زلزلے، طوفان، سیلاب قحط وہ
قدرتی آفات ہیں جن کی روک انسان کے بس سے باہر ہے اور انسان دستِ قدرت کے
آگے بالکل مجبور ان آفات کی زد پر ہوتا ہے۔ طوفانِ نوح سے لے کر 29جولائی
2010تک سیلاب کی موجوں کے آگے انسان کی بے بسی ایک ہی جیسی رہی۔ 29جولائی
2010سے شروع ہونے والا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب خیبر پختونخواہ
سے ہو کر پنجاب سندھ بلوچستان سب سے تباہی مچاتا ہوا گزرا۔ بستیوں کی
بستیاں اجڑ گئیں شہر کے شہر تباہ ہو گئے۔ میں نے اپنے گاؤں میں تقریباً
گیارہ فٹ چڑھے ہوئے پانی کے نشانات دیکھے۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان پر ایسی
مصیبت دوبارہ کبھی آئے۔ یہ سیلاب یقیناً اس نسل کو ہمیشہ یاد رہے گا۔
سیلاب آیا تو ایک عام تاثر تھا کہ اس بار قوم نے وہ جذبہ نہ دکھایا جو کہ
اس کا خاصہ ہے اور جو یہ کسی بھی آفت و تکلیف کے وقت دکھاتی ہے۔ لیکن بات
یہ تھی کہ یہ سیلاب ایک مخصوص علاقے میں نہیں تھا بلکہ ملک کا ہر صوبہ اس
سے متاثر تھا۔ اگرچہ انفرادی طور پر یہ امداد پہلے بھی کی جا رہی تھی لیکن
آہستہ آہستہ اداروں نے اور خاص کر این جی اوز نے اس میں دلچسپی لینا شروع
کی غیر ملکی امداد آنے لگی اقوامِ متحدہ نے بار بار درخواست کی اور اس کی
ضرورت پر زور دیا۔ زیادہ تر یہ مدد ضروریاتِ زندگی اور اشیائے خورد و نوش
کی صورت میں تھی۔ کچھ نقد رقوم بھی تقسیم کی گئیں۔ اب جبکہ حالات کافی حد
تک معمول پر آچکے ہیں اگر چہ پورے گھر یعنی تعمیر سے لے کر سامان تک پورا
ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ لیکن ابھی بھی وہی امداد بار بار دی جارہی ہے جس
کی ضرورت شروع میں تھی یعنی وہی کھانے پینے کی اشیا اور وہی کپڑے ، باورچی
خانے کی ضروریات ، یہ بہت ہی اچھا جذبہ ہے اللہ ایسا کرنے والوں کو اس کا
اجر دے لیکن میرے خیال میں اب ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ایک
ایک خاندان کئی کئی بار یہ سب کچھ وصول کر چکا ہے اور بات یہ نہیں ہے کہ
نادار لوگ یہ سب لے رہے ہیں بلکہ اپنے آپ کو کھاتا پیتا کہنے والے بھی دھڑا
دھڑ یہ سامان لے رہے ہیں اور عزت دار لوگ بھی ٹرکوں کے آگے اسی طرح دھکم
پیل کر رہے ہیں جیسے کہ ضرورت مند ۔ اگرچہ اس بات پر بہت سے لوگ میری
مخالفت کریں گے اور سخت ردِ عمل کا بھی اظہار ہو سکتا ہے۔ لیکن اب آنے والی
مدد کو میں بالکل غیر ضروری سمجھتی ہوں۔ میں دور دراز کے علاقوں کی بات
نہیں کر رہی چونکہ وہاں تک امداد کی ترسیل مشکل ہے اس لئے ہمارے نام نہاد
فلاحی ادارے اور این جی اوز آسان ٹارگٹ کی طرف بڑھتے ہیں کہ امداد کی تقسیم
کے اعداد و شمار سے نام بھی کما سکیں اور خرچ سے زیادہ فنڈز بھی حاصل کر
سکیں۔ دور دراز کے علاقوں میں جہاں یہ امداد اس طرح سے نہ پہنچ سکی جیسا کہ
پہنچنی چاہیئے تھی کی طرف توجہ کی زیادہ ضرورت ہے اور ایک اور عنصر جو اس
ساری گہما گہمی میں نمایاں نظر آتا ہے وہ ہے مقابلے کا رجحان کہ فلاں با
اثر شخص اتنے ٹرک اپنے گاؤں لایا تو مجھے کم از کم اس سے زیادہ لے جانے
چاہئیں۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی کوشش یقیناً قابل
تحسین ہے لیکن نمود و نمائش ایک منفی رویہ ہے جس کی کم از کم اسلام میں
کوئی گنجائش نہیں وہ تو کہتا ہے کہ جب ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ
ہو لیکن یہاں تو ٹرک لانے والے کو صرف اپنی تشہیر مقصود ہے۔
اسلام صدقہ و خیرات کی جتنی تاکید کرتا ہے کوئی اور مذہب اس کی برابری کا
دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ محنت کی ہدایت اس سے بڑھ کر کرتا ہے۔ یہاں
میں حیات ِطیبہ سے اس واقعے کا مفہوم نقل کرونگی جو میں نے اپنی کسی
ابتدائی جماعت کی کتاب میں پڑھا تھا اور یقیناً بہت سے لوگ اس کی تفصیلات
سے مجھ سے زیادہ واقف ہوں گے کہ ایک شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے پاس آیا اور کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں میری مدد کیجیے ۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پاس موجود چیزوں کی تفصیل پوچھی جو کہ ایک پیالہ
اور ایک کمبل تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ چیزیں منگوائیں اور
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیں اس سے ملنے والے دو درہم
میں سے ایک سے کھانے پینے کا سامان اور دوسرے سے کلہاڑی خریدنے کو کہا تاکہ
لکڑیاں کاٹ کر بیچ سکے۔ کچھ عرصے بعد وہ شخص خوش خوش دربارِ نبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اب اسے مانگ کر کھانے کی ضرورت
نہیں۔
لیکن اب دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ وہ لوگ جو کل تک مزدوری کیلئے مارے مارے
پھرتے تھے اب امدادی ٹرکوں کے انتظار میں رہنے لگے ہیں۔ مصیبت کا وقت ٹل
چکا ہے اب امداد کی نہیں ان اثرات سے نکلنے کی ضرورت ہے اور یہ اثرات تب ہی
زائل ہونا شروع ہوں گے جب لوگ اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹیں گے اور
محنت مزدوری دوبارہ شروع کریں گے۔ ایک مشورہ سمجھیے یا درخواست تمام مخیّر
حضرات سے یہ ہے کہ اب وہ جتنی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ نقد رقوم کی صورت میں
کیجیے۔ اگرچہ ہمارے عوام کیلئے اپنی ضروریات پوری کرنا مشکل ہے تاہم جو
جتنی مدد کرنا چاہے اس کو جمع کیجیے ۔ قطرہ قطرہ سمندر اور پیسہ پیسہ
سرمایا بنتا ہے اور کسی این جی او کی مدد سے نہیں بلکہ کسی امین اور نیک
شخص کی سرکردگی میں آگے بڑھ کر اگر حکومت کو نہ دینا چاہیں خود انفراسٹرکچر
کی تعمیر میں لگائیے۔
حکومت کو بھی اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ وطن کارڈ کے ذریعے وہ کن
لوگوں کو پیسہ دے رہی ہے ۔ کئی ایسے خاندان ہیں جو دو کمروں کے کچے مکان
میں رہتے تھے اور ان میں باپ بیٹے سب شامل تھے لیکن اب باپ اور اس کے چار
چار پانچ پانچ بیٹوں کے نام پر الگ الگ کلیم کر کے کئی کئی حصے لئے گئے ہیں
اور یہ کہنے والوں کے بارے میں کہ انہیں کوئی امداد نہیں ملی ، پوری تفشیش
کی جائے۔ مجھے ہرگز اس بات پر اعترض نہیں کہ جن کا نقصان ہوا ہے ان کی مدد
کی جائے لیکن اس وقت ریلیف کی ضرورت ختم ہو کر بحالی تک بات آچکی ہے اب
بحالی کی ضرورت ہے اور اس کیلئے جو واقعہ میں نے اوپر بیان کیا اس سے
رہنمائی لی جائے۔ قوم پہلے ہی کشکول سے تنگ آ چکی ہے ۔ حکومت کے کشکول پر
سب کو اعتراض ہے تو ا ب اسے افراد کے ہاتھ میں مت پکڑ ا یئے ورنہ یہ حکومتی
سطح سے اتر کر قومی رویہ بن جائے گا سیلاب ایک بہت بڑی آزمائش تھی جو آ کر
گزر چکی ہے اب نفسیاتی بحالی کی ضرورت ہے۔ خودی، خودداری اور عزتِ نفس کی
بحالی کی ضرورت ہے ۔صرف قدرتی آفات کے وقت ہی نہیں عام دنوں میں بھی حکومت
سستی چینی اور سستے آٹے کے ٹرک کھڑے کر کے ، عوام کو قطاروں میں کھڑا نہ
کرے بلکہ اشیائے ضروریہ کو دکانوں اور بازاروں میں ان کی پہنچ میں لائے ۔
ان قطاروں میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہوتی ہے۔ سستے آٹے کے ٹرک
پاس کھڑی ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی نے پوچھنے پر بتایا کہ اب تک وہ کم از کم
دس بوری آٹا جمع کر چکی ہے۔ اب بھی یہی حال ہے شہروں سے نزدیک سیلاب زدہ
علاقوں میں کئی کئی بار کا لیا ہوا سامان جمع کیا جا رہا ہے یا بیچا جا رہا
ہے۔ لہٰذا اس بارے میں خاصی احتیاط کی ضرورت ہے اور اب جمع شدہ امداد کا رخ
دور دراز کے علاقوں کی طرف کیجیے۔ چاہے یہ پنجاب میں ہوں خیبر پختونخواہ
میں یا سندھ اور بلوچستان میں اور اب انفرادی امداد سے آگے بڑھ کر پل ،
سکول اور سڑکیں بنانے کی ضرورت ہے۔ اس تعمیر میں متاثرہ افراد کو معمول سے
اچھے معاوضوں پر شامل کیجیے امید ہے یہی دو درہم انہیں امداد کی ضرورت سے
آزاد کر دیں گے۔ |