چند روز قبل گھر لوٹتے وقت سڑک کنارے لگے اک سٹال
پر نظر پڑی جہاں لوگوں کا اک جم غفیر جمع تھا اور طوفان بدتمیزی برپا تھا۔
ذرا قریب ہوا کہ جان سکوں معاملہ کیا ہے۔ اس و قت حیرت کی انتہا نہ رہی جب
اک نوجوان کو ادھیڑ عمر شخص سے گالم گلوچ کرتے پایا۔ جھگڑے کی کوئی خاص وجہ
بھی نہ تھی۔ معمولی تلخ کلامی سے بات گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک آن پہنچی
تھی۔ خیر قریب موجود لوگوں نے معاملہ رفع دفع کروایا تو میں بھی گھر کو ہو
لیا،میں آج ہونے والے جھگڑے سے متعلق سوچ رہا تھا اور معاشرہ میں بڑھتے
ہوئے عدم برداشت کے رویہ پر کڑھ رہا تھا۔وہاں موجود بہت سے لوگ صرف تماشہ
دیکھ رہے تھے اور ان کے لئے شاید یہ عام سی بات تھی، معمول تھا مگر میرے
ذہن میں مختلف خیالات جنم لینے لگے، دل بوجھل سا ہو گیا، عجیب سی کیفیت
طاری تھی۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ حساسیت بھی اپنے آپ میں اک اذیت ہے۔ بقول
شاعر:
آپ ہیں شہر کے قاضی تو گزارش سن لیں
میں ہوں حساس، میری عمر گھٹا دی جائے
اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں قدم قدم پر عدم برداشت اور منفی سوچ کی
بیسیوں مثالیں ملیں گی۔ گھر سے مارکیٹ، دفتر، کالج یا یونیورسٹی، کھیل کے
میدان میں جاتے ہوئے ہم ان رویوں میں خطرناک حد تک ہوتے اضافہ کا بخوبی
مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا اک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم سوچ سمجھنا اور
غور کرنا ترک کر چکے ہیں اور بحیثیت مجموعی ہماری سوچ منفی ہوتی جا رہی ہے۔
اسی بارے میں قاسم علی شاہ اک جگہ کہتے ہیں۔
’’کامیابی سے آگے بڑھنے میں سب سے اہم کردار مثبت سوچ کا ہوتا ہے۔ منفی سوچ
کے مالک افراد اﷲ کی ذات پر یقین نہیں رکھتے، مایوس ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ ہر چیز میں مثبت پہلوؤں کو نظرانداز کر کے منفی پہلو تلاش کررہے ہوتے
ہیں اور ان کی اپنی ناکامیوں میں 80فیصد ہاتھ ان کی منفی سوچ کا ہوتا ہے۔‘‘
اوپر بیان کئے گئے واقعہ کے بعد میں نے معاشرہ میں موجود منفی سوچ اور عدم
برداشت کے بارے میں مطالعہ کی ٹھانی۔ اس حوالہ سے مختلف طریقہ ہائے کار کو
اپنانے کے بارے سوچا، تحقیق کے لئے کس شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو
منتخب کیا جائے، کتنے افراد ہوں، وقت کتنا لگے گا وغیرہ۔چونکہ سوشل میڈیا
اپنی اہمیت و افادیت میں یکتا ہے اور ہمارے نوجوان، پڑھے لکھے طبقہ کی
اکثریت اسے استعمال بھی کرتی ہے تو میں اسی کے ذریعہ سے معلومات اکٹھی کرنے
کا فیصلہ کیا۔ ایک سرکاری محکمے کے ملازمین کی کام کے اوقات میں لی گئی
تصاویر کی سوشل میڈیا پر بھرمار اور اس سے جنم لینے والے خودنمائی کے عنصر
کی جانب اشارہ کیا۔ اب ظاہر ہے پوسٹ کا مقصد رویوں کا مطالعہ تھالیکن یہاں
مذکورہ محکمے سے تعلق رکھنے والے اوران کے کچھ نیم دانشور دوستوں نے دلیل
سے بات کر نے، مثبت انداز میں راہنمائی کرنے اور شائستگی سے پیش آنے کی
بجائے وہ اودھم مچایا کہ الامان، الحفیظ۔دلائل سے قائل کرنے کی بجائے میڈیا
پر اسی گھسے پٹے انداز سے تنقید شروع کر دی گئی۔مقصدیت کو سمجھے بغیر ذاتی
حملہ تصور کرتے ہوئے ہر کوئی صرف ’’تصاویر کی تشہیر کو عین کارثواب‘‘ قرار
دینے کے لئے جتن کرتا رہا۔ جس کے بعد مجھے بابا جی کی بات سچ لگنے لگی کہ
اس قوم کو ’’تعلیم‘‘ سے زیادہ’’ تربیت‘‘ کی ضرورت ہے۔
سڑک کنارے ہوئے جھگڑے اور عدم برداشت کے مطالعہ کی ادنیٰ کوشش کے بعد شدت
سے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہم منفی سوچ اور عدم برداشت کی اندھیری راہوں
پر چل نکلے ہیں،جہاں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ضبط نفس اور قوت برداشت ہی وہ
راز ہے جس سے کامیابیوں کے مدارج طے ہوتے چلے جاتے ہیں اور منازل تک رسائی
آسان سے آسان ترہوتی جاتی ہے۔
قوت برداشت سے متعلق پہلے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابرسے منسوب ہے، وہ کہا
کرتے تھے کہ میں نے زندگی میں صرف’’ اڑھائی کامیابیاں‘‘ حاصل کی ہیں۔ پہلی
کامیابی یہ کہ جنگل سے گزر کے دوران بیس فٹ لمبے اژدھے نے انہیں جکڑلیا،
بادشاہ کو اپنی جان بچانے کے لئے مسلسل بارہ گھنٹے اژدھے سے لڑنا پڑا۔
دوسری کامیابی وہ خارش تھی جس کی شدت کے باعث جسم پر کوئی کپڑا پہننا بھی
محال تھا، اسی دوران بادشاہ کا دشمن شبانی خان عیادت کے بہانے چلا آیا تو
ظہیرالدین بابر نے پورا شاہی لباس پہنا اور جاہ جلال سے دشمن کے سامنے بیٹھ
گئے۔ آدھ دن کی اس بیٹھک کے دوران ان کے جسم پر شدید خارش ہوتی رہی مگر
انہوں نے خارش نہیں کی۔بابر ان دو واقعات کو اپنی دو بڑی کامیابیاں کہتے
تھے جبکہ آدھی دنیا کو فتح کرنے کو اپنی آدھی کامیابی شمار کرتے تھے۔
’’رستم زمان گاما‘‘ جیسا پہلوان آج تک پیدا نہیں ہوا۔ ایک دفعہ ایک نحیف سے
دکاندار نے گاما کے سر میں وزن کرنے والا باٹ دے مارا، گامے کے سر سے خون
کے فوارے چھوٹ گئے، پہلوان نے مفلر لپیٹا اور گھر کو چل دیا۔ خلاف توقع
ردعمل کی وجہ دریافت کرنے پر گامے نے کہا۔ ’’مجھے میری طاقت نہیں، قوت
برداشت نے پہلوان بنایا ہے، میں تب تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت
برداشت میرا ساتھ دے گی‘‘
ہمیں مناسب تربیت سے قوت برداشت اور مثبت سوچ کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
اگر منفی سوچ اور عدم برداشت کا تسلسل رہا اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتا
رہا تو معاشرہ اپنی کمزور بنیادوں سمیت دھڑام سے نیچے آن گرے گا۔ خدارا!
اپنی سوچ کو بدلیئے، خود کو بدلیئے تاکہ کامیابیاں آپ کا مقدر ہوں ۔۔۔۔ |