لاہور شہر میں دن بدن کی بڑھتی ہوئی ٹریفک کے پیشِ نظر
ٹریفک کا جام رہنا معمول بن چکا ہے لاہور کو یوں تو سگنل فری بنا دیا گیا
ہے مگر شہر کے پوش علاقوں ماڈل ٹاؤن لنک روڈ، واپڈا ٹاؤن گول چکر، شوکت
خانم ہسپتال، جناح ہسپتال کے اطراف کی سڑکیں، پیکو روڈ، ٹھوکر نیاز بیگ
کنال روڈ، ملتان روڈ وغیرہ پر کار پارکنگ کی عدم دستیابی کی بدولت سڑکیں
نہائیت تنگ ہو چکی ہیں اور ٹریفک وارڈنز نو پارکنگ پر کھڑی گاڑیوں کو ہٹانے
میں بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں، کہیں پر اورنج ٹرین پراجیکٹ کی بدولت سڑکیں
کھود کر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل ڈالا ہوا ہے تو کہیں پر خوانچہ فروشوں اور
دکانداروں نے سڑکوں پر اپنی دکانداری کھولی ہوئی ہے مگر کوئی پوچھنے والا
نہیں ہے فٹ پاتھ جس کا مطلب ہی پیدل چلنے والوں کی جگہ ہے اُس پر قبضہ
مافیا نے قبضہ جمایا ہوا ہے اینٹی انکروچمنٹ والے بھی قبضہ مافیا سے راستہ
واگزار کروانے میں بے بس نظر آتے ہیں لاہور کی معروف شاہراہ فیروز پور روڈ
پر چونگی امر سدھو کے علاقہ میں نئے بنائے گئے شنگھائی پُل پرموبائل سمیں
فروخت کرنے والے، بھیک مانگنے والے، تولیہ بیچنے والے، مالش کرنے والے حتیٰ
کہ نیم حکیم حضرات قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے ہیں جن سے پیدل چلنے والے اور
موٹر سائیکل سوار تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں، جنرل ہسپتال کے ساتھ سروس روڈ
پر پرائیویٹ ایمبولینسز والوں نے من مانی کرتے ہوئے ٹریفک میں خلل پیدا کیا
ہوا ہے یہ صورتحال کھلے علاقوں میں ہے اندرونِ لاہور کا اندازہ آپ خود لگا
سکتے ہیں داتا صاحب سے لے کر شاہدرہ تک، ریلوے اسٹیشن سے لے کر اُردو بازار
تک اگر یوں کہا جائے کہ پورے لاہور کے باسی ٹریفک، آلودگی، گاڑیوں کے دھویں،
ہارن کے شور شرابے ، بے ڈھنگی ڈرائیونگ، ناجائز تجاوزات اور قبضہ مافیا کے
نرغے میں ہے تو بے جا نا ہوگا اس کے لئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنے کی
ضرورت ہے اینٹی انکروچمنٹ والوں کو چاہئے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر تجاوزات
کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کرے اور فٹ پاتھ پر ناجائز قابض مافیا کو فوری
طور پر قانون کی گرفت میں لیں اسی طرح ٹریفک وارڈنز کا بنیادی کام ٹریفک کو
چلتے رہنے کے لئے سڑکیں صاف کروانا ہے تا کہ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ نا
آئے مگر لاہور کے ٹریفک وارڈنز ٹریفک کے بہاؤ کو ممکن بنانے کی بجائے اپنی
جیب بھرنے کی تگ و دو زیادہ کر رہے ہیں سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف
کا جاتی عمرے کا علاقہ ہو یا پھر یاد گارِ پاکستان کے ساتھ متصل لاری اڈا
ہر جگہ پر ٹریفک وارڈنز نے غریب عوام کو لُوٹنے کے لئے رشوت ستانی کا بازار
گرم کر رکھا ہے لاہور کی ضلعی انتظامیہ کی رُو سے ہیوی ٹریفک صرف رات کے
اوقات میں شہرِ لاہور میں داخل ہو سکتی ہے اس کے لئے مروجہ قانون رائج کیا
گیا ہے مگر لاہور کے داخلی راستہ رائیونڈ روڈ پر ٹریفک وارڈنز نے رشوت لینے
کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ہیوی ٹریفک کنٹینر، لوڈر گاڑیوں کو بنا کاغذات چیک کئے
رشوت لے کر چھوڑ دیاجاتا ہے چاہے دشمن عناصر کنٹینر میں اسلحہ کی بھاری
کھیپ چھپا کر شہر میں داخل ہو جائیں یا پھر کوئی اور غیر قانونی سامان کی
ترسیل کر دیں ٹریفک وارڈنز کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں اسی طرح لاہور کے
معروف علاقہ لاری اڈا میں ٹریفک وارڈنز اور لاری اڈا میں بنائی گئی پارکنگ
کے ٹھیکے دار کی آپسی ملی بھگت سے غریب رکشے والوں کا بنا کسی بات پر چالان
کر دینا معمول کی بات بنا لیا ہے جس کے تحت رکشے والوں کا سواری اُتارنے کے
فوراََ بعد دو سو روپے کا چالان کر دیا جاتا ہے پھر رکشہ بند کرنے کی دھمکی
دے کر پارکنگ والوں کے ساتھ ساز باز کر کے رکشہ لے جانے کا مشورہ دیا جاتا
ہے جس کی فیس دو سو روپے مزید رکھی گئی ہے اس طرح رکشہ والوں کو فی چالان
چار سو روپے میں پڑ جاتا ہے اور غریب رکشے والے کو اپنے بچوں کی روزی روٹی
کی خاطر دو سو روپے بطور رشوت پارکنگ والے کو ادا کرنے پڑتے ہیں جو کہ پچاس
روپے پارکنگ والے ٹھیکیدار کی جیب میں ، پچاس روپے پارکنگ کے ملازم اور
باقی کے سو روپے ٹریفک وارڈنز کی جیب میں چلے جاتے ہیں اور چالان کے دو سو
روپے کا پتا نہیں کہ وہ قومی خزانے میں جمع ہوتے ہیں یا پھر وہ بھی جعلی
چالان فارم کے ذریعے غبن کر لئے جاتے ہیں اس سلسلے میں ٹریفک وارڈنز کے
اعلیٰ افسروں اور خادم اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ ٹریفک وارڈنز کے ان غیر
قانونی اقدامات کو روکنے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور اُن کی
مانیٹرنگ کی جائے تا کہ کسی غریب کی دن بھر کی کمائی یوں رشوت کی نظر نا ہو
جائے اور کسی بھی ملک دشمن عناصر کو غیر قانونی سامان کی ترسیل کی اجازت نا
دی جائے کہیں ایسا نا ہو کہ ملک دشمنوں کے ہاتھوں یرغمال بن جائے۔
|