اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے اور پاکستان کے
شمالی حصہ میں واقع ہے۔ اسلام آباد کو امن کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ
راولپنڈی کے نزدیک پوٹھوہار کی سطح مرتفع پہ مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں
واقع ہے۔ اِس شہر کا خاکہ پاکستان کے پہلے دارلحکومت کراچی کو قائم مقام
کرکے تعمیر کیا گیا۔ اس فیصلے کے پیچھے، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کراچی
Nation Heartland سے خاصے فاصلے پر خیال کیا جاتا تھا اور اسلام آباد کا
علاقہ گورنمنٹ کے لیے براہِ راست رابطے کو آسان بناتا تھا۔اسلام آبادمیں
وفاقی دارلحکومت منتقل کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہاں کی قدرتی خوبصورت
اور مارگلہ کی پہاڑیوں اور سبزے کا ہونا بھی تھا۔ رفتہ رفتہ بڑھتی آبادی ،
تیزی سے ہونے والے تعمیراتی کام اور وفاقی ترقیاتی ادارے ’’سی ڈی اے‘‘ کے
’’کرپشن ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ کا کردار ادا کرنے سے شہر کا قدرتی حسن اور
رونقیں بھی ماند پڑ گئیں۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر درختوں کی بے دریغ کٹائی
اور ٹمبر مافیا نے شہرِ اقتدار کو’’ اجاڑنے‘‘ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
گزشتہ چند سالوں سے وفاقی دارلحکومت میں جتنی تیزی سے شہریوں کو سانس لینے
کی نعمت سے محروم کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ شہر بھر میں
درخت تو درکنار ایک پودا بھی سلامت نہیں بچے گا۔ حالیہ مثال اسلام آباد کے
دل آبپار ہ اور ایک پنج ستارہ ہوٹل کے درمیان واقع گرین بیلٹ سے ہزاروں
درختوں کی کٹائی ہے۔ سی ڈی اے کے ذمہ داران درختوں سے محبت کرنے والوں کو
یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مذکورہ سڑک ’’ایمبیسی روڈ‘‘ کی
کشادگی اسلام آباد کے تھرڈ ایونیو پلان کا حصہ ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ
ان درختوں کی جگہ ایک کے بدلے دس درخت لگائے جائیں گے ۔کہاں اور کیسے
لگائیں جائیں گے؟ اس کا کسی کو علم نہیں، بالفرض محال یہ پودے اگر لگا بھی
دیئے بھی جائیں تو انہیں درخت بننے میں 10سے 15 برس کا طویل عرصہ درکار
ہوگا۔ان دس سے پندرہ برسوں کے دوران ہزاروں درختوں کی نعمت سے محروم ہونے
کا ’’کفارہ‘‘ کون ادا کرے گا؟ اسی پر بس نہیں بلکہ سرکاری اداروں کے ’’شہنشاہ‘‘
افسران کی ملی بھگت سے اسلام آباد کے جنگلات کو کاٹ کر ہاؤسنگ اسکیمیں
بنانے کا دھندہ بھی ان دنوں عروج پر ہے، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے محکمہ
مال کے حکام اور سروے آف پاکستان سے مل کر لوہی بھیر جنگلات کے رقبے کی ایک
رپورٹ تیار کی گئی ہے، دلچسپ بات یہ کہ اس رپورٹ کی تیاری بھی خوشدلی سے
نہیں بلکہ عدالتی حکم پر ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی حدود میں لوہی بیر جنگل کا کل رقبہ1 ہزار
نواسی ایکڑ تھا، جس پر اب درجنوں ہاؤسنگ اسکیمیں بنا دی گئیں ہیں، اداروں
کے درمیان زمینوں کے بٹوارے میں راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو منتقل کی
گئی دوسو ایکڑ زمین موقع پر موجود ہی نہیں کیونکہ مختلف ہاؤسنگ
سوسائیٹیزجنگلات کو کاٹ کر دو سو ایکڑ کی یہ زمین ہڑپ کر چکی ہیں، اسی طرح
اسلام آباد ہائی وے کے ساتھ واقع نیشنل پولیس فاونڈیشن نے جنگل کی ایک سو
گیارہ ایکڑ زمین پر قبضہ کرکے سوسائٹی قائم کر دی ہے،رئیل اسٹیٹ ٹائیکون
ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن نے ساڑھے نو ایکڑ، پام سٹی نے آٹھ ایکڑ، کورنگ ٹاؤن
نے ساڑھے چار ایکڑ، ایئر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی نے پنتیس ایکڑ، ڈاکٹرز کالونی
نے انتیس ایکڑ پر قبضہ جما رکھا ہے، فیڈرل ایمپلائز سوسائٹی بھی تیرہ ایکڑ
پر قابض ہے۔ان سب زمینوں سے جنگلات کو کاٹ کر انہیں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں
تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہ جڑواں شہروں کیلئے ایک انتہائی خطرناک صورتحال
ہے۔ کرپشن کی اس بہتی گنگا میں کوئی اکیلا ہاتھ نہیں دھو رہا بلکہ خود
سپریم کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ متعلقہ تمام ادارے بھی اس میں برابر کے ملوث
ہیں بلکہ انہی کی آشیر باد سے یہ گھناؤنا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ اگر اسلام
آباد کی دوسری جانب رخ کریں تو ہزاروں درختوں کے قتل عام کے بعدزیر تعمیر
نیو اسلام آباد ایئر پورٹ منصوبہ حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اس منصوبے
میں بھی میٹروبس منصوبہ کی طرح یہی وعدہ کیا گیا کہ ایک کے بدلے دس درخت
لگائے جائیں گے لیکن عملدرآمد ندارد۔
ماحولیاتی آلودگی اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ عالمی ماہرین ماحولیات بھی
حیران ہیں، اگرچہ پاکستان میں اس موضوع پر کوئی گفتگو کرنا بھی پسند نہیں
کرتا تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس نیک مقصد کیلئے آواز اٹھانے میں پیش
پیش ہیں، اسی سلسلے میں ہنری بول فاؤنڈیشن نے آج نیشنل پریس کلب میں ایک
علامتی احتجاجی مظاہرے اور پریس کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں
سول سوسائٹی کے درد دل رکھنے والے افراد،اسد عمر اوردیگر سیاسی شخصیات،
سینئر تحقیقاتی صحافی رؤف کلاسرا، پیارے دوست و اینکر پرسن فرید رئیس،
خاکسار سمیت ماحولیات پر کام کرنے والے چند اور صحافی بھی شریک تھے، مظاہرے
میں حکومت سے اسلام آباد میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کو روکنے اور ان کی
جگہ فی الفور نئے پودے(درخت) لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔ بحیثیت انسان اور
پاکستانی یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ماحول کے تحفظ اور درختوں کی کٹائی کو
روکنے کیلئے اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں ورنہ ہماری آنے والی نسلیں
مختلف سنگین قسم کی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوں گی اور اسی پر
بس نہیں بلکہ زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کا جینا دوبھرہو جائے گا۔یہ
نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں ہمار نسلیں اس عظیم نعمت سے کلی طور پر بے بہرہ
ہو جائیں۔ اپنے ایک قطعہ کے ساتھ اختتام کروں گا کہ۔
در بدر پھرتے ان پرندوں کے
نسلِ نو نے کبھی نہ گھر دیکھے!!
شہر میں رہنے والے لوگوں کو
ایک مدت ہوئی شجر دیکھے!! |