انسانی معاشرے کی بقا، اس کا استحکام ، اس میں توازن یا
برابری کا انحصار انصاف کی بلاامتیاز فراہمی سے مشروط ہوتا ہے ، یہی معاشرے
کی تعمیر و ترقی کیلئے جزو ِ لازم بھی قرار دیا جاتا ہے ۔اگر کسی فرد کو
برابری کی بنیاد پر اس کے حقوق میسر آجائیں تو وہ یقینی طور پر اپنے فرائض
کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے کا سوچنے اور نہ اس میں غفلت کا مرتکب ہونے کا
خیال کرسکتا ہے ۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اسی کو بنیاد بناکر حکمرانی کی
جارہی ہے کیونکہ جب لوگ خوشحال ہونگے تو خرابی کا تصور زائل ہونا شروع
ہوجائے گا،لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی ہوتی رہے گی تو تخریبی
عوامل کا وجود ناپید ہونا لازم سی بات ہوتی نظر آئے گی ۔اسلام سے قبل کا
دور زمانہ ء جاہلیت کہلایا جاتا ہے جہاں انصاف ہوتا نظر نہیں آتا تھا،
اشرافیہ کیلئے الگ اور عام لوگوں کیلئے الگ نظام عدل قائم تھا جس سے عام
آدمی کا استحصال ہوتا اور معاشرے میں انتشار اور تناؤ کی کیفیت ہر لحظہ
محسوس کی جاتی تھی ، جس کی وجہ سیانسان کی تذلیل ہورہی تھی اور معاشرہ
تباہی و بربادی کی جانب بڑھ رہا تھا۔ بنی اسرائیل کی بدترین مثال تاریخ کے
اوراق میں دیکھی جاسکتی ہے ۔اﷲ نے اس قوم میں سب سے زیادہ انبیاء کرام ؑ
بھیجے تاکہ یہ راہ راست پر آجائیں اور یکساں قانون اور انصاف کا نظام رائج
ہو لیکن ان کی بدبختی کہ اس قوم نے ٹھان لیا تھا کہ انہوں نے سدھرنا ہی
نہیں بلکہ اس روش پر قائم رہنا ہے جس میں صاحب ثروت کیلئے سہولت ہو اور عام
آدمی ان کے دباؤ میں غلامی کی زندگی گزارتے ہوئے ان کیلئے آسائشوں کا سامان
کرتے کرتے اس دنیا سے ہی گزرجائے ۔ اﷲ کو اپنے وہ بندے زیادہ عزیز ہوتے ہیں
جو زیادہ اذیت میں رہتے ہیں چنانچہ بنی اسرائیل کو نابود کردیا کہ اب دنیا
میں ان کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں تھی ، یہ قوم دنیا بھر کیلئے نشان عبرت
بن گئی کہ جب بھی کہیں ناانصافی کا تصور بھی ذہن میں لایا جائے گا تو وہ
سمجھ لے کہ انجام تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔نبی آخرالزماں ﷺ کو
بنیادی طور پر اس لئے مبعوث کیا گیا کہ انسانی زندگی تذلیل کی آخری حدیں
چھو رہی تھی، آپ ﷺ نے اﷲ کا قانون پھر سے اس کے بندوں میں قائم کرنے کی
جدوجہد کی تاکہ انسان کا احترام بحال ہوجائے ، وہ انسان جو اﷲ کواپنی مخلوق
میں سب سے زیادہ عزیز ہے ۔ یہ ایسا نظام عدل تھا جس سے انسان کی توقیر میں
اضافہ ہوا، اﷲ کی فرمانبرداری کا احساس بیدار ہوا اور صلہ رحمی کا جذبہ
پروان چڑھا۔
معاشرتی اعتبار سے آپ کسی جانور کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا معاملہ کریں تو وہ
بھی آپ کا وفادار ہونے کا ثبوت دینے کو تیا ر ہوجاتا ہے اور ایک انسان کسی
دوسرے انسان کے ساتھ بہتر برتاؤ کر ے گا تو یقینا آپس میں رواداری اور
بھائی چارے کو فروغ ملے گاجس سے معاشر یمیں عدم توازن کی فضا کا خاتمہ بھی
ممکن ہوگا اور انتشار جیسی کیفیت بھی دم توڑ دے گی۔انسان میں بھائی چارہ
سوائے شیطان کے ہر ایک کو اچھا لگتا ہے ۔ نیکی اور بدی کی ازل سے ایک دوسرے
کے متضاد ہیں ، نیکی بھلائی کو فروغ دیتی ہے جبکہ برائی کا اولین مقصد
انتشار ، افراتفری اور معاشرے میں رہنے والے افراد میں تلخیاں پیدا کرانا
ہے۔ شیطان کی ابتداء ہی سے انسان سے نہیں بنی ، وہ انسان کو انسان رہنے ہی
نہیں دیتا بلکہ حیوان بنانے کیلئے ہر طرح کا جتن کرنے کو پر تولتا رہتا ہے
کہ کسی بھی طرح سے وہ معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرلے۔ وہ اس کوشش میں کامیاب
ہوتا بھی دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ نیکی ہی نے بدی پر حکومت
قائم کرنی ہے لہٰذا وقتی طور پر اگر شیطان اپنے حربے میں کامیاب ہوجاتا ہے
تو یہ تصور کرلینا کہ اسی میں بقا ہے تو اس تاثر ہوسکتا ہے حقیقت اس کے
برعکس ہی ہے۔شیطان کی انہی شر انگیزیوں کو روکنے کیلئے اﷲ نے اپنی جناب سے
انسانوں کو متنبہ کرنے اور ان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ہر کٹھن وقت میں ان
کیلئے انبیاء کرام کو مبعوث کرکے نصرت فرمائی تاکہ وہ بدی کا مقابلہ نیکی
سے کرسکیں، انبیاء کرام ؑ کو فی زمانہ قوانین عطا کئے گئے ، انصاف کرنے کے
پیمانے فراہن کئے تاکہ معاشروں میں پائی جانے والی بے اعتدالی کو خاتمہ
ممکن ہوسکے۔نبی کریم ﷺ کائنات میں اﷲ کی جانب سے آخری رہبر و رہنماء بناکر
مبعوث کئے گئے لہٰذا آپ ﷺ کے پاس ہر زمانے کیلئے عدل و انصاف پر مبنی اصول
و ضابطے موجود تھے جو آپ ﷺ نے اصحاب اکرامؓ کے ذریعے سے تما م دنیا میں
پہنچائے ۔ آپ ﷺ نے دنیا کو بتا دیا کہ اﷲ کے نذدیک عزیز و رشتہ دار ، رنگ و
نسل ، قوم قبیلے ، صاحب ثروت ہو یا عام آدمی سب کیلئے یکساں قانون اور نظام
عدل ہے ، ہر ایک کیلئے ایک طرح کا پیمانہ ہے ، دین میں کسی کیلئے کوئی
امتیازی سلوک روارکھنا معاشرے کی نبیادی اکائی سے تصادم ہوگا۔ یہی وجہ ہے
کہ دنیا میں جس قوم نے ترقی کی ، بام عروج پر جو ملک پہنچا وہاں نظام عدل
کو اہمیت دی گئی ۔
ہر وہ ملک جو ترقی پاہتا ہے پاہے وہ مسل ہو یا غیر مسلم ہو اپنے اندر حق
حکمرانی کیلئے قانون کی حکمرانی کو اولیت دیتا ہے تاکہ معاشرے میں برابر ی
کا متوازن نظام قائم ہو اور لوگ خوشحال زندگی بسر کرتے ہوئے ترقی کی راہ
میں حائل رکاوٹیں عبور کرتے جائیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قانون کی
حکمرانی کیسے یقینی بنائی جاسکتی ہے ؟اس کیلئے ضروری ہے کہ انصاف کی بروقت
فراہمی ہو، سہل طریقہ ء کار وضع کئے جائیں تاکہ لوگوں کو فراہمی ء انصاف
کیلئے دھکے نہ کھانے پڑیں ۔ ہم جس ریاست میں زندگی گزار رہے ہیں صاس کی
بنیاد میں اسلامی تعلیمات کا بیج بویا گیا ہے یعنی ہم ابنیاد سے انحرا ف کا
سوچ بھی نہیں سکتے اگر خیال آبھی جائے تو سجھ لیا جائے کہ ہم نے اپنا مقصد
ِ حیات کھو دیا ۔ ہم پاکستان میں انصا ف ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جو سہل
انداز میں فراہم ہو، ہماری خوش بختی ہے کہ ہم اس نبی ﷺ کی امت میں سے ہیں
جس نے ہمیں دائمی نظام ِ حیات عطا فرمایا ہے جو اسلامی تصور کا آئینہ دار
ہے۔ ہمارے یہاں جہاں انصاف کی فراہمی کیلئے لوگ موجود ہیں وہیں علم ِ قانون
پر دسترس دینے کیلئے معتبر افراد تربیت بھی کررہے ہیں ۔نظام ِ عدل کے قیام
کیلئے بنیادی شرائط میں بلا تعصب ، بغیر دبائع اور غیر جانبدارانہ منصفوں
کا ہونا لازم ہے ۔ عجلت میں کء جانے والے فیصلوں سے بگاڑ کا خدشہ اور تاخیر
سے ہونے والے فیصلوں سے معاشرے میں انتشار پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور
اس طرح کے فیصلوں سے انصاف اپنی موت آپ مرجاتا ہے ۔ جلد بازی میں آنے والے
فیصلوں سے ناانصافی ہوجانے کا احتمال جبکہ تاخیری فیصلوں سے ایک فیرق کو سب
کچھ جبکہ دوسرے کا سب کچھ تباہ ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے ۔ ہمارے یہاں جس
طرح کا نظام ِ عدل ان دنوں رائج ہے اس میں سب سے بڑی خرابی بھی یہی ہے کہ
کئی بار عجلت میں اور بعض اواقات تاخیری حربے استعمال ہوجاتے ہیں ۔ المیہ
یہ ہے کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلوں میں دن ، ماہ ، سال کی بجائے
دہائیاں لگ جاتی ہیں ، سائیلین کی نسلیں کورٹ کچہری کے چکر لگاتی رہتی ہیں
، جمع پونجی تک ختم ہوجاتی ہے لیکن فیصلہ نہیں ہوپاتا ، ایسا کیوں ہے
؟دراصل نظام عدل سے منسلک افراد میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان پایا
جاتا ہے ، عدالتوں کا عملہ سائیلین سے گاہک جیسا برتاؤ کرتا ہے جس سیان کی
مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگر اس رویہ کو ترک کردیا جائے اور لوگ
پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کریں تو یقینا ایک مناسب مدت میں فیصلہ آسکتا ہے ،
یہ فیصلہ انصاف کے اصولوں پر اترتا ہو ا محسوس کیا جائے گااور مقدمے کے
تمام فریق بھی مطمئن ہوجائیں گے، تب کہا جاسکتا ہے کہ انصاف ہوا ہے ۔ یعنی
اگر ایک فریق کے حق میں ایک خاص مدت میں فیصلہ آتا ہے تو اس نے تو خوشی کا
اظہار کرنا ہی ہے البتہ دوسرا فریق یہ نہیں کہہ سکے گا کہ فیصلہ قانون کے
بر عکس آیا ۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب بلا وجہ تاریخیں نہ دی جائیں ،
بیرونی دباؤ نہ محسوس کیا جائے چاہے وہ سیاسی نوعیت کا ہو یا کسی اور شکل
میں فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہو۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی اصل رکاوٹ پرو سیجر کی ہے
کیونکہ اس کا تعلق تو براہ راست قانون سازی سے ہے البتہ بشری خرابیوں کے
باعث معاملات میں کاوٹیں پیدا ہورہی ہیں ، ہمارے یہاں لالچ ، دولت کی ہوس،
مسلکی اور نسلی تعصب کی آلئیشوں نے ہمیں پژمردہ بنادیا ہے ، یہی بدی ہے اور
یہی شیطان کی انسان کے خلاف ابدی سازش ہے ، اس جنگ کو جیتنا ہمارے نظام ِ
عدل کو قائم رکھنے والے ادارے کے ہر فرد کا عزم ہونا چاہئے ۔ پاکستان کو
بچانے کیلئے جہاں ماشی خوشحالی کی کوششیں لازمی ، دہشت گردی کاخاتمہ ناگزیر
ہے وہیں بہتر نظام ِ انصاف کیلئے سستے اور فوری انصا ف کی فراہمی میں حائل
تمام رکاٹوں کو دور کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔
|