بیداری ضروری ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔

گزشتہ ایک صدی سے پوری امت مسلمہ انتہائی کڑے امتحانات، کٹھن مراحل اور پرآشوب دور سے گزر رہی ہے،اور گردشِ ایام کے بھنور میں بری طرح پھنستی جارہی ہے ،خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سے تنزلی کی پستیوں میں گرتے جارہے ہیں ،مسلم سوسائٹی کے افراد ہوں یا مقدس مقامات،مذہبی شخصیات ہوں یا اسلامی شعائر ہر جگہ قتل عام ، ظلم وستم، استہزاء اور بے حرمتی کے شکار ہیں،جب کہ عرب و عجم مادی واقتصادی ، فکری اور عسکری پستی و انحطاط کا شکار ہیں اور اس کے اہل علم، مذہبی طبقہ اور عوام، بلاتفریق پٹ رہے ہیں،جب کہ حلب ہو یا نینوی،فلوجہ ہو یا صنعاء،دمشق ہو یا سری نگر،احمدآبادہو یا کابل،برماہو یا طرابلس اور بیروت ہو یابوسنیا ہر طرف افتراق و انتشار کی فضاء ،آگ و آہن کی وحشت ووہشت ،غیرانسانی رویوں اور حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے آنکھیں بہنے اور دل بیٹھنے لگتا ہے،اگر کبھی روسی استعمار کے ہاتھوں افغان قوم ظلم کی چکی ہیں پسی تھی تو اب امریکہ کی عالمی دہشت گردی دنیا کے سب سے بڑا بم "مادر آف دی بمز " کی صورت میں جاری ہے ،اگر ارض مقدس فلسطین پر یہودی عظیم تر اسرائیل اور مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرکے "ہیکل سیلمانی "بنانے کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں تو کہیں ایران اور بشار الاسد کی درندگی کی وجہ سے لاکھوں مسلمان شہید اور بے گھر ہوئے ،بستیاں ویران اور شہر کھنڈرات کی صورت اختیار کرگئے ،جب کہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور برما کے بدھ بھکشووں کی انسانیت دشمنی محتاج بیان نہیں ہے ۔مستزاد یہ کہ مغرب اور مغرب کا پروردہ میڈیا جامع منصوبہ بندی کے تحت اسلام ،مسلمان ،شعائر اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف لابنگ میں مصروف ہے اور دنیا کے سامنے اسلام کا خود تراشیدہ چہرہ متعارف کروا رہا ہے۔

بقول ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفر کہ آج امت مسلمہ کو نابغۂ روزگار شخصیات اور صاحب فراست قیادت کی اشد ضرورت ہے،جو امت مسلمہ کو اس تباہ کن خونیں حصار سے نکالے، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے میدان میں امت مسلمہ کی رہنمائی کرسکے، وہ میدان سیاسی ہو یا معاشی، مادی ہو یا روحانی، دعوت وتبلیغ کا ہو یا جہاد کا، فکری ہو یا صحافت کا اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کافی الفور کوئی حل نکالے اور ایسے دیرپا منصوبے تیار کئے جائیں جن سے اسلامی شخصیات اور باصلاحیت وطویل المیعاد ادارے اور تحریکیں معرض وجود میں آئیں اور ایسے پروگرام ترتیب دئیے جائیں کہ جن کے مقاصد اور اہداف زمانے کے بدلنے یا ان کے منتظمین اورمؤسسین کے بدلنے سے متأثر نہ ہوں اور ان کی بنیاد ایسے اصولوں پر رکھی جائے جن پر عمل کرکے وقت کی دیگر عالمی طاقتیں، تحریکیں اور حکومتیں کامیاب ہوئیں،یہی ہماری بقا اور عظمت رفتہ کے حصول کا مؤثر ذریعہ ہے۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 249968 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More