گزشتہ کچھ رو ز قبل ایک دل دہلا دینے والی خبر سنی،ایک
عورت کی اس قدر تذلیل دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔عورت کے حقوق کے
بلند و بانگ دعوؤں کے بعد بھی اس دن اس عورت کو سر عام درد سے تڑپتے ہوئے
ہر ایک نے دیکھا ہو گا لیکن کسی نے بھی بروقت آگے بڑھ کر ان کی مدد نہیں کی
،نا ان کو مفید مشورہ دیا ،ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ جب بھی کوئی
واقعہ سڑک پہ رونما ہوتا ہے تو وہاں لوگ جوق در جوق اکٹھے توہو جاتے ہیں
مگر ان میں سے مسیحا کوئی ایک بھی نہیں ہوتا،سب تماشا دیکھتے اور اپنی راہ
ناپتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں۔اس کی ایک چھوٹی سے مثال لے لیں کہ
روڈایکسیڈنٹ ہویا کسی خاتون کا دوپٹہ یا برقعہ موٹر سائیکل کے پہیہ میں
آجائے تو پاس سے گزرنے والا ہر شخص وہاں ایک بار رکے گا ضرور۔وہاں اس قدر
رش لگ جائے گا کہ خدا کی پناہ،سوائے ایک دو کی مدد کے باقی سب باتیں اور
تبصرے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔یہی حال ا س خاتون کا ہوا سب اکٹھے تو ہوئے ہو
نگے مگر کسی نے اس خاتون کو کسی دوسرے ہسپتال میں لیجانے میں مدد نہیں کی ۔اور
جب تک ریسکیو کا انتظام ہوا تب تک پانی سر کے اوپر سے گزر چکا تھا،سچ ہے کہ
اگر ایک مریض ہو اوپر سے جیب میں ایک روپیہ بھی نا ہو تو اس غریب کی سنتا
کون ہے؟،سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لیے اس عورت کا قصور بھی یہی تھا کہ وہ
غربت کی ماری بھٹہ مزدور کی بیوی ہے ۔کیا پاکستان میں غریب طبقے کے ساتھ
یہی سلوک ہونا باقی تھا،ہوا کچھ یوں کہ ہسپتال کی بجائے اس خاتون نے لاہور
کی مشہور ومعروف سڑک رائیونڈ پر بچی کو جنم دے دیا ،بھٹہ مزدور اپنی اہلیہ
کو ایمرجنسی کی حالت میں اسپتال لایا لیکن وہاں ڈاکٹرز موجود نہیں تھے۔یہ
وہی نا نہاد ہسپتال ہے جو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی زیرنگرانی 70 کروڑ
میں تعمیرکیا گیا تھااور اس کا نام تحصیل ہیڈ کوارٹراسپتال رائیونڈ لاہور
ہے۔ 60 بیڈز پرمشتمل ہسپتال میں ایک بھی بیڈ اس خاتون کے نصیب میں نہ تھا ،ہو
تا بھی کیسے جب وہاں ڈاکٹرز ہی موجود نہیں تھے تو سہولیات کا کیا
فائدہ۔خیرجب معاملہ میڈیا تک پہنچا اور اس سارے معاملے کی حکومتی سطح پر
انکوائری کی گئی ،بعد ازاں مسیحا کے روپ میں وہ شیاطین اپنے انجام کو تو
پہنچ گئے ،وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہسپتال کے ایم ایس اور گائناکالوجسٹ کو معطل
کر دیا ہے ،واضح رہے کہ اس سے قبل بھی لاپرواہی کے باعث وزیراعلٰی پنجاب اس
اسپتال کے تین ایم ایس معطل کرچکے ہیں لیکن صورتحال جوں کی توں ہی رہی۔اس
کے بعد بھی معاملات بہتر ہونے کی بجائے جمعہ کو ایک اور اسی قسم کی خبر
سامنے آ گئی ،جس میں لاہور کے ہی گنگا رام ہسپتال میں خاتون کو داخل نہ کیا
گیا تو ایم ایس آفس کے باہر ہی خاتون نے بچے کو جنم دے دیا،ایک بار پھر وہی
ہو ا،میڈیا نے اس خبر کو لوگوں تک پہنچایا ،وزیراعلیٰ شہباز شریف نے متعلقہ
مجرمان کو سزا دینے کا حکم صادر کیا۔واقعے کے بعد وزیر صحت پنجاب خواجہ
سلمان رفیق گنگا رام ہسپتال پہنچے اور ڈائریکٹر ایمرجنسی ڈاکٹر عبدالغفار
کو معطل کرتے ہوئے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔مگر ان
دونوں خبروں نے مجھے اس بات کا یقین دلا دیا کہ یہ انجام کو بھی پہنچ جائیں
گے ،حالات پہلے جیسے بھی ہو جائیں گے مگر ان کے کردار میں انسانیت اور عورت
ذات کے لیے احترام پیدا نہیں ہو گا ،کیونکہ انسانیت اس حد تک ختم ہو چکی ہے
کہ کسی کے ساتھ کیسا بھی سلوک ہور ہا ہو، اس پر افسوس کی بجائے اور کچھ
عملی اقدام نہیں کیا جاتا ۔ایک زمانہ تھا جب ڈاکٹر ز اپنے کام میں اس قدر
مخلص اور ایماندار تھے کہ معاشرہ ان کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا
،اسی سبب ان کو مسیحا کا نام دیا گیا،ہروالدین کی اولین خواہش ہوتی تھی کہ
ان کی اولاد ڈاکٹر بنے ،مگر افسوس آج مسیحا ئیت نے شیطانیت کی چادر اوڑھ لی
ہے، زیادہ کمانے کی ہوس نے ان کی آنکھوں پہ ایسی کالی پٹی باندھی ہے جس کی
وجہ سے ان کو انسا نیت کی تکلیف نظر ہی نہیں آتی۔وہ تو بس زیادہ سے زیادہ
پیسے کمانا چاہتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔یہ کوئی پہلا
موقع نہیں تھا جب کسی مریضہ کو ڈاکٹرزاور عملے کی غیر موجودگی اور غفلت کی
بنا پر تکلیف اٹھانی پڑی۔اس سے قبل بھی ڈاکٹرز کی لاپرواہی اور احتجاجی
سلسلوں نے کئی مریضوں کی جان لے لی ہے۔ کہیں ڈاکٹرز اپنی لاپرواہی کی بنا
پر مریض کے پیٹ میں کوئی آلات بھول جاتے ہیں تو کہیں مریضو ں کو فارم اور
فیس بھرنے تک بیڈ اور علاج کی سہولت سے محروم رکھا جاتا ہے ،ایسے ہی کئی
واقعات ہی سزا،کیا غریب ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کے درد کو درد نہیں
سمجھا جاتا ،ایسے مسیحاؤں کے نزدیک چاہے مریض جئے یا مرے ان کو کوئی فرق
نہیں پڑتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹرز کو اپنی روش بدلنا ہو گی،عورت کی اس قدر
تذلیل اور بے توقیری زمانہ جہالیت میں کی جاتی تھی ،وہ زمانہ تو نبی آخر
الزمان حضرت محمد ﷺ کی آمد کے بعد ان کی تعلیمات پر عمل کرنے سے تبدیل ہو
گیا تھا مگر ہم اس بات کو کیوں بھول رہے ہیں کہ آپ ﷺ کی تعلیمات پر آج بھی
عمل کر کے ہم اپنے معاشرے سے بے حسی اورہوس و لالچ کو ختم کر سکتے ہیں اور
عورت کو عزت دے سکتے ہیں۔ |