امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم
رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ایک مالدار آدمی جس کا کردار
اچھا نہیں تھا لیکن اسے درود پاک پڑھنے کا شوق بڑا تھا۔ جب اس کا آخری وقت
آیا اور جانکنی کی حالت طاری ہوئی تو اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا۔ اس نے اسی
حالت میں ندا دی۔ “اے اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
! میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور درود پاک کی کثرت کرتا ہوں۔“ ابھی اس نے یہ
ندا پوری بھی نہ کی تھی کہ اچانک ایک پرندہ آسمان سے نازل ہوا اور اس نے
اپنا پَر اس قریب المرگ آدمی کے چہرہ پر پھیر دیا۔ فوراً اس کا چہرہ چمک
اٹھا اور کستوری کی سی خوشبو مہک گئی اور وہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا دنیا سے
رخصت ہو گیا۔
اور پھر جب تجہیز و تکفین ہو جانے کے بعد اسے لحد میں رکھا گیا تو ہاتف سے
آواز سنی، “ہم نے اس بندے کو قبر میں رکھنے سے پہلے ہی کفایت کی اور اس
درود پاک نے جو یہ میرے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر پڑھا کرتا
تھا، اسے قبر سے اٹھا کر جنت میں پہنچا دیا ہے۔“
یہ سن کر لوگ بہت متعجب ہوئے اور پھر جب رات ہوئی تو کسی نے دیکھا، زمین و
آسمان کے درمیان وہ چل رہا ہے اور پڑھ رہا ہے۔
(درۃ الناصحین ۔ ص 172) |