بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں روہنگیا مہاجرین کی حالت
زار ناگفتہ بہ ہے جب کہ میانمار حکومت مسلم نسل کشی کے مہم کو جاری رکھے
ہوئے ہے،جس کا برملا اظہار اقوام متحدہ نے کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں روہنگیا
مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ،گزشتہ ماہ 4لاکھ36ہزار
روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش کا رخ کیا،میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرانیتونیو گوٹیریسکے ترجمان سٹیفن ڈوجرک نے کہا ہے کہ
میانمار کے صوبے راکھائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے
جہاں سے مرد و خواتین سمیت بچوں کی بہت بڑی تعداد بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر
مجبور ہیں ، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا کے نہ صرف دیہات
جلائے جا رہے ہیں بلکہ انہیں جنسی زیادتیوں کا بھی سامنا ہے،میانمار حکومت
کی جانب سے جاری اس آپریشن کے دوران اب تک سینکڑوں روہنگیا ہلاک ہو چکے
ہیںدوسری جانب مظلوم روہنگیا مسلمانوں کوپناہ دینے والے ہمسایہ مسلم ملک
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالحسن محمود علی نے کہا ہے کہ ایک اندازے کے
مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 8لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
دنیا کی سب سے مظلوم ترین اقلیت روہنگیا مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی ،بستیاں
نذر آتش کی گئیں،نوجوانوں اور بچوں کو ذبح کیا گیا ،عورتوں کی عصمتیں لٹیں
،اورریاستی اداروں کی طرف سے جاری نسل کشی کی مہم سے بچنے والے حسرت اور
یاس کا سراپا بنے 4 لاکھ 36 ہزار روہنگیا مسلمان اپنے ہی وطن سے بے وطن اور
چھت اور چاردیواری سے محروم۔۔۔در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کرہ ارض پر حقوق انسانی کا جب ایک بڑا دربار سجا ۔۔۔۔۔۔انسانی
حقو ق کے علمبردار ۔۔۔انسانیت کا مصنوعی غم چہروں پر سجائے بہت سے بڑے
ناموں نے اس میں اظہار خیال بھی کیا ۔۔۔۔۔مگراقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری
انیتونیو گوٹیریسکی طرف سے صرف لفظی مذمت اوربرمی حکومت سے مطالبہ کیا گیا
کہ وہ اپنی فوجی کارروائیاں معطل کر دیں، تشدد بند کریں اور قانون کی
حکمرانی بحال کریں اور ان تمام لوگوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کریں جنہیں
ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔حیران کن امر یہ ہے کہ میانمار کی حکمران آنگ
سان سوچی نے نہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کی اور نہ ہی روہنگیا
مسلم نسل کشی کے سلسلہ کو ،جس کی وجہ سے بالخصوص اسلامی دنیا اور باعموم ہر
انصاف پسند ملک کی طرف سے شدید غم و غصہ اور تشویش کا اظہار کیا جارہا
ہے۔جب کہ اس سے قبل یورپی پارلیمنٹ نے برما میں فوج اور پولیس کے ہاتھوں
نہتے مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام، جلاؤ گھیرا اور خواتین کی آبرو ریزی کی
شدید مذمت کی اورعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ برما میں مسلمانوں سے
ہونے والے نار وا سلوک کو بند کرانے کے لیے میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالے۔
بلاشبہ روہنگیا مظلوموں کے حق میں عالمی فورمز پر اتنی مؤثر آوازوں کااٹھنا
خوش آئند ہے لیکن یہ انسانی المیہ عملی اور مؤثراقدامات کا بھی متقٰضی ہے
،جس میں مہاجر کیمپوں میں پہنچنے والے بے یارو مددگا ر انسانوں کی ضروریات
خورو نوش ،رہائش ،ادویات اور تحفظ کے حوالے سے اقدامات سرفہرست ہیں یاد رہے
کہ اس حوالے سے ترکی نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ایک لاکھ مہاجرین کے
لیے گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے جو 24 ہزار خاندانوں کے لیے کافی ہوں
گے جب کہ سعودی عرب ،پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والی انسانی
حقوق کی تنظیمیں بھی مہاجرین کی بحالی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں ، اسی
طرحعالمی برادری کی طرف سے میانمار حکومت پر عالمی پابندیاں عائد کرکے مسلم
نسل کشی میں ملوث عناصر پر عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جائے اور
روہنگیا مسلم کی باعزت اپنے علاقوں کی طرف واپسی اور آبادی کاری کے لیے
عالمی کمیشن تشکیل دیا جائے،تاکہ روہنگیا مسلمانوں کی احساس محرومی کا
خاتمہ اور ان کے نقصانات کا ازالہ ہو سکے ۔ |