سلمان بمشکل کروٹ لے کر اپنے آپ کو سلانے کی کوشش کر رہا
تھا،،،دروازے
سے ندا آندھی طوفان کی طرح سامان سے لدی پھندی ایسی داخل ہوئی،،،جیسے
اک لمحے کے بعد صبح ہو جائے گی ،،،اور آج کا کام کل پر نہ رہ جائے،،،
سلمان کروٹ بدلے بنا ہی سمجھ گیا تھا،،،کہ اک طوفان ابھی گیا ہے اور دوسرا
اسکا منتظر ہے،،،
آج کی رات کچھوے کی طرح سسک رہی تھی،،،خود کو مار کر ہی انسان دوسروں
کے لیے جی سکتا ہے،،،یہ جملہ سلمان کی زندگی کا حصہ تھا،،،مگر وہ صحیح
سے مر ہی نہیں پا رہا تھا،،،کہیں نہ کہیں سلمان اس کے اندر زندہ تھا،،،
خود کو فنا تو کر دیتا ہوں،،،مگر دفنا کیسے دوں خود کو،،،
تم اس طرح سکون سے نہیں سو سکتے،،،ندا کا پہلا جملہ ہی جھگڑے کی شروعات
ساتھا،،،سلمان نے کوئی کروٹ نہ لی،،،،
تم کوئی روبوٹ ہو ،،،کہ آتے ہی بٹن دبایا اور سو گئے،،،سلمان نے اپنے اندر
ختم
ہوتے حوصلے کو پھر سے جمع کرنا شروع کردیا،،،اور معمولی سی کراہ کےساتھ
اپنا رخ ندا کی طرف کردیا،،،
اس نے سارا روزی کا لایا ہوا سامان سلمان پر پھینک دیا،،،غصے اور مایوسی
سے بولی،،،جو چیزیں تمہارے لیے بے معنی سی ہیں،،،وہ دوسروں کے لیے کیسے
اہم ہوسکتی ہیں،،،
میں خود جو اتنی غیر اہم معمولی سی لڑکی ہوں،،،کیسے اتنی قیمتی چیزوں کو
سوٹ کروں گی،،،مجھے یہ سب بہت دکھ اور تکلیف دے رہا ہے،،،
سلمان نے ہمت کرکے اپنے اندر کی تلخی کوگھونٹ بناکر پی لیا،،،نرم سے لہجے
میں بولا،،،لڑکی سنو،،،کبھی انسان جب بیمار پڑتا ہے،،،توکوئی بھی کڑوی سی
گولی
بے ذائقہ سی دوائی،،،تکلیف دینے والا انجکشن،،،یا کوئی بھی جان لیوا
آپریشن،،،بہت
تکلیف اور پریشان کرتا ہے،،،مگر جیسے ہی اس کے پوزیٹو صحت مند اثرات انسان
پر پڑتے ہیں،،،تب جاکر انسان کو اس تکلیف دہ راحت کا اندازہ ہوتا ہے،،،،
اپنی ماں کو،،،باپ کو،،،چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھو،،،،بہت مطمئن ہیں،،،خوش
ہیں،،
ان کو یہ راحت پہنچنے دو،،،مجھے یقین ہے امجد تمہیں ری ایکشن نہیں کرے گا
وہ اینٹی بائیوٹک کا کام کرے گا،،،جسٹ ٹرسٹ ہِم،،،ٹرسٹ می،،،
ندا حیران سی ہو کر اس انسان کو دیکھ رہی تھی،،،جو ہمیشہ اسے لاجواب کردیتا
تھا
وہ خاموشی سے سامان سمیٹ کرکمرے سے باہر نکل گئی،،،
کیا کیا سوچ کر اندر آئی تھی،،،آج اس کو کھری کھری سناؤں گی،،سیدھا کردوں
گی
پتا نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے،،،مگر وہ بس سوچ کر رہ گئی،،،
باہر اس کی ماں پریشان سی بیٹھی تھی،،،ندا نے ماں کو دیکھا،،،تو مسکرا
دی،،،
ندا کمرے میں چلی گئی،،،
ماں نے زور سے سر پر ہاتھ مارا،،،خود سے بولی،،،بس سلمان کی ہربات سچ اور
سمجھ
میں آتی ہے،،،ہم سب تو خواہ مخواہ سر کھپاتے ہیں،،،اب بس کہہ دیا کروں
گی،،،
جاؤں سلمان سے بات کرو،،،ہمارا سر نہ کھاؤ،،،بانو خود کلامی کے بعد مسکرانے
لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
|