مشہور قول ہے کہ کسی نے حکیم لقمان سے پوچھا :’’ حضرت
آپ نے اتنی عقل مندی کس سے اور کیسے سیکھی۔؟ فرمایا : ’’ بے وقوفوں سے۔‘‘
پوچھنے والے نے حیرت سے دیکھا اور پوچھا وہ کیسے۔؟ حکیم لقمان نے فرمایا
:’’ کم عقل اور بے وقوف جو کام کرتے ہیں ، میں ان کاموں کو ترک کردیتا ہوں
۔‘‘
جب ہم اپنے ہر طرف مصنوعی معاشرت کے عاشقوں کو دیکھتے ہیں، ان کی دیوانگی
اور محبت کی انتہا کو ناپتے ہیں توان کی عقل مندی پر کفِ افسوس ملنے کو دل
کرتا ہے۔معاشرتی حرص و حوس ، جاہ و حشم کے پیچھے عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں
نے معیارِ زندگی میں جو خلفشار مچا رکھا ہے، اس کی وجہ سے معیشت اپنی اصلی
ساکھ کھو کر فرسودہ ہو چکی ہے۔ا س خوف سے دل کانپ اٹھتا ہے کہ مصنوعی
معاشرت کی تباہ کاریاں ان پروانوں کوایسی خطرناک آگ کی طرف لے جا رہی ہیں،
جو بہت بھیانک ہے۔ لیکن وہ پروانے ہی کیا جو شمع پر نہ مَر مٹیں۔
ہم کمرے میں بیٹھے چائے پینے میں مصروف تھے۔ہمارے سامنے بہت سارا قیمتی
سامان سلیقے سے سجا ہوا تھا۔ میزبان سے پوچھا بھائی ! یہ سب کیا ہے۔؟ وہ
ہنس مکھ تھے ۔ تبسم کے سے انداز میں ، ہم پر جو بم گرایا ، آ ج تک اس کے
آثار ہم اپنے رگ و پے میں محسوس کرتے ہیں۔ کہنے لگے چھوٹی بہن کی شادی قریب
ہے تو اس کے جہیز کے انتظامات کررہا ہوں۔کچھ سامان خرید لیا ہے، اور کچھ
ابھی باقی ہے۔ ہم نے پوچھا یہ ٹی وی کتنے کا ہے۔؟ جناب نے سینہ چوڑا کیا
اور فخر سے بولے۔’’ ساٹھ ہزار روپے کا۔‘‘ اور فرنیچر ۔؟ ڈیڑھ لاکھ کا۔ کپڑے
دو لاکھ کے ۔ اے سی اسی ہزار کا۔ واشنگ مشین بیس ہزار کی۔ قالین ، پردے ،
کچن کا سارا سامان اور نا معلوم مصنوعی معاشرت کے اسیر نے اور کتنی بڑی لسٹ
بنائی ہوئی تھی۔ہم نے تو چائے کو ہی غنیمت جانا اور یہ بھرپوردھماکے کے زخم
لئے ، یہ سوچتے ہوئے وہان سے آ گئے کہ ، دین صرف نام کا باقی رہ گیا ہے۔
ہمیں بار بار چاچا خادم چوکیدار یاد آرہے تھے ۔ جن کی بیٹی کی شادی پیسے نہ
ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی تھی۔ غریبی ،کالا ناگ بن کر انھیں ڈس رہا تھی۔ اور
ہم سوچ رہے تھے کہ کاش ! کوئی ایک فرنیچر کی ہی قربانی دیدے۔ کوئی ایک اے
سی ، فریج ، ٹی وی کا گلا گھونٹ دے، کسی غریب کی بیٹی بھی ہاتھ پیلے کر لے۔
یہ کیسا عروج کا نشہ ہے ،جس کا خمار جلدی اترتا نظر آتا ہے۔ یہ کیسے حوس کے
زخم لئے ہوئے ہیں، کہ ان ناسوروں کی مریض کو فکر ہی نہیں ۔سب ایک ایسے
دیوتا کے پوجاری بن گئے ہیں ، جہاں صرف اور صرف شیطان ، نفس ، رسم و رواج
کی محفلیں سجتی ہیں۔
ہمارا معاشرہ، ایک اسلامی معاشرے کی تمام نشانیاں کھو چکا ہے۔اور جس تیزی
سے ہم زوال پذیر ہورہے ہیں ، عنقریب معاشرے کی باقی ماندہ صحت بھی خراب ہو
جائے گی۔ اور یہ اندھیرا کالی سیاہ رات میں بدل جائے گا۔مصنوعی معاشرت کے
مصنوعی حسن نے جس قدر بگاڑپیدا کیا ہے، اور لوگوں نے پر عیش پرستی کے بھوت
کو خود پر سوار کیا ہے ، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ غریب مصنوعی تہذیب ، اور پر
فریب زندگی کے سیلاب میں بہ گیا ہے۔تعشات، لذت اندوزی کے نقاروں نے غریب کی
آہوں ، سسکیوں کو دبا دیا ہے۔ عیاشی کی انتہا اور تکلفات ِ زندگی تک عام
آدمی کی قیاس بھی نہیں جا سکتی۔
ہمارے خاندانوں میں ، محلوں میں،برادریوں میں اپنی ناک اونچی کرنے کے لئے
ہر شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات پر اس قدر خرچ کرے ، جس سے ایک گھر
کی ، یا ایک پوری بستی کی کفالت ہو سکتی ہے ۔اور یہ سب وہ اپنی شرافت اور
وسیع تر ممتازی کے لئے ناگزیر گردانتا ہے۔ہمارا معیارِ زندگی کھانے پینے،
پوشاک، خوراک، طرزِ زندگی آرائش و رہائش کسی طرح بھی والیانِ ریاست ، شاہ
زادے امراء ، طبقہ سے کم نہیں ہے۔اور ایک متوسط طبقے کا دیہاڑی دار غریب
آدمی جب پانچ سو کی حلال روزی نہیں کما سکتا ، اور دوسری طرف وہ کئی ہزار
روپوں کے کھانے کو کچرے کا ڈھیر بنتا دیکھتا ہے تو ، معاشرے میں اس کو اپنی
ستر پوشی اور پوشاک کے مصارف بھی مشکل لگتے ہیں۔ اور یہ مصنوعی معاشرت کی
بیڑیاں اور شرافت و وجاہت کا سیسہ ہمارے معاشرے میں گہرائی تک سرایت کر چکا
ہے۔اور یہ ہمارا اپنی سیادت کو منوانے کا انداز ، شاہانِ ایران و روم سے
میل کھاتا ہے۔
مصنوعی معاشرت کا جن ہر طرف دندناتا پھرتا ہے۔جس کی تباہ کاریوں کو کوئی
بھی تسلیم نہیں کرتا۔اس طبیعت ثانیہ سے پیچھا چھوڑانا ناممکن نظر آتا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام اخلاقی برائیوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ۔ لیکن
ان برائیوں کا خاتمہ نفس پر مشکل ہے ، مگر ناممکن نہیں ۔اگر غور کیا جائے
تو یہی مصنوعی معاشرت کی بھوک ، بے چینی ، افراتفری ، بے حسی ، اخلاقی
سماجی روایات و اقدار کے جراثیموں کو ہم اپنے دلیرانہ اور حوصلہ مند فیصلوں
سے ختم کر سکتے ہیں ۔ہمیں ایک ایسے معاشرے کی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا ،
جہاں کوئی بھی معاشرتی بیماری کی صور حال پیدا نہ ہو۔اور ہم سب اذیت ناک
صورت حال کی وجہ سے اذیت میں مبتلا نہ ہوں۔جہاں عدم مساوات نہ ہو۔ جہاں
مصنوعی معاشرت کے پروانے شمع نہ ڈھونڈتے ہوں۔جہاں خوفِ خدا ، اور رسول اﷲ ﷺ
کے احکام کی بجا آوری صدق دل سے ہوتی ہو۔مگر اس کے لئے قربانی دینا
ہوگی۔اور یہ قربانی ہم سب مل کردے سکتے ہیں۔ |