی کرتا ہے ، دعوت کے سلسلے میں بھی اس کے واضح
اصول ونظریات ہیں ،مسلمان کے باہمی چھ حقوق میں سے ایک حق دعوت قبول کرنا
ہے مگر ان اصولوں کو سختی سے برتنا آج کے زمانے میں بیحد مشکل ہے یا یہ کہہ
لیں کہ اگر کوئی خالص اسلام پہ چلے تو اکثر دعوت میں شریک نہیں ہوسکتا ۔
دعوت کے سلسلے میں اسلام کے چند اصول سامنے رکھیں تو ہمارے لئے اس میں
آسانی ہوگی ۔ان شاء اﷲ
سب سے اہم اور اعلی قسم کی بات ذہن نشیں کرلیں کہ حرام دعوتیں یعنی فسق
وفجور ،کفروشرک، شراب وکباب،رقص وسرود ، عریانیت وفحاشیت اور حرام کھانے کی
کوئی دعوت دے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر ، دوست ہو یادشمن ، رشتہ دار ہو یا
غیر ایسی دعوت میں شرکت کرنے کی اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا۔ اس دعوت میں
شریک نہ ہونے پر رشتہ دار ناراض ہوجائیں کوئی پرواہ نہ کی جائے ، مقاطعہ
کرلے آپ کوکوئی گناہ نہیں ، آپ اپنی طرف سے علیک سلیک جاری رکھیں اور اس
راہ میں کچھ ایذارسانی سہنی پڑے تو اجر ملے گا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کچھ دعوتیں اسلام کے نام پرانجام دی جاتیں ہیں مثلا
میت کے نام سے تیجہ ، فاتحہ، گیارہویں، تیرہویں اور نذرونیازوغیرہ یہ بھی
مذکورہ بالادعوت کی طرح حرام دعوتیں ہیں ان میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے ۔
کچھ دعوتیں حرام کی قبیل سے نہیں ہیں مثلا شادی کے موقع سے بارات کا اہتمام
کرنا مگر ا س سے بھی پرہیز ہزار گنا بہتر ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ بدعتی ومشرک کی دعوت مسلمانوں کے باہمی چھ حقوق میں سے
نہیں ہے یعنی اگر شرک وبدعت کرنے والے دعوت دیں تو اس میں شرکت نہ کرنا
گناہ کا باعث نہیں ہے کیونکہ آپ کی عدم شرکت اﷲ کی رضا کے لئے ہے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی دعوت میں شریک نہ ہونا بھی گناہ کا باعث
نہیں ہے جو کسب مال میں حلال وحرام کی پرواہ نہیں کرتییا حرام ذرائع سے دھن
دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح فاسق وفاجر کی فسق وفجور والی
دعوت کاحکم ہے جیساکہ پہلے شق میں عرض کیا جاچکا ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اگر کافر یا مشرک حلال کمائی سے ایسی دعوت دے جس میں
شرعاقباحت نہیں تواسلامی رواداری کے تئیں اس میں شرکت کرنا جائز ہے لیکن
اگران سب سے خیر کی کوئی توقع نہ ہو بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے برے
ہوں تو پھر اس میں شرکت نہ کی جائے ۔
چھٹی بات یہ ہے کہ اگر کوئی سودخور، حرام خور، بدعتی اور فاسق وفاجر گلمہ
گو مسلمان دعوت دے تو بطور عبرت اس کی دعوت میں شریک نہ ہونا ہی بہتر
ہیتاکہ لوگوں کو عبرت اوران کی حوصلہ شکنی ہو ۔ گوکہ دنیاوی اعتبار سے اسے
کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر دینی اعتبار سے اس میں ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہے
۔ اگر اس میں شامل ہونا کسی مجبوری یا مصلحت کے تحت ہو تو مزید چند باتیں
ملحوظ خاطر رکھیں ۔
٭ دعوت میں کھانے کی حیثیت سے شامل ہوں اور برے امور، برے لوگ اور برائی
والی جگہوں سے دور رہیں مطلب کھانے سے سروکارہواور شر پہ معاون نہ بنیں۔
٭ خالص سود یا حرام کی کمائی سے کھلانے والے کی دعوت ہرگز ہرگز قبول نہ
کریں ، ہاں کچھ مچھ ملا ہو تو کھالینے میں حرج نہیں ہے جیساکہ نبی ? سے
یہودی کی دعوت کھانا ثابت ہے جو لوگ سودی کاروبار کرتے تھے۔
٭ دعوت میں پکی وہی چیزیں استعمال کریں جو شرعا حلال ہوں ۔
٭ ایسی دعوت میں جہاں منکر دیکھیں ہم اس کے خاتمہ کی کوشش کریں ، اس کام پہ
اپنے موافق ساتھیوں سے بھی تعاون لیں، کم ازکم زبان سے منکر پہ لوگوں کی
نصیحت ضرور کریں خواہ رشتہ دار ہوں ، دوست واحباب ہوں یا بڑے گھرانے کے
رئیس ونواب۔
یہ آخری نکتہ میری نظر سے زیادہ اہم ہے کہ آپ ایسی دعوت میں جہاں خلاف شرع
کچھ باتیں پائے جانے کا اندیشہ محسوس کرتے ہیں اور وہاں جانے کی مجبوری بھی
ہیتوآپ وہاں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی حیثیت سے شریک ہونے کی نیت
کرلیں ، اﷲ کی طرف سے ثواب ہی ثواب ملے گااور اس فریضہ کو حکمت ومصلحت کے
ساتھ انجام دینے کی کوشش کریں ۔میری اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہ نکالاجائیکہ
فحش وحرام والی دعوت میں شامل ہواجاسکتا ہے ،ہرگز نہیں میرا کہنے کامقصد یہ
ہے کہ بسااوقات جائز قسم کی دعوت میں بھی کچھ منکرات پائے جاتے ہیں ، آدمی
چاہے تو سب کو نہیں کچھ کو ضرور سمجھا سکتا ہے اور ہمارا کام بس تبلیغ
کردینا ہے ،ہدایت اﷲ کی جانب سے ہے ۔ |