کالج اساتذہ کے مطالبات

ماہ ِ اکتوبر اپنے وسط میں پہنچ چکاہے لیکن گرمی کی شدت و حدت میں کمی اپنی دھیمی رفتار سے جاری ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسموں میں تغیراتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ انہی اثرات کی لپیٹ میں ارضِ وطن بھی آچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گرمی کا موسم طویل شکل اختیار کرگیا ہے۔ اگر سال کے بارہ مہینوں کو چھ ماہ گرمی اور چھ ماہ سخت گرمی میں تقسیم کرلیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اس تمہید سے گلوبل وارمنگ اور موسموں کا حال مقصود نہیں ہے بلکہ یہ مضمون اُنیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو خیبر پختون خوا صوبائی اسمبلی کے سامنے سخت گرمی میں کالج اساتذہ کا اپنے دیرینہ اور جائز حقوق کے لئے احتجاج بارے میں ہے۔صوبہ بھر کے کالج اساتذہ قافلوں کی شکل میں پشاور پہنچ کر مرکزی جلوس کا حصہ بن رہے تھے۔خیال رہے کہ اس احتجاج میں جوان ، بوڑھے اور خواتین کالج اساتذہ تمام شامل تھے۔ کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ اساتذہ کا ایک جم غفیر صوبائی اسمبلی کے سامنے جمع ہوگیا تھا۔ مقررین کے لئے ایک چھوٹی سی گاڑی پر اسٹیج بنایا گیا تھا۔ صوبائی حکومت کے لئے انتہائی شرمناک بات تھی کہ جو اساتذہ کمرۂ جماعت میں بچوں کو لیکچر دیتے ہیں وہ اُس دن سخت گرمی کی حالت میں سڑکوں پر موجود تھے۔جب گرمی کی شدت بڑھ جاتی تو وہ سائے کی تلاش میں پُل کے نیچے کھڑے ہوجاتے۔

تاریخ بغداد میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ؒجو امام محمد ؒ کے شاگرد تھے۔ ایک مرتبہ مرو کے محلہ میں دباغوں ( چمڑا پکانے والوں ) کے بچوں کو دینی تعلیم دے رہے تھے کہ خلیفہ مامون الرشید کا وزیر فضل اُن کے حلقے کے پاس آکر کھڑا ہوگیالیکن حضرت ابراہیم ؒ نہ تو اپنی جگہ سے ہلے اور نہ ہی شاگردوں کو جدا کیا۔ وزیر کے ایک ساتھی سے رہا نہ گیا اور کہا ۔ ’’ ابراہیم ! تعجب ہے خلیفہ کا وزیر آپ کے پاس آیا ہے اور تم ان چمڑوں کے پکانے والوں کے خیال سے وزیر کے لیے اُٹھے بھی نہیں ــــ‘‘۔حضرت ابراہیم ؒ ابھی کچھ کہنے بھی نہیں پائے تھے کہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد بول اُٹھا۔ ’’جناب ! ہم لوگ اب چمڑے کے پکانے والے نہیں رہے بلکہ علم کی بدولت ہمارے استاد حضرت ابراہیم ؒ کو اتنی بلندی ملی ہے کہ خلیفہ کا وزیر بھی اُن کے پاس آتا ہے‘‘۔یہ ہے استاد کا مقام اور مرتبہ ، جس کے سامنے سلطان اور سلطنت سب ہیچ۔لیکن صد افسوس ، اُنیس ستمبر کے دن خیبر پختون خوا اسمبلی کا اجلاس شروع ہوااور حکومت کی بے حسی کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی متعلقہ وزیر اساتذہ کے لئے باہر آیا اور نہ ہی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آج اساتذہ سراپا احتجاج کیوں ہیں ؟۔اور جب حکومت مخالف نعروں کی گونج ٹھنڈے ایوان میں بیٹھے اراکین کے کانوں تک پہنچی تو حزب ِ اختلاف کی جماعتوں نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ محترمہ نگہت اورکزئی اسمبلی ہال سے باہر آئیں اور اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ لہراتے ہوئے اساتذہ کے چھوٹے کنٹینر پر جا پہنچی اور اساتذہ کے ساتھ بھرپور یک جہتی کا اظہار کیا۔احتجاج کی کوریج کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے موجود تھے لیکن کالج اساتذہ کے اس کامیاب احتجاج کو وہ کوریج نہ ملی جو اُن کا حق بنتا تھا۔البتہ چند ایک نجی چینلوں پر نیوز ضرور آئی۔

یاد رہے کہ خیبر پختون خوا پروفیسر اور لیکچرر ایسوسی ایشن کے مطالبات میں کالج اساتذہ کی اَپ گریڈیشن (ون سٹیپ پروموشن ) ، ٹیچنگ یا پروفیشنل الاؤنس اور ترقیوں کے عمل کو تیز کرناسر فہرست ہیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہر دور حکومت میں مختلف محکموں کے ملازمین کو مراعات ، سروس اسٹرکچر ، اَپ گریڈیشن اور ترقیوں سے نوازا جاتا رہا ہے۔لیکن کالج اساتذہ کا طبقہ ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں بھی اس باشعور طبقے کو یہ کہہ کر ٹرخایا جارہا ہے کہ سرکاری خزانے میں فنڈز نہیں ہیں۔ان تمام باتوں کے علاوہ انصاف کی حکومت کالجوں کی نج کاری اور بورڈ آف گورنرز کے لئے بھی پلان تشکیل دے رہی ہے۔اس سارے تناظر میں صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کالج اساتذہ کے دیرینہ مطالبات پر سنجیدگی سے غور کریں تاکہمعلمی کے اس مقدس پیشہ سے وابستہ افراد سڑکوں کی بجائے کالجوں میں نظر آئیں کیوں کہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک و قوم کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.