کوا چلا ہنس کی چال،اپنی بھی بھول گیا۔یہ محاورہ زبانِ
زدوعام ہے اور یقینا آپ سب کی سماعتیں بھی اس محاورے سے شناسا ہوں
گی۔محاورات و حکایات اخذ کرنے والوں نے دیگر مخلوقات میں موجود جبلتوں کا
سہارالیتے ہوئے اور اس کے اچھے برے نتائج کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے
حضرت انسان کے اندر موجود طمع خام کے خمیر کے اثر کو زائل کرنے اورخرد و
دانش کے بیج بو کر جہالت کے بنجر پن کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر یوں
لگتا ہے کہ سب لا حاصل ہے۔کوئی شخص بھی ان حکایات سے حکمت کے موتی چننے کا
روادار نہیں ہے اور نہ ہی ان غلطیوں سے اپنی اصلاح کی طرف راغب ہے۔بلکہ ہم
تو یوں تاثر دیتے ہیں کہ ہمیں ان اسباق و امثال سے چنداں دلچسپی نہیں
ہے۔کوا ہمت اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھ کنکر ڈال ڈال کر پانی
اونچا کرے۔خرگوش تکبر کی وجہ سے دوڑ ہار جائے۔بکری نیکی کرنے کا فلسفہ
سمجھاتے ہوئے شیر کے بچے کو پالے۔کتا لالچ میں آ کر اپنا ہی عکس پانی میں
دیکھ کر ہڈی گنوا بیٹھے۔بندر مریض کو بچانے کی خاطرشاخوں پہ اچھل اچھل کر
بڑی بھاگ دوڑ کرے یا لومڑی کی ناکامی سے انگورکھٹے ہو جائیں۔ہمیں اس سے
مطلقاً کوئی سروکار نہیں۔کوا ہنس کی چال کی نقل کرتا کرتا اپنی بھی چال
بھول گیا پر ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم غور کریں کہ انگریزی سیکھتے سیکھتے ہم
اردو بھی "منہ" سے گنوا بیٹھے ہیں۔احساس کمتری کی ایک بڑی علامت یہ ہوتی ہے
کہ دوسروں کی چیز دیکھتے ہی اپنے پاس موجود عمدہ چیز بھی حقیر معلوم ہونے
لگتی ہے۔مسلمانوں میں سے کچھ ایسے"خیر خواہ" اٹھے جنہوں نے تمام مسائل اور
غلامی کی جڑ انگریزی زبان سے ناواقفیت کو قرار دیا اور احساس کمتری کا شکار
ہوئی قوم نے ان کی بات کو ایسا سچ تسلیم کیا کہ اپنی وسیع اور زرخیز زبان
اردو حقیر معلوم ہونے لگی اورانگریزی کو تعلیم کے معیار کے طور پر ہمارے
سروں پر مسلط کر دیا ۔یہی ہمدردانہ سبق آج تک ہماری جڑوں میں بیٹھا ہوا
ہے۔جہاں تک مجھے علم پڑتا ہے یہ "خیر خواہی" رسالہ تہذیب الاخلاق سے شروع
ہوئی تھی۔جس کا نام سنتے ہی اعلیٰ اور عمدہ اخلاقیات کا خیال دل میں اتر
آتا ہے۔اب کون جانے کہ دودھ کا لیبل لگا کر تیزاب بیچا گیا۔"تہذیب الاخلاق
"کے پیچھے ذہن سر سید کا؛سوچ" سپیکٹیٹراور ٹیٹلر" کی اور مقصد مسلمانوں کو
دستر خوان سے اٹھا کر ڈائیننگ ٹیبل پر بٹھانا تھا۔ اور ایسا ہی ہوا کہ سب
نے یکبارگی سنتوں سے منہ موڑا اور انگریزی تہذیب کی اندھی تقلید کرنے
لگے۔ہاتھوں سے کھانا چھوٹ گیا ،چمچ اور کانٹے تھام لئے گئے ،بعدازاں ٹشو
پیپر نے ہاتھ دھونے کی زحمت سے بھی آزاد کر دیا۔(اس طریقہ تناول کے نقصانات
کی تفصیل الگ ہے)۔انگریزی تعلیم نے ہماری تہذیب اور ثقافت کوسب سے ذیادہ
متاثر کیا۔اکبر الہ آبادی کے بقول:۔
ہم ایسی کل کتابوں کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جن کو پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
تہذیب الاخلاق پڑھنے والی اولادوں نے والدین کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے
گھروں سے ہی نکال باہر کیا۔چنانچہ اولڈ ہاؤسز بن گئے۔سال میں ایک دن ماں سے
اور ایک دن باپ سے ملاقات کے لئے مختص کر دیا۔ ہم نے یہاں بھی بنا سوچے
سمجھے اندھی تقلید جاری رکھی اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے مدر ڈے اور فادر ڈے
منانا شروع کر دیا۔استاد سے سزا دینے کا حق چھیننے اور ادب و احترام سے
استثنی قراردینے والی قوم بھی ٹیچرز ڈے بڑے ذور و شور سے مناتی ہے۔آج کی
اولادیں ماں باپ کو تو مانتی ہیں ماں باپ کی نہیں مانتیں۔بعض ایسے ناہنجار
بھی ہیں جو اب ماں باپ کو بھی نہیں مانتے۔اس "کو "اور "کی" کے فرق سے نا
آشنا ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں کے لئے ایسی فضا ترتیب دے رہے ہیں
جہاں کسی بڑے کو کوئی حق نہین کہ وہ چھوٹوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کر
سکے اور انگریزی تہذیب کے پروردہ ریاستی قوانین ان" چھوٹوں ـ" کو ہر ممکن
تحفظ فراہم کرتے ہیں۔بقول راقم:۔
جوانی میں کر کے اولادوں کو رسوا
اولادوں سے اپنی ثمر ڈھونڈتے ہیں
نصاب تعلیم میں سے ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں جو ہمارے اسلامی تربیتی
قوانین کے منافی ہیں۔ سب کچھ انگریزوں سے سیکھ کر ان کی تقلید کرنے والے
کاش اس بات کی بھی تقلید کرتے کہ وہ لوگ ہماری کتابیں پڑھتے پڑھتے کئی
مظاہر قدرت کو تسخیر کر چکے ہیں اور ہم سبزیوں ،پھلوں میں سے اﷲ کا نام
ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کاش ہم یہ بھی سیکھتے کہ جب انگریز برصغیر میں آیا اور
اس نے اردو سیکھنی چاہی تاکہ مسلمانوں پر حکومت کر سکے،تو اس نے بھاری
معاوضوں کے عوض مسلمانوں سے اپنی ہی انگریزی تہذیب پر مبنی کتب کے اردو میں
تراجم کروائے۔ اس کا مقصد بڑا واضح تھا کہ وہ اردو زبان بھی سیکھ جائیں اور
ان کی تہذیب بھی نہ بدلے۔انگریزی زبان کے خلاف بولنے والے پر الزامات کی
بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔اسے پسماندہ ذہن،تنگ نظر اور نجانے کیا کیا کہا جاتا
ہے۔یہ غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی کہ ترقی کی اصل راہ کیا ہے۔انگریزی
زبان سیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ضرور سیکھنی چاہیے لیکن انگریزی تہذیب
نہ ملت بیضا کو ہضم ہوئی ہے اور نہ کبھی ہو گی۔یہ کباب میں ہڈی کی طرح
ہمارے حلق میں اٹک کر ہمیں زخمی کرتی رہے گی۔ایسا تو کیا جا سکتا ہے ناں کہ
اپنی ہی تہذیب،ثقافت،بود و باش ،مذہبی عقائد اور اسلامی نظریات کے مطابق
مسلمان علماء کی تخلیقات کو انگریزی زبان میں ترجمہ کروا کر پڑھایا
جائے۔ہمارے بچے انگیزی زبان بھی سیکھ جائیں گے اور ان کی تہذیب بھی اسلامی
اصولوں کے مطابق رہے گی۔انٹرمیڈیٹ سال دوم کے تعلیمی نصاب میں کئی دہائیوں
سے ناول مسٹرچپس کی موجودگی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔نصاب مرتب کرنے
کروانے والے کیا بتائیں گے کہ اسلامی معاشرے کے تعلیمی نصاب میں اس کی کیا
گنجایش ہے۔کیا اس کی جگہ کوئی اسلامی تعلیمات سے مزین مضامین یا اردو کے
کسی ناول کو ترجمہ کر کے نہیں رکھا جا سکتا۔اردو کے نصاب میں بھی ایک خاص
مکتبہ فکر کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔اسلامی سائنسدانوں،سپہ
سالاروں،محققوں،مفسروں،فلسفیوں اور دانشوروں کے حوالے سے ہماری اولادیں
بالکل بے بہرہ ہیں۔ہمارے بچوں کو عظیم لوگوں کے متعلق تو تھوڑا بہت پڑھایا
جاتا ہے لیکن ایسا علم نہیں دیا جاتا جس سے وہ خود ایک عظیم انسان بن
سکیں۔ہماری اولادوں کی تعلیم و تربیت،شغل اشغال،وضع قطع،لباس و انداز،مذہب
سے رغبت حتی کہ غذا و خوراک سب بدل گئے۔"مسٹر چپس" پڑھنے والے برگر بچے
"برگر چپس "کھا کر غیروں پر کیسے فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ بقول راقمـ:۔
غیروں پہ کر کے مسلماں بھروسہ
جنگوں میں اپنی بدر ڈھونڈتے ہیں |