ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ دیکھی کہ کرپشن، ٹیکس
چوری اور بیڈ گورننس کے ضمن میں 2008ء سے 2013ء تک 9.5ٹریلین روپے ( تقریباً
9.4 ارب امریکی ڈالر) ضائع کر چکی۔ 9.5ٹریلین یعنی 95کھرب روپے پاکستانی
معیشت کیلئے کتنی بڑی رقم ہے جو صرف پانچ سال میں چوری ہوئی ، اور تقریباً
اتنی ہی رقم ملک کے بااثر اور وڈیرے حکومت سے قرض لے کراور پھر مظلوم و
لاچار بن کے معاف کرو ا چکے۔ ان پانچوں سالوں کاانتظامی و ترقیاتی بجٹ جمع
کریں تو یہ خورد برد کی گئی رقم اس سے زیادہ بنتی ہے۔یہ صرف پانچ سال کی
کہانی ہے ناجانے پچھلے پچاس کا کیا عالم ہو گا۔ قیام پاکستان کے وقت جو 10
امیر ترین خاندانوں اور جاگیرداروں کی فہرست تھی آج 100 امیر ترین خاندانوں
میں ان کا ذکر تک نہیں آتا۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ان بڑے خاندانوں کی جاگیر
میں معمولی اضافہ ہوا اور نچلے طبقوں سے اٹھ کر سیاست میں آنے والوں کا
شمار صرف دو،تین عشروں میں دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں ہونے لگا۔یہ سب
سیاسی لٹیرے ہیں جنہوں نے ملک و قوم کو لوٹ کر اپنی جائیدادیں بنائیں،
فیکٹریاں اور ملیں لگائیں، اپنے کاروبار چمکائے۔برطانوی محقق ریمنڈ ڈبلیو
بیکر کی رپورٹس ’’Capitalism's Achiless Heel‘‘ اور حالیہ2016ء میں پانامہ
لیکس پیپرنے ان کی کرپشن بھری کی دستانوں کے حقائق پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔
مشہور برطانوی صحافی اور محقق ریمنڈ ڈبلیو بیکر کی کتاب ’’Capitalism's
Achiless Heel‘‘ کے صفحہ 76سے 85تک شریف برادران اورزرداری کے بیرون ملک
اثاثوں کی تفصیل شائع کی گئی ۔ دونوں خاندانوں کے اپنے ملکی چھوڑ کر صرف
بیرونی اثاثے ایک ایک بلین ڈالر سے زائد بتائے گئے اور مصنف کے بقول یہ
کمائی صرف 90کی دہائی کی ہے۔اور پھر مصنف نے دونوں خاندانوں کو کھلا چیلنج
کیا کہ اگر یہ معلومات غلط ہیں تو مجھ پر برطانیہ کی عدالت میں ہرجانے کا
دعویٰ کریں۔ جو اب تک کسی نے دائر نہیں کیا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ
یہ اعداد و شمار صحیح ہیں جو اس میں دئیے گئے ہیں ۔ یہ اثاثے اب بڑھ کر
دگنا،تین گنا، چوگناہو چکے، حالیہ پانامہ لیکس پیپرز اس کی تصدیق کر چکے
ہیں جو ملک پاکستان کے عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ تین، چار عشرے قبل
معمولی معیشت سے سیاست میں قدم رکھنے والے دونوں شریف و زرداری بلکہ زر
خواری خاندان اتنے عرصہ میں کھرب پتی کیسے بن گئے؟ جائیدادیں، فیکٹریں،
ملیں وغیرہ کیسے اور کہاں سے لگیں؟
1963ء میں نیا ملک ہونے اور کروڑوں مہاجرین کا بوجھ اور جنگ کے بادل
منڈلانے کے باوجود جرمنی جیسے ملک کوترقی کیلئے 120ملین قرض بلا سود
20سالوں کیلئے دینے والا پاکستان اتنی پستی میں کیسے جا گرا؟آزادی کے
ابتدائی سالوں سے 65ء تک ملک کو مخلص اور دیانتدار قیادت ملی اور بیورو
کریسی کی انتھک محنت کی وجہ سے ملک تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا تھا۔اسی
دور میں ترقی کا پانچ سالہ جامع پلان تیار کیا گیاجسے جنوبی کوریانے اپنے
ملک لے جاکر عملی جامہ پہنایا تو وہ ترقی کی منازل طے کرتے کہاں پہنچ
گیاجبکہ ہمارے ہاں وہ پلان محض فائلوں کی زینت بنا رہا۔ 65ء کے بعد ملک
نااہل ، کرپٹ، بد عنوان و بد دیانت لوگوں کے زیر تسلط آتا گیا جنہوں نے ملک
کو کھانا شروع کیا اور اپنے اثاثے بڑھانے کی فکر میں رہے اور ملک کو جڑوں
سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ جتنے بھی سیاسی و فوجی لیڈراور بیورو کریٹس آئے
کسی نے بھی ملک کے ترنوالا کو چوسنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، سب نے آہستہ
آہستہ کرپشن کی بھٹی کوہوا دینا شروع کی اور وہ گرم ہوتے ہوتے آج اپنی تپش
کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔
وہ بھی تو حکمران تھے جو نہایت کفایت شعاری سے کام لیتے اور سرکاری وسائل
کا اپنی ذات کیلئے استعمال جرم اور خیانت گردانتے تھے۔ بانی پاکستان قائد
اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے ریاست کے وسائل کو اپنی ذات کیلئے
کبھی استعمال نہیں کیا تھا، حتیٰ کہ جب آپ کی طبیعت ناز ساز ہوئی تو آپ کے
رفقاء نے اصرار کیا کہ وہ علاج کیلئے انگلستان یا امریکہ چلے جائیںیا کم از
کم وہاں سے ڈاکٹر بلانے کی اجازت دے دیں تو آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا
کہ میرا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ آج کے حکمران ناصرف اپنا بلکہ
اپنی پوری فیملی ، عزیز رشتہ داروں کا مفت اور بیرون ملک علاج، سیکورٹی،
پروٹوکول اور پتہ نہیں کیا کیاکچھ ریاست اور عوام سے خون سے نچوڑ رہے۔
انہیں صحت سے متعلق معمولی سی شکایت پیش آئے تو لندن اور امریکہ سے کم ان
کی بریک بھی نہیں لگتی۔پاکستان میں جو ہسپتال عام عوام الناس کیلئے ہیں
وہاں ان کا علاج ممکن نہیں کیونکہ وہ اور مخلوق ہیں اور یہ اور، یا وہ ان
کے معیار صحت پر پورے نہیں اترتے یا انہیں ان پر ٹرسٹ نہیں۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان جو کہ مشرقی پنجاب (
ہندوستان) کے بہت بڑے جاگیر دار تھے اور پاکستان کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ
آئے تھے۔جب پاکستان میں ان کے سامنے فائل پیش کی گئی کہ آپ اپنی جو جاگیر
مشرقی پاکستان میں چھوڑ آئے ہیں اس کے عوض کراچی اور سندھ میں زمینیں اپنے
نام الاٹ کروا لیں۔تو خان صاحب نے وہ فائل انتہائی غصے سے سیکرٹری کے منہ
پر دے ماری اور کہا ’’ آؤ میرے ساتھ کراچی کی ان آبادیوں کو دیکھو جو لوگ
پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کر آئے اور کھلے آسمان کے نیچے
زندگی بسر کر رہے ہیں اور تم مجھے زمینیں الاٹ کروانے کا کہہ رہے ہو۔‘‘ چار
سال وزیر اعظم رہنے کے بعد جب آپ کا بیہمانہ قتل ہوا تو اس وقت آپ کے بنک
اکاؤنٹ میں کل 47ہزار روپے تھے اس کے علاوہ پاکستان میں کوئی اور جائیداد
نہیں تھی نہ اپنا گھر نہ کوئی پلاٹ۔ مگر آج اگر کسی کو چار سال تو کیا چار
ماہ وزات کے مل جائیں تو پتہ نہیں اپنا کیا کیا کچھ بنا لیں، جائیداد،
پلاٹ، فیکٹریاں، ملیں تو معمولی سی بات ہے۔
خلفائے راشدین کے مبارک عہد میں جو ہر مسلمان کیلئے مینارہ نور ہے ان کیلئے
کفایت شعاری ، سرکاری وسائل اور اپنے اختیارسے تجاوز نہ کرنے کی ہزاروں
مثالیں بھری پڑیں ہیں ان سے بصیرت لینا اور انہیں اپنا رول ماڈل بنانا اپنی
ہتک سمجھتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ان
کی اہلیہ محترمہ نے عرض کیا یا امیر المومنین ! کوئی مٹھی چیز بنانے کو دل
کرتا ہے ، بچے بھی کہتے۔ آپ نے فرمایا ’’میٹھے کیلئے آٹا، گھی اور شکر کہاں
سے آنی؟‘‘ جواب ملا اگر آپ کی اجازت ہوتو میں جو بیت المال سے ہمارے لئے
روز خور دنوش کاجو سامان آتا اس سے تھوڑا تھوڑا بچا کے رکھ لیا کروں تو چند
دنوں میں اتنا جمع ہو جائے گا کہ میٹھا بن سکے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اجازت
فرما دی۔ اس طرح آپ جمع کرتی رہیں چند دن بعد میٹھا بنا تو آپ نے تناول
فرمانا گوارا نہ کیا کہ ہم تو بڑے منصب پے بیٹھ کے میٹھا کھائیں اور ہمارے
عوام میٹھے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو یہ صدیق کو گوارا نہیں۔ حضرت صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ نے فوراً بیت المال جا کر اتنا آٹا، گھی اور شکر بند کروا دی
جتنا ان کی اہلیہ محترمہ روز بچا کے رکھا کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے
فرمایا ۔’’ اگر اتنا روز کی بنیاد پر ہمارے گھر نہ آئے تو ہمارا گذر ہو
سکتاہے ۔‘‘
ہمارے ملک میں لوگ اقتدار میں آ کر سیاسی اور مالی مفادات کے علاوہ اپنے
نام تو روشن کرتے ہی ہیں مگر خود نمائی کی ایک اور تصویر سرکاری پروٹوکول
کے بغیر وہ اپنی زندگی کو بیکار سمجھتے ہیں اور سرکاری گاڑیوں کے حصول کے
ساتھ اب وہ قومی لباس ، قومی زبان، قومی ثقافت و پہچان سے بھی عاری اور دور
ہو گئے ہیں اور ان میں سوٹ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ ہمارے سیاستدان،
وزراء ، آفسر اکثر قومی لباس سے ہٹ کے سوٹ میں ہی نظر آتے۔ کسی بیرونی دورہ
پر جائیں تو سوٹ کے سوا قومی لباس اور قومی زبان سے ان کی پہچان ہی نہیں
ہوتی۔ وزیر اعظم کی تقلید میں وزیر ہی نہیں صدر مملکت بھی سوٹ کے بغیر
سرکاری تقاریب میں نہیں آتے۔ پاکستان کے مقابلے میں عرب ممالک اور افریقہ و
ہندوستان کے حکمرانوں کو دیکھیں تو ان میں سوٹ کلچر کہیں نظر نہیں آتا اور
وہ اپنے ملک کے علاوہ غیر ملکی دوروں میں بھی سوٹ استعمال نہیں کرتے اور
باہر بھی اکثر اپنے قومی لباس ہی میں جاتے ہیں اور دنیا انھیں سوٹ میں نہ
ہونے کے باوجود ان کے ملک کے نام سے پہچانتی ہے اور ان کے سادہ لباس میں
بھی انھیں عزت و احترام دیتی ہے۔ جب کہ ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ سوٹ کسے
بغیر انھیں عزت نہیں ملے گی ۔
ملک میں بڑھتے ہوئے وی آئی پی کلچر کے ساتھ اب نان وی آئی پی افراد میں بھی
خود نمائی اور اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کی وبا بھی تیزی سے فروغ پا
رہی ہے اور عوام کے لیے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں تو سیاستدان
اقتدار میں آتے ہی وی آئی پی بننے کے لیے ہیں۔ہر وزیر اور مشیر نے دفتر آنے
جانے کے علاوہ اپنی رہائش گاہ پر ان کی غیر موجودگی میں بھی متعدد گاڑیاں
اپنے اہل خانہ، عزیزوں اور اہم دوستوں کے لیے رکھی ہوئی ہیں اور غیر قانونی
طور پر زیادہ سے زیادہ گاڑیاں اور سیکورٹی رکھ کر سرکاری مراعات کا ناجائز
فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ قوم کے محافظوں کو بھی اب محافظ چاہیے تو وہ قوم کی
کیا محافظت کریں گے ؟ اعلیٰ سول، پولیس اور فوجی اہلکاروں نے بھی اپنی
سیکورٹی بڑھا رکھی ہے اور سیکورٹی تھریٹ کی جھوٹی خبریں اڑا کر بعض اعلیٰ
پولیس افسران کالے شیشوں کی گاڑیوں اور دیگر حفاظتی گاڑیوں کے ساتھ اپنے
گھروں اور دفاتر سے نکلتے ہیں اور غیر قانونی طور پر اضافی اور ناجائز
سرکاری سیکورٹی استعمال کر رہے ہیں۔
پروٹوکول سے آمدورفت کا بند ہونا کئی لوگوں کی جان لے چکا۔ مگر حکمران اپنا
غیر ضروری اور دکھاوے کا پروٹوکول کم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اس وی آئی پی
کلچر اور پروٹوکول کے ہاتھوں عوام کی آئے روز تذلیل اب معمول کی بات ہے،
آئے دن اس کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر ان نواب زادوں کی گاڑیاں عام
عوام کی رش میں پھنس جائیں تو بہت بڑا جرم قرار پاتا ہے اور اس کی تفشیش
اور انکوائری کیلئے سپیشل ٹیمیں بن جاتی ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہم آسمانی
مخلوق زمینی کیڑے مکوڑوں کے درمیان کیسے گھسے اور اس کے پیچھے کیا سازش
تھی؟اور پھر ان سیکورٹی پر معمور افسران کی خیر نہیں رہتی۔کیا کوئی عام
چلتا پھرتا آدمی ان کے ماتھے لگنے سے ان کی شان میں کوئی فرق آ جاتا ہے جو
اس آسمانی نرم و نازک مخلوق کو گوارا نہیں؟کسی عام آدمی کا اچانک ان کے
سامنے آ جانا ان کو موت کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ |