ملک کے دن بدن بد تر ہوتے حالات دیکھ کر اور لوگوں کی
حکمرانوں پر تنقید سن کر بے اختیار پرانے وقتوں کی ایک کہانی یاد آجاتی ہے
۔میں یہاں کچھ تبدیلی کے ساتھ وہ کہانی بیان کر رہا ہوں۔
ایک درویش اور اسکا چیلہ شہر سے دور ایک جنگل میں رہتے تھے، درویش زیادہ
وقت اللہ کی یاد میں گزارتا جبکہ چیلہ اردگرد کے دیہاتوں سے بھیک مانگ
کرگزر بسر کرتا تھا۔ درویش مخلوق خداکو غربت اور تنگ دستی میں سسکتے دیکھتا
تو اسے بہت تکلیف ہوتی ، لیکن اس کے اختیار میں کچھ نہیں تھا، وہ ہر روز
اللہ کے حضور دعا کیا کرتا کہ یا اللہ اگر تو مجھے وزیراعظم بنا دے تو میں
لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے دن رات ایک کر دوں گا، تعلیم اور صحت کا بجٹ
دو گنا کر دوں گا۔قانون ہر خاص و عام کے لئے ایک سا کر دوں گا۔ جرم کی سزا
وزیر اور عام آدمی دونوں کے لئے برابر ہو گی۔ملک سے لوڈشیڈنک کا ہمیشہ کے
لئے خاتمہ کر دوں گا۔ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور
لگا دوں گا۔حتی کہ وہ دوریش ایک ایک کام کا ذکر دعا میں کیا کرتے تھے۔ چیلا
پاس بیٹھ کر یہ سب کچھ روز سنتا رہتا، اس کو یقین تھا کہ کسی نہ کسی دن
مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اور ہمارے دن پھر جائیں گے، لیکن وقت گزرتا
گیا اور ان کے حالات ملک کے حالات کی طرح پہلے سے بھی بدتر ہوتے گئے، چیلا
جوان ہو گیا لیکن دوریش کی دعا قبول نہ ہوئی، درویش اب بھی باقائدگی سے
ساتھ ہرروز دعا کیا کرتے تھے۔ درویش جیسے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے چیلا
بھی دعا کرنے لگتا کہ یا اللہ اگر تجھے ایک نیک بادشاہ کی ضرورت نہیں تو تو
مجھے اس ملک کا وزیر اعظم بنا دے میں پوری ایمانداری کے ساتھ مرشد کے کاموں
کے الٹ کام کروں گا۔ غریبوں کو اور غریب، بیماروں کو مزید بیمارکروں گا،
تعلیم کو ملک سے بالکل ہی ختم کر دوں گا، چوروں اور ڈاکوں کو جیلوں سے نکال
کر پارلیمنٹ میں بیٹھا دوں گا وغیرہ وغیرہ، شروع شروع میں تو چیلہ یہ دعا
آہستہ سے مانگا کرتا لیکن دن بدن اس کے دل سے مرشد کا احترام اور خوف ختم
ہو گیا تو وہ اونچی آواز میں یہ دعا کرنے لگتا ۔ مرشد کو بہت دکھ ہوتا وہ
غصہ سے چیلے کو پیٹتا لیکن چیلا باز نہ آتا تھا۔ پھر وہی ہوا جو اکثر
ہواکرتا ہے اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی اور خوش قسمتی سے درویش کا چیلا ملک
کا وزیر اعظم بن گیا اور وعدے کے مطابق اپنے کام شروع کر دیے۔ لوگوں نے
دیکھا کہ یہ تو ملک کا ستیاناس کر دے گا تو وہ اس مسلہ کا حل سوچنے لگے کسی
آدمی نے بتایا کہ اسکا ایک مرشد ہے یہ اسکی بات ضرور مانے گا۔ لوگ مل کر
دوریش کے پاس گئے اور سفارش کرنے کا کہا ، درویش پہلے تو نہیں مانالیکن
لوگوں کے اسرار پر اس نے حامی بھر لی اور چیلے سے ملنے وزیراعظم ہاوس چلا
گیا ۔ کافی انتظار کے بعد درویش کو اپنے چیلے سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔
درویش نے چیلے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مخلوق خدا کی آہ سے ڈرو اور
اپنا قبلہ درست کر لو۔ چیلے نے مرشد کی بات سنی اور بولا مرشد ہم دونوں ایک
ہی وقت میں دعا کیا کرتے تھے اگر اس ملک کی عوام میں انسانیت ہوتی تو اللہ
تعالی آپ کی دعا پوری کر کے آپ کو اس ملک کا بادشاہ بناتا، لیکن یہ لوگ آپ
کے قابل نہیں تھے اسی لئے اللہ تعالی نے مجھے ان لوگوں پر مسلط کیا۔ اب
مجھے اپنا دعدہ پورا کرنے دیں۔درویش لاجواب ہو کر وہاں سے چلا آیا۔
اس کہانی کے بعد میرے خیال سے کسی تبصرے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، ہمیں
صرف اور صرف اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے اور اپنا قبلہ درست کرنا ہے، جس
دن ہم خود ٹھیک ہو گئے کسی میں جرت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے خزانے بھرنے کے
لئے ہماری آنے والی نسلوں کو آئی ایم ایف یا عالمی بنک جیسے اداروں کے پاس
گروی رکھ سکیں۔ اپنی زندگی کا ایک حقیقی واقعہ یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا
ہوں۔
خزاں کے موسم نے آخری کروٹ لی اور بہار کی آمد کی نوید سنائی تھی۔راستے میں
کہیں کہیں پیلے پتے پاوں تلے آکر بہت درد ناک آواز میں چلاتے، کھیتوں اور
درختوں کو سبزے کی ہلکی سے چارد نے ڈھانپا ہوا تھا۔ سورج انگڑائیاں لے رہا
تھا۔ بہت خوبصورت صبح تھی ہم گاؤں کی طرف جا رہے تھے ہمیں محسوس ہوا کہ کسی
پیٹرول پمپ سے ہمیں پیٹرول ڈلوا لینا چاہیے، ہم قریب ہی ایک پیٹرول پمپ پر
گئے اور پیٹرول بھروایا۔ اس پمپ پر ڈیجیٹل کی بجائے اینالوگ (سوئی وال)
میٹر تھاہم نے پیڑول ڈلوایا اورپھر سے سفر شروع کر دیا اینالوگ میٹر کی وجہ
سے ہمیں اس وقت معلوم نہیں ہوا کہ ہمارے ساتھ ملک کے اس حصہ میں بھی ہاتھ
ہو گیا ہے ہم نے تھوڑی جمع تفریق کی تو معلوم ہوا کہ پمپ والے لڑکے نے ہمیں
۲۵ فیصد کم پٹرول دیا ہے۔ ہم کافی آگے نکل آئے تھے اس لئے واپس جانا ممکن
نہیں تھا۔ اس لئے کچھ تنقید کر لی اس بات کو حافظے سے ہمیشہ کے لے مٹا دیا۔
کیونکہ اس بات کی کچھ خاص اہمیت نہیں تھی۔ لیکن میں اس دن سے آج تک یہی سوچ
رہا ہوں کہ پاکستان کے ایک دورپار کے دیہات کے پٹرول پمپ پر کام کرنے والا
لڑکا بھی بد عنوان اور کرپٹ ہے اس ملک کی عمارت کی جس اینٹ کو اٹھاؤ کرپشن
اور بدعنوانی کے کیڑے اکڑ کر چلتے ملیں گے۔ ہمیں پہلے قدم کے طور پر اپنے
گریبانوں میں جھانک کر اپنی ذات اور کردار کی گندگی کو دھونا ہے۔ اس کے بعد
ہم چیلے کے بجائے کسی درویش کی حکمرانی کے قابل ہو جاہیں گے۔ |