مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے۔
شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر
اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں اومان، جنوب میں
یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے
مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام
کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔1932ء میں
مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور
شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی
کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں شریعت اسلامی اور بنیادی تعلیم سکھائی
جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا
حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت
تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی فنی و
سائنسی شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی
نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے
مدارس میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز
1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عبدالعزیز السعود نے مملکت میں
اسکولوں کے قیام کے لئے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں
مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں
وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ فہد بن عبدالعزیز
بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم
ہوئی۔آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جامعات، 24 ہزار سے زائد
اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔
اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی
جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 25 فیصد سے زائد تعلیم کے لئے مختص
ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی
بھیجا جاتا ہے جن میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، ملائشیا
اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ابسعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز
نے’خادم الحرمین الشریفین کمپلیکس برائے حدیث نبوی‘ کے نام سے ایک نیا
ادارہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے، جس میں احادیث نبوی پر جامع انداز میں کام
کیا جائے گا۔حدیث نبوی الشریف کمپلیکس‘ کا قیام مدینہ منورہ میں عمل میں
لایا جائے گا۔حدیث نبوی کمپلیکس چیدہ چیدہ علماء حدیث پر مشتمل ہو گا۔
ادارے کو چلانے کے لیے علماء کونسل قائم کی جائے گی اور ممتاز شیوخ الحدیث
اس کے رکن ہوں گے۔ اس کے چیئرمین اور ارکان کا تقرر براہ راست مملکت کے
فرمانروا کی طرف سے کیا جائے گا۔ابتدائی طور پرسعودی علماء کونسل کے رکن
الشیخ محمد بن حسن آل الشیخ کو علمی کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔اس
سلسلے میں شاہ سلمان کی جانب سے جاری کردہ شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ
احادیث اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا اہل اسلام کے نزدیک غیر معمولی
مقام و مرتبہ ہے۔ قرآن کریم کے بعد احادیث نبوی اسلا کا دوسرا ماخذ
ہے۔سعودی عرب ملک میں اسلامی شرعی اصولوں پر عمل درآمد کے لیے احادیث نبوی
کی تصنیف، تحقیق اور ان کے مطالعے کا ایک جامع پروگرام شروع کررہی ہے تاکہ
عوام الناس اور علمی حلقوں کو احادیث اور فرمودات نبوی سے مستفید ہونے کا
نیا موقع فراہم کیا جاسکے۔کمپلیکس کے لیے ’خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان
بن عبدالعزیز آل سعود کمپلیکس برائے حدیث نبوی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ
ادارہ مدینہ منورہ میں قائم کیا جائے گا۔ متعلقہ حکام کو حدیث نبوی کمپلیکس
کے قیام کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔’’شاہ سلمان حدیث اکیڈمی‘‘ کے قیام
سے متعلق خادم حرمین شریفین کے فرمان نے پوری مسلم دنیا میں خوشی کی لہر
دوڑا دی۔اسلامی شریعت میں قانون سازی کے دوسرے بڑے سرچشمہ حدیث سے شغف
رکھنے والے علماء اور اسکالرز نے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا۔سعودی
سربراہوردہ علماء بورڈ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر فہد الماجد نے اس پر تبصرہ
کرتے ہوئے کہا کہ حدیث نبوی کے ماہرین اور اس سے تعلق رکھنے والے علماء کا
خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا۔اکیڈمی کا صدر دفتر مدینہ منورہ میں قائم ہوگا۔
جہاں اسلامی شریعت میں قانون سازی کے پہلے سرچشمہ قرآن کریم کی اشاعت اور
تحقیق کیلئے کنگ فہد کمپلیکس برسہا برس سے قائم ہے۔مدینہ منورہ میں اکیڈمی
کے قیام سے اس کی اہمیت دوچند ہو گئی۔ یہ شہر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
ہجرت مبارکہ سے 1500برس پہلے سے آباد ہے۔ شروع میں اس کا نام یثرب تھا۔
ہجرت مبارکہ کے بعد اسے ’’ طیبہ الطیبہ‘‘ کا نام دیدیا گیا۔امام محمد بن
سعود اسلامی یونیورسٹی میں سنہ اور اس کے علوم کے پروفیسر ڈاکٹر احمد
الباتلی نے کہا کہ حدیث اکیڈمی کے قیام سے مسلمانوں کی دیرینہ آرزو پوری ہو
گئی۔ یہ اکیڈمی اعتدال ، میانہ روی ، شدت پسندی ، انتہا پسندی اور افراط و
تفریط سے معلق احادیث مبارکہ کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلائے گی۔ وزیر
ثقافت و اطلاعات ڈاکٹر عواد بن صالح العواد نے واضح کیا کہ حدیث اکیڈمی کی
بدولت اسلامی قانون سازی کا دوسرا سرچشمہ مزید محفوظ ہو جائیگا۔ اس سے
احادیث صحیحہ کی حفاظت ہو گی۔ یہ حدیث شریف اور اس کے علوم کا عالمی مرکز
ثابت ہو گی۔ اس سے امت مسلمہ کی سربلندی ہو گی۔اسلام کی صحیح تصویر اجاگر
ہو گی۔ یہ دنیا بھر کے منتخب علمائے حدیث کا مرکز ثابت ہو گی۔ وزارت اسلامی
امور و دعوۃ و رہنمائی مکہ مکرمہ کے ڈائریکٹر جنرل شیخ علی العبدلی نے کہا
کہ اکیڈمی کی خبر سے نہ صرف یہ کہ انہیں بلکہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کو
دلی مسرت حاصل ہوئی۔ شاہ سلمان کے اس فیصلے کے دوررس نتائج مرتب ہوں گے۔
شقرہ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر نہار العتیبی نے کہا کہ حدیث اکیڈمی کے قیام
کا فیصلہ کر کے شاہ سلمان نے پیغمبر اسلام محمد مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم اور ان کی سنت مبارکہ کی نصرت کی ہے۔خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن
عبدالعزیز نے کنگ سلمان کمپلیکس برائے اشاعت حدیث کا نیا سربراہ شیخ محمد
بن حسن آل الشیخ کو مقرر کیا ہے۔ انکا مکمل نام شیخ محمد بن حسن آل الشیخ
ہے۔ ان دنوں سعودی سربرآوردہ علماء بورڈ کے رکن ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں
پرائمری، مڈل اور ثانوی کی تعلیم حاصل کرکے ریاض میں امام محمد بن سعود
اسلامی یونیورسٹی سے فراغت حاصل کی اورپھر وہاں الشریعہ فیکلٹی میں تدریس
کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے المعھد العالی للقضاء سے ڈگری حاصل کی۔ ایم
فل کیا اور الشریعہ فیکلٹی میں 10برس تک تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ 1421ھ
سے دارالافتاء کے رکن ہیں۔ 1426ھ میں سعودی سربرآوردہ علماء بورڈ کے رکن
مقرر کئے گئے۔ اِن دنوں ریاض ریجن میں اوقاف کونسل کے سربراہ ہیں۔ علاوہ
ازیں 1412ھ سے ریاض میں شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ جامع مسجد کے خطیب
بھی ہیں۔مدینہ منورہ میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان حدیث کمپلیکس کے
سربراہ شیخ محمد بن حسن آل الشیخ نے واضح کیا ہے کہ حدیث کمپلیکس کے قیام
کی بدولت دنیا بھر میں سْنہ مبارکہ کی خدمت کا سلسلہ نقطہ عروج کو پہنچ
جائیگا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے منتخب علمائے حدیث کمپلیکس کے ماتحت حدیث
اکیڈمی کی خدمت کرینگے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت یہی ہے کہ مختلف
ممالک سے حدیث کے علماء کی خدمات حاصل کی جائیں۔ انہوں نے کمپلیکس کا
سربراہ بنانے پر خادم حرمین شریفین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ انکے
لئے بڑے اعزاز کی بات ہے اور وہ شاہی اعتبار پر ہر ممکن طریقے سے پورا
اترنے کی کوشش کرینگے۔
|