ایک جہاد یہ بھی ہے جوا،سودبنامِ بیمہ

قرآن پا ک میں بار بار نظر ڈالی اس کی برکات کوحاصل کیا،قرآن میں سب سے زیادہ سخت لفظ کس گناہ پر استعمال کیاگیاہے ؟میں نے بارھادیکھاتونظر جاکر ایک جگہ جم گئی ۔سود کی نحوست اورگناہ پر کہ اﷲ پاک نے فرمایا:سودیو!بازآجاؤاگر سود سے باز نہیں آتے تواﷲ اوراس کارسول تم سے اعلان ِ جنگ کرتاہے ۔اوراس جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ ،کیاکائنات میں کوئی ایساہے کہ جواﷲ اوراس کے رسول سے اعلانِ جنگ کرے ۔مختصر زندگی میں لاتعداد سودخوروں کودیکھااورپھر ان کاانجام بھی دیکھااوران کی حالت پہ ترس آیا،عروج جب زوال میں تبدیل ہواتواﷲ کی زمین تنگ ہوگئی آج ہر شخص پریشان ہے اس میں بھی سود کی نحوست پائی جاتی ہے ۔ سودکے دھویں کااثر توہرشخص پہ ہورہاہے الامارحم اﷲ ۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہم سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے لعنت بھیجی ،سود کھانے والے پر،سود کھلانے والے پر،اس کے دونوں گواہوں پر،سود کے لکھنے والے پر(بخاری ومسلم)

عبر ت کامقام ہے جب احادیث کے مبارک ذخیرہ پہ نگاہ ڈالی توحدیث قدسی نظر سے گزری کہ نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے جوشخص کسی اﷲ والے سے دشمنی کرے میں اس سے بھی اعلانِ جنگ کرتاہوں یہ مناظر بھی دنیامیں گزر گئے کہ جن لوگوں نے اﷲ والوں کی توہین کی ان سے دشمنی کی ان کامقابلہ کیاایسے لوگوں کاانجام بھی عبرتناک ہواپھر انبیاء علیہم السلام ،اہلبیت عظام اورصحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی توہین کرنے والوں کاکیاہوگاتاریخ بھری پڑی ہے کہ گستاخوں سے اﷲ پاک نے سخت انتقام لیااوران کاعبرتناک انجام ہواہے( ملاحظہ ہوقہرخداوندی برگستاخان اصحابِ نبی ازقاضی محمداسرائیل گڑنگی)
سود کے دس مفاسد
1۔یہ ظلم ہے اورظلم والامعاشرہ اچھانہیں ہوسکتا
2۔یہ وہ مال ہے جوباطل طریقہ سے حاصل کیاجارہاہے
3۔سودخورایک حاجت مندکی ضرورت سے ناجائزفائدہ حاصل کرتاہے
4۔سود سے قساوت قلبی پیداہوتی ہے
5۔معاشرے کے اندرغربت کااصل سبب سودہے
6۔سود کی وجہ سے اجتماعی اورانفرادی مفاسدپیداہوتے ہیں
7۔سودکی وجہ سے ایک طبقہ اشیاء پرقابض ہوجاتاہے
8۔عالمی طور پہ سود عالمی معیشت میں لوگوں کے ذھن کے مطابق ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل کرچکاہے
9۔سودکی وجہ سے اﷲ اوراس کے رسول ﷺ ناراض ہیں جب اﷲ اوررسول ﷺ ناراض ہوں پھر خیرکہاں ہوگی؟
10۔یقیناوطن عزیزکی جڑوں کوبھی اسی بیماری نے کمزور کررکھاہے

انگریزجونظام چھوڑ کرگیاتھااسی نظام کوسجایاہواہے ،کچھ نام نہادماہرین اس سلسلہ میں حکومت وقت کومشورے دیتے ہیں کہ سودی نظام کے بناملکی نظام تباہ ہوجائے گااس موقع پر میں عالم اسلام کے محقق عالمِ دین فقیہ العصر مخدوم العلماء والفقھاء ولمشائخ فخرِگوجراں حضرت مولانامفتی عبدالستار چیچی رحمۃ اﷲ علیہ رئیس الافتاء جامعہ خیرالمدارس ملتان کی مایہ ناز کتاب عصرحاضرکے لیے مشعل ہدایت کتاب نہایت ہی ضروری ہے کہ جدید مسائل اورسودی نظام کے متبادل نطام کوانہوں نے اس کتاب میں پیش کیاہے ،حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب کے صفحہ3پرکتناپیاراجملہ لکھاہے کہ الاسلام نوراسلام میں روشی ہے اسلام کے نظام میں بھی روشنی ہے اورسودمیں اندھیراہے ۔ایک صاحب جب اقتدار میں آتے ہیں تومسائل بہت پیداہوتے ہیں اس کی ایک وجہ سودی نظام کی حمایت بھی ہے ۔سودکھاکر کب سکون حاصل ہوگا،سودکھاکر کہاں عبادت کامزہ آئے گا۔شراب کی بوتل پہ زمزم لکھنے کی وجہ سے شراب زمزم نہیں بن سکتی اسی طرح سود کانام منافع رکھ کرجواز پیش کرناگٹر میں خوشبوتلاش کرناہے ۔

اس موقع پر حجاج بن یوسف کاواقعہ نقل کیاجاتاہے جوآج کے حکمرانوں اورعوام الناس یہاں تک کہ علماء اوردیندار لوگوں کے لیے بھی دعوت فکر ہے ،حجاج جب گورنر بن کر آیاتومعلوم کیاکہ اس دیس میں کوئی انوکھاواقعہ یاشخص ہے ؟لوگوں نے بتایاکہ یہاں دوبزرگ ہیں جب کوئی حاکم براسلوک کرتاہے تولوگ ان کے پاس جاتے ہیں وہ دعاکرتے ہیں تواس کاانجام براہوتاہے ،اس نے کہااچھا۔ان دونوں کی دعوت کی ۔پہلے تووہ انکار کرتے رہے آخرکاردعوت پہ راضی ہوگئے وہ آئے کھاناکھایااب اس نے کہاکہ میں ان کے شر سے محفوظ ہوگیااب ان کی دعاقبول نہیں ہوگی ۔لوگوں نے اس سے پوچھاکہ کیوں؟اس نے کہاکہ میں نے سود کی رقم سے ان کی دعوت کی ہے جس کے پیٹ میں سود چلاگیااس کی دعاکب قبول ہوگی ۔حجاج جیسے انسان کوبھی یقین ہے کہ سود کھانے کی وجہ سے دعاقبول نہیں ہوتی ۔آج ہماری دعائیں اس وجہ سے قبول نہیں ہوتی کہ معاشرے کے اندرسود ی معیشت چل رہی ہے کہاں سود عملِ شیطان اورکہاں صدقہ فضلِ رحمان۔
دردِدل رکھنے والے اکابر علماء اوردیندار طبقہ سے التماس ہے کہ سود کی حرمت پر کسی کاکوئی اختلاف نہیں اس گناہِ عظیم کے خلاف ایک اورنیک ہوکر جدوجہد کریں اوراپنی اپنی آخرت بنانے کے لیے حصہ لیں سودی نظام نے معاشرہ کوتباہ وبرباد کردیاہے برکت ختم ہوچکی ،اس ظالمانہ سودی نظام کی بے رحم چکی تلے لوگ پِس گئے اورہم کب تک اس ظالمانہ نظام کاحصہ رہیں گے اکابرعلماء اسلام میدان سجائیں اورمتفقہ فیصلہ کریں۔

یہاں سودی نظام میں ایک نئی بات پربھی بحث کی جاتی ہے جسے بیمہ یاانشورنس کانام دے کر دھوکہ دیاجارہاہے ،علماء کرام نے اس معاملہ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرناہوگی اوراس لعنت سے معاشرہ کوپاک کرناہوگاورنہ قیامت کے دن اس بارے میں سخت پوچھ ہوگی ۔

ایک جہاد یہ بھی ہے جوا،سودبنامِ بیمہ
قارئین کرام:امید ہے کہ آپ درج ذیل منکر اورگناہ عظیم کے خلاف جہاد میں حصہ لیں گے اورجیسے اس منکرکے پرچار کرنے والے ایجنٹ اس متعدی گناہ کبیرہ یعنی بیمہ یاانشورنس کے پھیلانے میں دن رات مصروف رہتے ہیں ،اسی طرح آپ ہر جمعہ کے خطابات اورمختلف نجی اجتماعات میں اس کے خلاف جہاد میں حصہ لیں اور لوگوں کواس کی برائیوں سے آگاہ کریں ۔۔بیمہ انگریزی لفظ انشور(insures)کاترجمہ ہے ،جس کے معنیٰ لغت میں یقین دہانی کے ہیں چونکہ کمپنی بیمہ کرانے والے کومستقبل کے بعض خطرات سے حفاظت اوربعض نقصانات کی تلافی کی یقین دہانی کرواتی ہے اس لیے اس کوانشورنس کمپنی کہتے ہیں انشورنس کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تین اصولی اعتراضات ہیں جن کی بناپر اسے حلال اورجائز نہیں ٹھرایاجاسکتا(مزید تفصیل کے لیے ’’بیمۂ زندگی ‘‘ازحضرت مولانامفتی محمدشفیع رحمۃ اﷲ علیہ)

اول یہ کہ انشورنس کمپنیاں جوروپیہ پریمیم یاقسطو ں کی شکل میں وصول کرتی ہے اس کے ایک بہت بڑے حصے کووہ سودی کاموں میں لگاکر فائدہ حاصل کرتی ہے اوراس ناجائز کاروبار میں وہ لوگ برابر کے شریک ہیں جو اپنے آپ کویااپنی کسی چیز کوان کے ہاں انشوریابیمہ کراتے ہیں ،چنانچہ محض نام بدل کر یاسود کوبونس یامنافع کانام دے کر معاملہ کی اصلی حقیقت کونہیں بدلاجاسکتابلکہ وہ ربٰو یعنی سود ہی ہے جوکہ اسلام کی روسے قطعی حرام اوراکبرالکبائر ہے ۔بیمہ کی تینوں صورتوں (زندگی کابیمہ ،املاک کابیمہ،اورذمہ داریوں کابیمہ)میں جومنافع یابونس دیاجاتاہے وہ بیع اور تجارت کے اصول پر نہیں بلکہ سود (ربٰو)کے طور پر دیاجاتاہے جوکہ قطعی حرام ہے

دوم یہ کی موت یاحوادث یانقصان کاعلم کسی کونہیں کہ واقع ہوں یانہیں ۔اورہوں گے توکب اورکس پیمانے پر اوراس مبہم اورنامعلوم چیز پر کسی نفع کومعلق کرناہی قمار (جوا)ہے جس کوقرآن حکیم نے میسر سے حرام قرار دیاہے ۔بیمہ کامدار بھی اس نامعلوم اورمبہم نفع میں امید پر ہے جوکہ بلاشبہ قمار میں داخل ہے۔
؂ظاہرمیں تجارت ہے،حقیقت میں جواہے
سود ایک کالاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

سوم یہ کہ ایک آدمی کے مرجانے کی صورت میں جورقم اداکی جاتی ہے اسلامی شریعت کی رو سے اس کی حیثیت مرنے والے کے ترکہ کی ہے جسے شرعی وارثوں میں تقسیم ہوناچاہیے مگر یہ رقم ترکہ کی حیثت میں تقسیم نہیں کی جاتی ،اس شخص یاان اشخاص کومل جاتی ہے جن کے لیے پالیسی ہولڈر نے وصیت کی ہوحالانکہ وارثوں کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی (لاوصیۃ للوارث کے مطابق )چنانچہ یہ تین خلاف شرعہ اموراورگناہ کبیرہ ہیں جوکہ تینوں قسموں کے بیموں میں موجود ہیں اس لیے بلحاظ حکم شرعی تینوں بیمے ناجائز ہیں ،مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ ہو’’بیمۂ زندگی ‘‘ازحضرت مولانامفتی محمدشفیع رحمۃ اﷲ علیہ مفتی اعظم پاکستان ،اورمعاشیاتِ اسلام صفحہ 408،مینارہ نورحصہ دوم صفحہ85,86ازقاضی محمداسرائیل گڑنگی)

سودی نظام کے پجاری اوردولت کے حریصوں کے لیے معاشی پریشانی کاعلاج
میرٹھہ کے رئیس الٰہی بخش صاحب حکیمانہ دماغ رکھتے تھے انہوں نے ایک بڑے کام کی بات بیان فرمائی کہ لوگ معاشی پریشانیوں کودور کرنے کے لیے اس کی توبہت فکر کرتے ہیں کہ آمدنی بڑھائیں جوعادتاًان کے اختیار میں نہیں مگر اس کی فکر نہیں کرتے کہ خرچ گھٹائیں خصوصاًغیر ضروری اخراجات کوبہت کم کریں حالانکہ یہ ہرایک انسان کے اختیارمیں ہے (دین ودانش ص 82ازقاضی محمداسرائیل گڑنگی)

آج اولاد نافرمان ہے توسودی نظام کی وجہ سے کیونکہ جس بچے کے پیٹ میں سود کاایک لقمہ بھی چلاگیاوہ کبھی جنید بغدادی نہیں بن سکتاہم اولاد کوخود اپنے ہاتھوں سے ہی خراب کرتے ہیں ان کے لیے حلال کاروبار نہیں بلکہ حرام کوترجیح دیتے ہیں سود سے مال بڑھتانہیں وبال بڑھتاہے معاشر ے میں اکثر بگاڑ کاسبب سود ہی ہے اﷲ پاک ہمیں حلال کی وافر روزی عطا فرمائے اورسود اورسودی نظام سے محفوظ فرمائے (آمین یارب العالمین )
 

Qazi Israil
About the Author: Qazi Israil Read More Articles by Qazi Israil: 38 Articles with 38212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.