آج کل کے افراتفری کے اس دور میں نو جوانون لڑکے لڑکیوں کی
زندگیاں کافی اجیرن ہوکر رہے گی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور نے ہر ایک کی سوچ بدل کر
رکھ دی ہیں۔ مطلب آج ہمارے معاشرے میں شادیاں نہ ہونے کا یا زیادہ عمروں میں ہونے
کا رجہان میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اسکی بنیادی وجہ مذہب دین اسلام کے عقائد سے دوری ہماری سوچ ہمارے رویوں میں تبدیلی
ہیں۔ آج اکسویں صدی کے جدید ماڈرن دور نے ہمیں اپنے اصل عقائد اپنی تہذیب سے سے دور
کرکے مغربی تہذیب سے متعارف جو کرا دیا ہیں-
آج سے تقریباً پچاس ساٹھ سال قبل سادہ زندگی محبتوں بھرا ماحول اور خواہشاتوں اور
ڈیمانڈ کا نہ ہونا تھا۔ بس محبت انسان کی اہميت تھی۔ گھر کے بڑے بزرگوں کے ہر
فیصلوں کی تعمیل ادب احترام کرنا۔ جہاں لڑکی کی عمر پندرہ برس کی ہوئی وہاں فوراً
سولہ ستره سال کے لڑکے سے شادی کردی جاتی تھی۔ نہ لڑکی والے لڑکے کی دھن دولت معیار
سٹیٹس کو دیکھتے تھے۔ اور نہ لڑکے والے لڑکی کی خوبصورتی جہیز وغیرہ کو دیکھتے تھے۔
بس جہاں دونوں بالغاں ہوئے چٹ شادی کردی جاتی تھیں۔
جبکہ آج معاملہ اسکے برعکس ہیں۔ آج ترقی کے اس دور نے ہماری روزمره زندگی پر منفی
اثرات مرتب کردیے ہیں۔ ہماری خواہشات بے لگام ہوتی جارہی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں
لا تعداد لڑکے لڑکیاں شادی کی عمروں سے بھی تجاوز کرکے کنوارے بیٹھے ہیں.
تعلیم شعور و آگہی کے لے حاصل کی جاتی ہے۔ مگر آج والدین اپنے بچوں کو تعلیم اس نیت
سے دلواتے ہیں کہ ہمارا معیار سٹیٹس بہتر ہوں۔ اگر بیٹا انجینئر ہے تو بہو ڈاکٹر
ہونی چاہیئے اور اگر بیٹی زیادہ تعلیم یافتہ ہے تو داماد ڈاکٹر ہونا چاہیئے۔
دوسری طرف لا تعداد لڑکیاں آج تک جہیز نہ ہونے کم صورتی کی بنا پر کنواری بیٹھی ہیں۔
آج معاشرے میں لوگ لڑکی کی خوبصورتی جہیز امیری ہائی سٹیٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور
سیرت اخلاق کو کوئی نہیں دیکھتا۔ یہ لڑکے والوں کی ڈیمانٹ ہوتی ہیں۔ اب لڑکی والوں
کی بھی یہی ڈیمانٹ ہوتی ہیں لڑکا خوبصورت ہو یا نہ ہو بس لڑکا نوکری والا ہوں یا
اچھا کاروبار ہوں اور اگر بزنس مین ہوں خوبصورت اور ہائی سٹیٹس کا مالک ہو تو کیا
بات ہیں۔
لڑکی خوبصورت اسمارٹ پڑھی لکھی ہوں۔ لڑکا چاہے موٹا بھدا ہوں پر ہر ماں کو چودہویں
کے چاند جیسی دلہن چاہیئے۔ اور مائیں اپنے بیٹوں کے لیے نہ جانے کتنی لڑکیوں میں
عیب تراشی کرکے مسترد کرتی پھرتی ہیں۔ خود اپنی بیٹیوں کو فراموش کر کے۔ پھر جب
کوئی انکی خود کی بیٹی کو کم صورت کم حیثیت دیکھ کر رشتے سے انکار کرتا ہے تب انہیں
اپنی بیٹیوں کا دکھ ہوتا ہے۔ یہی مائیں دوسروں کی بہن بیٹیوں میں سینکڑوں نقص
نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
انہی مسائل کی بنا پر آج ہمارے معاشرے میں سینکڑوں لڑکیاں اپنے گھروں میں بن بیاہی
بیٹھی بڑھاپے کی دہلیز کو پہنچ چکی ہیں۔ جن کے چہرے شباب کھلنے کے بجائے مرجھا گئے
جن کے آنگنوں میں اب چہچہاہٹ کے بجائے سناٹے ہیں۔چہروں پر ہنسی کے بجائے اداسیوں کے
ڈھیرے ہیں جو اپنی آنکھوں میں ان کہی سپنے لیے گھر کی چوکھٹ کو تکتی رہتی ہیں اس
امید پر کہ نہ جانے کب آجائے ہمارے سپنوں کا شہزاده ہمیں بیانے۔ حالانکہ وہ جانتی
ہیں کہ اس عمر میں اب کوئی آنے والا نہیں مگر انہیں پھر بھی امید آس رہتی ہیں اور
یہی امید انسان کو زندہ رکھتی ہیں امید کے سہارے ہی تو جیتے ہیں انسان۔ سانس ہے تو
آس ہے ورنہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
اس میں قصور ہم سب کا ہیں۔ اس لیے کہ آج افراتفری کے اس دور میں ہماری سوچیں منفی
بہت ہائے فائے ہوگی ہیں۔ امیری غریبی ذات پات اونچ نیچ اور تعلیم سٹیٹس بھی شادیوں
میں اہم رکاوٹیں ہیں۔ لڑکا اگر بہت خوبصورت ہیں اچھی سیرت کا مالک بھی ہے۔ نیک
انسان اور خوش اخلاق ہے۔ مگر وہ ہے غریب تو امیر لڑکی تو بہت دور کی بات غریب لڑکی
بھی اس سے شادی نہیں کریں گی کیونکہ لڑکے کا غریب ہونا اسکا سب سے بڑا عیب ہے۔
اور اگر یہی لڑکا مال امیر کبیر ہے۔ اور اس میں ہزار برائیاں موجود ہے۔ شرابی خرابی
ہے بری سوسائٹی میں اٹھتا بیٹھتا ہوں لڑکی اور اسکے والدین فوری شادی کے لیے رضامند
اور تیار ہوجائے گے۔ کیونکہ اس امیری اور ہائی سٹیٹس نے لڑکے کے ہزار عیبوں پر پردے
جو ڈال دیا ہیں۔
شادیاں نہ ہونے کی بنا پر بے شمار لڑکے لڑکیاں اب غلط راہ پر گامزن ہورہے ہیں۔ ان
حالات کے مارے سینکڑوں لڑکے لڑکیاں جذباتی چڑچڑے پن اور احساس کمتری کا شکار ہوچکے
ہیں۔ ایسے میں لوگ مجبوری کو سمجھنے کے بجائے احساس کرنے کے بجائے الٹا تنقید کرتے
ہیں۔
باتیں الگ بناتے ہیں خاص کر عورتيں کہ دیکھو فلانے کی بیٹی نسرین چالیس سال کی
بوڑھی ہوگی ابھی تک بن بیاہی بیٹھی ہیں۔
جب نسرین دوسری عورتوں کی اپنے اوپر تنقید سنتیں ہیں تو انکے دل پر کیا بیتی ہیں۔
اسکا اندازہ باتیں بنانے والے کیا جانے اللہ ہدایات دیں ایسی عورتوں کو۔ جو اپنی
بیٹیوں کو فراموش کرکے دوسروں کی بیٹیوں پر بے جا تنقید کرتی پھرتی ہیں۔
آج ذات پات امیری غریبی اور تعلیم سٹیٹس وغیرہ نے نکاح کو اس قدر مشکل بنادیا ہے تو
پھر نو جوان نسل خود بخور غلط راہ پر ہی جائے گی۔ جب نکاح کی راہ مشکل ہوگی۔ تو پھر
گناہوں کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ لڑکا لڑکی آپس میں پسند کی شادی کرنا چاہے
تو دونوں کے گھرانے راضی نہیں ہوتے رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہیں۔ تو پھر دو محبت کرنے
والے غلط قدم اٹھانے پر ہی مجبور ہو گے۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ امیری غریبی ذات
ماحول زیادہ کم تعلیم اور سٹیٹس کو اپنی انا کا مسلہ نہ بنائے۔ اپنے بچوں کی خوشیوں
کو اہميت دیں اور بچوں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے والدین کے حکم کی تعمیل اور تعظیم
کریں۔ کیونکہ والدین اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں سوچتے۔ بس موجود دور نے ہماری سوچ
رویوں خیالات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہیں۔ آج ہم حقائق سے دور اور موجودہ مصنوعیت
چکاچوند کے فریب میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ یاد رہے ہمارا مذہب اسلام خود پسند کی شادیوں
کی اجازت دیتا ہے۔ سو اسلامی اصولوں کو اپنائے۔ اخلاق نیک سیرت اور انسانیت کو
ترجیح دیجیئے۔ رشتوں کو اہميت دیجیئے۔ چاہے اپنے ہوں یا غیر۔
|