دُنیا ہر روز نت نئے مسائل سے گزر رہی ہے۔ لامذہبیت،
مادیت، دہریت، جدیدیت، مغربیت کے فتنوں نے انسانی اقدار اور Human Valuesکا
جنازہ نکال دیا ہے۔ اخلاق شکن معاشرے کا مزاج دن بہ دن فروغ پا رہا ہے۔ اِس
کے بہت سے اسباب ووجوہ ہیں، ہم یہاں صرف ایک سبب کا ذکر کرتے ہیں، جس کے
زیر اثر ہر روز؛ زوال کی جانب سفر بڑھ رہا ہے۔ وہ شوشل میڈیا کا منفی
استعمال ہے۔جس کے نقصانات کے چند رُخ یہاں پیش کیے جاتے ہیں:
[۱] بِلا تحقیق تسلیم خم: ہر روز کوئی نہ کوئی عنوان چھیڑ دیا جاتا ہے۔
لمحوں میں طوفان آجاتا ہے۔ کوئی بھی بات جب سامنے آئے تو اس کی تحقیق ضروری
ہے۔ بِنا تحقیق کسی مسئلے کو مان لینا یہ غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل ہے۔ ایسے
رُجحانات نے ہمیں بڑے نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ
مسلمانوں کا ذہن ناپنے کے لیے کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ جیسے ابھی حال ہی
میں میانمار سانحہ واقع ہوا۔ مسلمانوں کی فصل کاٹی گئی۔ دہشت گردی کی حدیں
پار کی گئیں۔ مسلمان ہی دہشت زدہ؛ اور دہشت گردی کے مجرم کھلے عام یہ کہتے
پائے گئے کہ ہم تشدد ختم کر رہے ہیں، اِس ضمن میں ترکی کے غیور حکمراں
بیدار ہوئے۔ ریلیف و مدد بھیجی، اقتدار کے بھوکے مسلم ممالک کو جگانے کی
کوشش کی گئی، کوئی نہ جاگا لیکن شوشل میڈیا پر اشیائے خورد ونوش کی امداد
کو فوجی قوت کے استعمال سے باور کرایا گیا۔ جس سے مسلمان بہل کر ایسے میسج
عام کرنے لگے گویا اب میانمار کے تشدد کا بدلا ترکی لے لے گا، اس طرح کے
میسج دھوم سے عام کیے گئے اور برمی ظلم کے خلاف بننے والے ذہن کو بہلا دیا
گیا۔ اِس پروپیگنڈے سے مسلمان خوش فہمیوں کے شکار ہوئے اور ظالم کے خلاف
مذمت میں کم زوری واقع ہوئی۔
[۲] ناموسِ رسالت ﷺ: مسلمان ہر محاذ پر محبت رسول ﷺ کی بنیاد پر کامیاب،
فاتح اور جہاں گیرو جہاں باں ہوئے۔ اسی لیے ابلیسی قوتوں نے صدیوں کے غور و
خوض کے بعد جو نتیجہ نکالا وہ اقبالؔ کی زباں میں یہ تھا
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد ﷺ اس کے بدن سے نکال دو
اسی روح کوکم زور و مضمحل کرنے کے لیے شوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا۔ آج
عالم یہ ہے کہ کوئی بھی بد زبان؛ رسول کریم ﷺ یا قوانینِ مصطفی کی توہین کی
جرأت کر لیتا ہے، اس کی خباثت کو ہم بجائے ڈھنگ سے ختم کرنے کے، شوشل میڈیا
پر خود ہی وائرل کر کے عام کر دیتے ہیں۔ مسلمانو! اِس عمل سے گستاخ کی مذمت
ہو رہی ہے یا اس کی فکر ی اشاعت؟ گستاخی پر سدِ سکندری قائم کرنے کے لیے
پہلے گستاخانہ کلپس کو شوشل میڈیا سے دور کرنا چاہیے جب کہ ہم خود دیکھتے
ہیں کہ لوگ ایسے غیر ذمہ دار ہو گئے کہ کسی نے بکواس کی تو اسے خود ہی
گروپوں پر ڈال کر مشتہر کر دیتے ہیں۔ جب کہ ایسی فکر کی خبر لینی چاہیے نہ
کہ اسی فکر کی اشاعت در اشاعت!! جیسا کہ دہلی کی ایک گستاخ اور اس طرح کی
کئی کلپس خوب پھیلا کر لوگوں نے گستاخی کی مذمت کی۔ ایسی بے عقلی نے ہمیں
اور تباہی دکھائی ہے۔ یوں ہی ایک مدت سے گنبد خضرا و کعبہ شریف کی بے ادبی
والی امیجز وائرل کر کے ’گستاخ مشن‘ کو معاذاﷲ مضبوط کیا جا رہا ہے۔
مسلمانو! ہوش میں آؤ جنھیں مٹانا تھا، انھیں ہی عام کر کے زندگی دے رہے! یہ
عمل سخت تردد کا باعث ہے۔
[۳]منفی رجحانات: پہلے ہم دیکھتے تھے کہ کوئی پرچہ دین کے نام پر خوابوں کی
باتوں پر مشتمل تقسیم کیا جاتا تھا، جسے بانٹنے پر فوائد اور نہ بانٹنے پر
نقصان کی خبر دی جاتی تھی۔ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ایسی غیر شرعی
کوشش کا حصہ بنتے تھے۔ اب چوں کہ شوشل میڈیا کا دور ہے، تو یہی واہمہ شوشل
میڈیا پر بھی فروغ پا رہا ہے۔ جیسے؛ یہ میسج دس لوگوں کو بھیجو تو خوش خبری
ملے گی، یہ میسج اِتنوں کو بھیجو، اُتنوں کو بھیجو۔تمہیں اﷲ کی قسم، تمہیں
ان کی قسم، نہیں بھیجے تو ہلاک ہو جاؤ گے۔وغیرہ وغیرہ! اس طرح کم پڑھے لکھے
مسلمانوں کے عقائد کوخراب کیا جا رہا ہے۔ مسلمانو! ایسے میسج سے قوم کو
بچاؤ۔ شوشل میڈیا پر جب بھی کوئی ایسی پوسٹ بھیجے فوراًاس کی اصلاح کی جائے۔
[۴]اسلاف کی بے ادبی: ہم ادب کے داعی ہیں۔ بے ادبی ابلیسی طریقہ ہے۔ یہ
دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ لوگ اپنے نفس کی خاطر اپنے اسلاف پر لعن طعن کر
رہے ہیں۔حتیٰ کہ معاذاﷲ بعض گروپس پر یہ دیکھنے میں آیا کہ صحابہ بالخصوص
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بے ادبی بھی کی گئی، یوں ہی اسلاف کی
توہین سے ایماں کی تباہی کا خدشہ ہے۔ اِس لیے بھی ایسے معاملات پر قدغن
لگنا چاہیے۔
[۵] گناہ کی اشاعت: اسلام نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا، ان میں مبتلا ہونا
گناہ ہی ہے؛ لیکن شوشل میڈیا پر اِس گناہ میں لگاتار اضافہ اِس طرح ہوتا ہے
کہ بری باتوں کو دوسروں تک پہنچا کر دوسروں کے گناہ میں شراکت کیجاتی ہے،
ایک برائی اگر دس تک پہنچائی جائے تو ان کے گناہ بھی برائی پھیلانے والے کو
متاثر کرتے ہیں۔ اب تو لاکھوں افراد تک غلط علم پہنچا کر اُس کا وبال بٹورا
جا رہا ہے۔
[۶] تضییع اوقات: وقت انمول نعمت ہے۔جس کی قدر کرنے والا کامیاب ہے۔ لیکن
شوشل میڈیا پر لگے رہنے والے نمازوں اور دیگر ضروری ذمہ داریوں کی پروا
نہیں کرتے۔ وقت کی بربادی کا معاملہ بڑا نازک ہوتا جا رہا ہے۔ گھنٹوں
موبائل پر لگے رہنا اور چیٹ و پوسٹ میں وقت ضائع کردینا کوئی عیب نہیں مانا
جاتا۔ کتنے ہی لوگ اپنے ذمہ کے کام میں اسی سبب کوتاہی کرتے ہیں کہ انھیں
شوشل میڈیا سے فرصت نہیں ملتی۔
شوشل میڈیا کے درست و صحیح استعمال کے لیے گزرے کئی برسوں سے نوری مشن نے
نوجوانوں کی ذہن سازی کی کوشش کی۔ مختلف ذرائع کے استعمال سے کسی حد تک
ذہنوں کو ہم وار بھی کیا گیا۔ غیر ضروری و فضول پوسٹوں کے مقابل ہزاروں
مستند اصلاحی، فلاحی، سماجی، دینی و علمی پوسٹس تیار کر کے مہیا کروائی
گئیں تا کہ سنجیدہ باتیں لوگوں تک پہنچے۔ گناہوں کی ترغیب دلانے والے عوامل
پر کنٹرول کی تدابیر بھی مختلف وقتوں میں اختیارکی جاتی رہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سرپرست حضرات، والدین، اساتذہ نسلِ نو کی مکمل
نگرانی کریں، ان کے مشاغل، ان کے کام اور طریقِ کار کی رہنمائی کریں تا کہ
انھیں فضولیات کے شغل سے بچا کر با مقصد کاموں میں لگایا جا سکے۔ یوں ہی
نوجوانوں کو چاہیے کہ بحیثیت ایک مسلمان کے کوئی بھی پوسٹ، ویڈیو، آڈیو،
امیج، میسج بِنا جانچ پڑتال کے آگے نہ بڑھائیں۔ بِنا تصدیق کو حدیث یا
مسئلہ شرعی لوگوں تک نہ پھیلائیں کہ اِس سے عوام کے اعمال خراب ہونے کا
اندیشہ ہے بلکہ بسا اوقات عقیدے کی خرابی بھی در آتی ہے۔ اسلام مخالف
مشنریاں یہی چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کو غیر ضروری و فضول باتوں میں الجھا کر
ایمان و عقائد خراب کر دیں۔ ہم دین فطرت کے حامل ہیں اس لیے ہماری زیادہ
ذمہ داری ہے کہ درست و صحیح صحیح باتوں کی اشاعت کریں اور بربادیِ وقت والے
تمام معاملات سے اجتناب کرتے ہوئے قومی دھارے کو مثبت راہ پر گامزن
کریں۔اِس میں ہماری بھلائی بھی ہے اور نسلِ نو کی تربیت کا ساماں بھی۔
٭٭٭ |