سرسید کا سفر جاری ہے

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈاکٹر خالد مبشر سے کسی مدرسے کا طالب علم اپنے تعلیمی مستقبل سے متعلق رہنمائی حاصل کی توانہوں نے برملا برج کورس میں داخلہ لینے کی سفارش کردی ۔یوگی سرکار میں برج کا لفظ مجھ جیسے سیاسی دوپائے کو بے ساختہ برج بھاشا کی جانب لے گیا۔ میں سوچنے لگا آخر اس غریب طالبعلم سے ڈاکٹر صاحب کون سی دشمنی نکال رہے ہیں اور اسے ہندی کیوں پڑھوانا چاہتے ہیں جبکہ خود ہندی والوں نے اہل اردو کی طرح اپنی اولاد کو ہندی سے محروم کردیا ہے ۔ ویسے مدرسے کے طلباءانگریزی میڈیم کے بچوں سے بہتر ہندی لکھ، پڑھ اور بول لیتے ہیں ۔آگے چل کر پتہ چلا کہ یہ انگریزی کا برج ہے توخیال آیاعلی گڑھ تحریک بھی تو ایک پل ہی تھی جس کو پار کرکے مسلمان مغلیہ دور سے انگریزوں کے زمانے میں آگئے۔

یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ اس تاریخی پل کے سنگ بنیاد کا ایک اہم پتھر مشہور شاعر مرزا غالب نے رکھا تھا۔ سر سید احمد خان عمر میں مرزا غالب سے تقریباً بیس سال چھوٹے تھے۔سر سید کے والد متقی خاں کے مغلیہ بادشاہ اکبر شاہ سے اچھے مراسم تھے۔ انہیں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن میں خلعت عطا ہوتا تھا۔ متقی خان نے کم عمری ہی میں یہ وراثت اپنے بیٹےسید احمد کو سونپ دی اس لیے ان میں مغلیہ حکمرانوں کے تئیں جذبۂ عقیدت کا پایا جانا فطری تھا ۔ اسی تعلق ِ خاطرنےجوانی کے زمانے میں سرسید سے اکبر اعظم کےدور کی مشہور تصنیف''آئین اکبری'' بعد ازتصحیح دوبارہ شائع کروائی۔ ا س کتاب پر غالب نے منظوم تقریظ تو لکھ دی لیکن ساتھ ہی مشورہ دیا کہ مردہ پرستی تضیع ا وقات ہے۔غالب نے برقی قمقموں اور بھاپ کے انجن کی مثال سے سمجھایا کہ انگریزوں سے سبق لے کرفطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے اپنے اجداد سے آگے نکل جانا وقت کی ضرورت ہے۔ پھر کیا تھا سر سید کی علمی تحریک پٹری پر آگئی لیکن سامنے ایک بڑی کھائی تھی ۔ اس کو عبور کرنے کی خاطر سرسید احمد خاں نے اینگلو اورینٹل کالج نامی پل ؁۱۸۷۵ میں تعمیر کیا یعنی ؁۱۸۵۷ کی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے تاریخ اور بازی دونوں الٹ دی گئی۔یہی کالج ؁۱۹۲۰ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرپھرے رہنما یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ۸۰۰ سال بعد ہندوستان کو پہلا ہندو حکمراں نصیب ہوا ہے۔ اس کے معنیٰ ہوے مسلمانوں اور انگریزوں کی غلامی کا خاتمہ دراصل ؁۱۹۴۷ میں نہیں بلکہ ؁۲۰۱۴ میں ہوا جب مودی جی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوگئے ۔ اس گمراہی کو پھیلانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ؁۱۹۴۷ میں جو آزادی حاصل ہوئی اس میں سنگھ پریوار نے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پر بھی مخبری کا الزام تھا ۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگ عام ہندو شہری کے دماغ میں مسلمانوں کو انگریزوں کی مانند غیر ملکی غاصب حملہ آور بنا کر پیش کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ خیر’ ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں ‘ مسلمانانِ ہند نے مودی جی کے اقتدار میں آنے کے بعد مرکز برائے فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند قائم کرکے ایک نئے پل کی داغ بیل ڈالی ۔ اس مرکز نے فضلائے دینی مدارس کو یونیورسٹی کے ساتھ جوڑنے کے لیے ایک سالہ برج کورس کا آغاز کردیا جو کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

برج کورس کو ئی نیا اور انوکھاخیال نہیں ہے۔ ہماری یونیورسٹی کے طلباء بھی جب ماسکو یا برلن جیسے مقامات میں تعلیم کی غرض سے جاتے ہیں تو انہیں اس طرح کا کورس کرنا پڑتا ہے جس کی اولین وجہ مقامی زبان کوسیکھنا ہوتی ہے تاکہ اس میں تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھایا جاسکے نیز وہاں کی تہذیب و ثقافت سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے۔ ہندوستان کا معاملہ ان یوروپی ممالک سے دو معنیٰ میں مختلف ہے اول تو یہاں کوئی ایک زبان رائج نہیں ہے۔ ہندی راشٹر بھاشا ہونے باوجود ایک بڑے علاقے کی علاقائی زبان ہے اور ملک بہت بڑا حصہ نہ اسے جانتا ہے اور نہ سیکھنا چاہتا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ ہندی زبان میں اعلیٰ سائنسی و تکنیکی تعلیم سے آراستہ کرنے کی صلاحیت و گنجائش مفقود ہے اس لیے بدقسمتی سے ہمیں اعلیٰ تعلیم گاہوں میں اپنی مادری زبان کو خیرباد کہہ کر ایک غیر ملکی زبان یعنی انگریزی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تمام ہی اسکولی طلباء کییہ ضرورت ہے مگر دینی مدارس کے فارغین کی زیادہ ہے۔

دینی مدارس ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی حقیقت ہیں اور ان کی ضرورت و اہمیت کا انکار خام خیالی ہے۔ جس طرح ہماری مختلف یونیورسٹی کے طلباء دیگر تعلیم گاہوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اسی طرح دینی مدارس کے فضلاء کی معلومات بھی دوسرے مدارس کے متعلق بہت کم ہوتی ہے۔ ان کے درمیان گوناگوں وجوہات کی بناء پر غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں جو مسلکی اختلافات کو ملی انتشار میں تبدیل کردیتی ہیں ۔ سماج میں یونیورسٹی کے بیشتر طلباء کا کردار اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے اس کے برعکس عام مسلمان اپنے معاشرتی مسائل کے لیے علماء سے رجوع کرتاہے۔ اس لیےدینی مدارس کے طلباء کی سماجی اہمیت زیادہ ہے۔ایسے میں مختلف مدارس کے طلباء کا ایک سال تک ایک دوسرے کے ساتھ ملنا جلنا ان کے درمیان سے فاصلوں کو مٹا دیتا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ برادرانہ تعلقات رواداری کو فروغ دیتے ہیں اور ایک باہمی اعتماد کا ماحول بن جاتا ہے۔ یہ امت کی بہت بڑی ضرورت ہے جو نہایت فطری انداز میں پوری ہوتی ہے۔ برج کورس کے طلباء کا یہ نیا تعلق و تشخص مسلکی حدود و قیود سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس کورس کے وقفہ میں طلباء کو اپنی دلچسپی اور صلاحیت کے لحاظ سے مناسب مضمون کے انتخاب کا بھی ناد رموقع ہاتھ آتا ہے اور وہ ایسے مضامین کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں جو ان کی اپنی زات اور امت کےلیے مفید وضروری ہوں ۔

اس سال کی ابتداء میں مرکز برائے فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند کے زیر اہتمام سالانہ عالمی کانفرنس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس کانفرنس کا ایک اہم اجلاس دینی مدارس میں سائنسی تعلیم کے فروغ کے موضوع پر تھا۔ اس اجلاس میں تین طرح کے لوگوں سے استفادہ کا موقع ملا ۔ ایک تو وہ حضرات تھے جنھوں نے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کی مگر یونیورسٹی کے نظام تعلیم سے ناواقف تھے۔ دوسرے یونیورسٹی کے وہ دانشور تھے جن کی دینی مدارس سے متعلق معلومات محدود و ناقص تھی تیسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے مدارس سے فراغت کے بعد برج کورس کیا اور اب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان تینوں کے موقف میں واضح فرق نظر آیا ۔ پہلا گروہ بیجا تحفظات کا شکار تھا دوسرا خیالی باتیں کررہا تھا جو حقیقت سے کوسوں دور تھیں۔ ان دونوں کے برخلاف برج کورس کے طلباء نہایت اعتماد کے ساتھ عملی تجاویز پیش کر رہے تھے جن میں ارتقاء اور امید کا پہلو نمایا ں تھا۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ تھی کہ ان لوگوں نے دونوں جہانوں کی سیر کررکھی تھی اور ہر دو مقامات کی کمیوں اور خوبیوں سے واقف ہوگئے تھے۔ امید ہے وقت کے ساتھ یہ ننھا پودہ بار آور ہوگا اور امت کو بہترین پھولوں اور پھلوں سے نوازے گا۔ اس کوشش کو دیکھ کر سرسید کی روح مسرور وشادماں ہو رہی ہوگی ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223703 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.