السلام عليكم
قربانی کی کھالوں بارے بہت تشویش ناک امر سے آگاہ فرمایا ہے جناب نے، اور
اب منطقی طور پر حکومت کا اگلا قدم زکواۃ، عطیات اور تمام فنڈز پر روک ٹوک
اور نگرانی ہوگا. اصولی طور پر تو یہ قوانین دشمن اسلام و پاکستان
این-جی-او'ز پر لاگو ہونے چاہئیں،جن کی سرگرمیاں کاغذوں پر اور حقیقت میں
قطعی متضاد ہوتی ہیں. جبکہ دینی مدارس میں طلباء کا طعام و قیام، اساتذہ کا
مشاہرہ و دیگر انتظامی اخراجات نسبتاً ایک شفاف عمل ہے، باآسانی آڈٹ ہو
سکتا ہے اور عموماً خدمت و تعاون کے جذبہ سے ہی ممکن ہو پاتا ہے جو قرآنی
حکم "انفقوا" کی ایک اعلٰی شکل ہے. ارباب اقتدار کو اس پر غور کرنا چاہئیے.
لیکن یہ صورتحال مدارس کی جانب سے ایک طویل عرصہ کی غفلت آمیز پالیسی کا
نتیجہ لگ رہی ہے اور غالباً دینی اداروں کی سادگی، بےغرضی اور لاتعلقی کے
باعث عوام الناس میں شعور وبصیرت کی عدم موجودگی کا یہ خمیازہ باقی قوم کے
ساتھ آج دینی درس گاہوں کا نظام بھی بھگت رہا ہے. شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ
دینی خدمات کے نظام کے حقیقی سرپرست تو اللہ پاک اور رسول مکرم علیہ الصلوۃ
السلام ہیں. لیکن اس کی نگہداشت وپاسبانی کا فریضہ آپ ایسے مقتدر خادمان
دین علماء و زعماء نے ہی سرانجام دینا ہے. دین واحد کی خدمت کوئی بھی مسلک
کر رہا ہو، درپیش مسائل کا حل بھی صدائے واحد کی گونج اٹھانے سے ملے گا. ان
حلقوں میں ماضی کا انتشار اب حال کی پریشانی َاور مستقبل کا خطرہ بن چکا ہے.
میری بلندگوئی کی جسارت معاف فرمائیے گا لیکن اب خدارا اس مقدس دینی مشن کے
باعزت تحفظ کی خاطر "اتحاد و یگانگت " کو کتابوں کے اوراق سے نکال کر مدارس
کے نظام، طلباء، اساتذہ، علماء، اور رہنماؤں کو متعارف کروائیے. اپنے مسائل
آپس میں حل کریں اور اختلافات و تنازعات کی تپش سے معصوم بچوں یعنی طلباء
کو دور رکھیں کہ ان کا مستقبل داؤ پر ہے. بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں، آپ ان
کی حفاظت کے لئے مضبوط و متحد حصار بنیں تاکہ آئندہ "لال مسجد" جیسا کوئی
سانحہ وقوع پذیر نہ ہو سکے.
یہ بہت ضروری ہے کہ اب ایک حقیقی مرکزی وفاق تشکیل دیں اور حقیقی تعلیمی
اداروں کو ہی اس کا رکن قرار دیں. منفی سرگرمیوں کے حامل عناصر کا دین سے
کوئی سروکار نہیں. انھیں جراءت ایمانی سے اپنے الحاق سے جدا رکھیں. اپنے
درست اداروں کی وفاق کے تحت تشہیر کریں اور اس وفاق کو معیار ثقاہت و
اعتبار کی ایک تازہ ساکھ عطا کریں.
یہ بھی عرض کروں گا کہ سب کچھ دے لٹا کر گنوا دینے کی سوچ نہ رکھی جائے
بلکہ اپنے تحفظات کو درست مطالبات کا جامہ پہنا کر محاصلات کے لئے بروقت
آواز اٹھائیں کیونکہ دنیا دار صبر و رضا کے بے محل جذبہ کو بھی تقصیر
گردانتے ہیں. لیکن جانئے کہ یہ دنیا دار بھی مسلمان معاشرے کا حصہ ہیں، ان
سے امید خیر رکھیں اور مدارس کے نظام کو معاشرے میں پیوست کرنے کے اقدامات
اٹھائیں تاکہ حائل خلیج دور ہوسکے. صرف زکواۃ و عطیات کا رشتہ عوام و خواص
سے نہ رکھیں بلکہ ان سے ہر ضمن میں تعاون ومشاورت کا تقاضا کریں. استطاعت
کے حامل دینی تعلیمی اداروں کو بھی بلا تعصب اور فراخی سے کمزور لیکن اھل
مدارس کی معاونت وسرپرستی کرنی چاہیئے. آپ کے معاملات زبان زد عام ہوں اور
عوام خود آپ کے مسائل و ضروریات کا ادراک کریں.دعا ہے ایسا وقت آئے کہ دین
کے رشتے میں آپ کی آواز عوام کی اپنی آواز بن جائے.
ادب سے باور کراتا ہوں کہ بے دین کوئی فرد ہو یا حکومت، خدا خوفی کی پکار
اس کے لیے بے معنی ہے، کیونکہ اسے ڈر صرف عوام کا ہوتا ہے . انہیں خدا کا
نہیں بلکہ عوام کا واسطہ دے کر ان کا عمل اپنے حق میں درست کریں.
دوسری بات یہ کہ مالی معاونت کے عوض جانبداری ایک ایسا طعنہ ہے جس سے کم از
کم اپنے دینی اداروں کو پاک رکھنے کا عزم صمیم کریں. عوضانہ میں انمول
حمایت کو حکومت یا مخصوص سیاسی عناصر کی جھولی میں ڈال دینا مدارس زعماء کا
دینی حوالہ بے توقیر کرنے والی بات ہے.
درحقیقت یہ معاملات ہیں جن میں توکل و قناعت پر آپکو ابلاغ کرنا چاہیئے اور
یہ اس وقت کی ضرورت ہے.
حکومت کو چاہئیے کہ مدارس فنڈز کی آمد پر نگرانی و پابندی عائد کرنے کی
بجائے انتظام و انصرام میں مدارس کی مدد و رہنمائی کرے.
اخراجات کی مد میں آڈٹ سہولیات کی رضاکارانہ پیشکش کرے.
اور اپنی بندوقوں سے مدارس کو ہراساں کرنے کی بجائے منفی و دہشت گرد عناصر
سے انہیں تحفظ فراہم کرے. |