انٹرنیٹ اور خصوصا سوشل میڈیا نے دنیا کی ترقی اور شہرت
پسندی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جن میں خصوصا فیس بک، ٹویٹر وٹس اپ ،یوٹیوب
اور دوسری جانب جدید ٹیکنالوجی کے آلات اپنے اندر بہت سے فوائد پر مبنی ہے۔
مگر ہر چیز کی مثبت اور منفی پہلو بھی ہوتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں
کہ ان چیزوں کی وجود کی غرض انسان کو بہتر خدمات اور ابلاغ میں آسانی ہے
تاکہ دوردراز کے لوگ بروقت اپنوںکے ساتھ جڑے رہے مگر انتہائی درد کے ساتھ
کہنا پڑرہاہے کہ موجودہ وقت میں سوشل میڈیا کی آزادی سے جہاں بے پناہ
فوائد ملتے ہے آج اسی کی وجہ سے نت نئی فتنے برپاہ ہورہے ہیں۔ جو ہمارے
معاشرے میںایک وبائ کی مرض کی طرح پھیل رہی ہے۔ جس کے رنگ سے لوگ رنگین
ہورہے ہے اور یہ بات بھی کسی سے محفی نہیں کہ موجودہ وقت میں سوشل میڈیا نے
جہاں تعلیم وتعلم کے میدان میں انقلاب برپاہ کیا ہے وہاں معانی ومفاہیم بھی
بدل دیے ہے۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے بلکہ ایک ایسی کیچڑ ہے جس میں ہر کوئی
سرکے بل گررہاہے جس کی حدود گلی گلی تک نہیں ،شہرشہر تک نہیں، صوبوں صوبوں
تک نہیں بلکہ تمام دنیا میں اس کے جال نت نئے طریقوں سے پھیل رہی ہے اور
لوگ جوں تر جوں بھی اس میں گر رہے ہے ۔ ان ویب سائٹس میں ایسی کشش پائی
جاتی ہے کہ انسان کو مجبورا اپنی طرف مائل کرلیتی ہے۔
سامعین، یہ بات آپ کو اپنے گھر کے افراد میں بھی نظر آئے گی کہ آپ کے
گھر کی رونق اور دمک ، رشتوں کی اہمیت ، گھر کی سکونت، احباب سے تعلق ،
معاشرے کا امن اور حجروں کی رونق سوشل میڈیا نے ختم کردی ہے۔ کمرے میں جہاں
چند دوست ایک دوسرے سے بات نہیں کرپاتے اور چٹ چیٹ میں مگن رہتے ہے ، اس
دھوکے اور فریب کے جال میں پڑے نظر آتے ہے۔ سوشل میڈیا کی وسعت سے ہماری
سماجی اور انفرادی زندگی بھی بدل گئی ہے۔ ہمارے مذہب اور قومیت کو ہم سے
دور کیا جارہا ہے ، ہمارے تقاریب اور رسومات کو مٹایا جارہا ہے الغرض اس
بات کا انکشاف بھی واضح طور پر ہے کہ ہماری تہذیب وتمدن کا نام مٹ رہاہے
اور ہمارے خون میں مارک زکبرگ اور بل گیٹس کا خون دوڑنے لگ گیا ہے۔لوگ وقت
گزارنے کے لیے ان ویب سائٹس کا بھرپور استعمال کرتے ہے مگر گھر میں ماں کو
بیٹے، باپ کو بیٹی، بھائی کو بہن سے حال پوچھنے تک وقت نہیں، اسی سوشل
میڈیا نے دھوکے بازی ، فریبی، ڈاکہ بازی اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ کیا
ہے۔ اچھی اچھی زندگیاں ہاتھ سے کھوبیٹتی ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ دنیا کے
ماہرترین اور ذالعقول لوگ ایسی ویب سائٹس سے اجتناب کرتے نظر آتے ہے جو ان
کے وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہے۔ ہر ایک سے چاہے عموم ہے یا خصوص گزارش طلب
کی جاتی ہے کہ جب چار گھنٹے فیس بک پر گزارتے ہو تو یہ ضرور سوچا کرے کہ
میں نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ کیا اس وقت کا سہی استعمال کیا؟ سختی یا
فسادات کا شکار تو نہیں؟ کیوں نہ اپنی زندگی میں لوگوں کو لائک کرے، اور ان
کے اچھے کاموں کو شیئر کر ے تاکہ یہ نفرتیں مٹ سکے اور محبت کی فضائ معطر
ہوسکے ۔ نوجوان نسل کو ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور اگر استعمال کرے
بھی تو حدود تک، اور صرف دوستوں اور رشتداروں تک رسائی کرے کیوں کہ یہ
نوجوان نسل اس قوم کے معمار اور مستقبل کا آئینہ ہے۔ میرے نزدیک جس چیز کے
نقصانات زائد ہو بہ سبب اچھائی کے تو اس چیز کے بارے میں سوچنا اور استعمال
کرنے سے اس کا ترک کرنا بہتر ہے۔
اس فتنے اور فساد کے دورمیں اپنے گھروالوں کو، احباب کو، رشتہ داروں کو،
اور دوستوں کو وقت دے۔ ان کی اہمیت جانے، ان کی خدمت کرے ، تعلق جاری رکھے
اور محبت بانٹے کیونکہ فیس بک کے لائکس تو دبارہ آسکتے ہے مگر یہ آنکھیں
جب بند ہوجائے تو انسان دوبارہ نہیں آتا.... |