مقامِ عصمت کے ہوتے ہوئے گناہ
اور خطا کا مرتکب ہونا محال ہے، جبکہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ”محال کو چھوڑ
دینا“ کوئی فضیلت نہیں ہوتی، مثال کے طور پر اگر ہم سو سال بعد پیدا ہونے
والے یا سو سال پہلے گزرنے والوں پر ظلم و ستم نہیں کرسکتے،تو یہ ہمارے لئے
کوئی باعث افتخار نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا ہمارے امکان سے باہر ہے!!
مذکورہ اعتراض اگرچہ ”عصمت انبیاء“ پر نہیں ہے بلکہ عصمت کی فضیلت گھٹانے
کے لئے ہے، لیکن پھر بھی درج ذیل چند نکات پر توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب
واضح ہوجائے گا۔
۱۔ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں، ان کی توجہ ”عصمت انبیاء“ پر نہیں ہوتی،
بلکہ ان لوگوں کا گمان ہے کہ مقام عصمت ، بیماریوں کے مقابلہ میں بچاؤ کی
طرح ہے، جیسا کہ بعض بیماریوں سے بچنے کے لئے ٹیکے لگائے جاتے ہیں، جن کی
بنا پر وہ بیماریاں نہیں آتیں۔
لیکن معصومین میں گناہ کے مقابل یہ تحفظ ان کی معرفت ،علم اور تقویٰ کی
بنیاد پر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہم بعض چیزوں کا علم رکھتے ہیں اور
یقین رکھتے ہیں کہ یہ کام بُرا ہے، مثلاً ہم کبھی بھی بالکل برہنہ ہوکر گلی
کوچوں میں نہیں گھومتے، اسی طرح جو شخص نشہ آور چیزوں کے استعمال کے نقصان
کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے کہ اس سے انسان آہستہ آہستہ موت کی آغوش
میں چلا جاتا ہے وہ اس کے قریب تک نہیں جاتا، یقیناً اس طرح نشہ آور چیزوں
کو ترک کرنا انسان کے لئے فضیلت اور کمال ہے، لیکن اس میں کسی طرح کا کوئی
جبری پہلو نہیں ہے، کیونکہ انسان نشہ آور چیزوں کے استعمال میں آزاد ہے۔
اسی وجہ سے ہم کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں میں تعلیم و تربیت کے ذریعہ علم
ومعرفت اور تقویٰ کی سطح کو بلند کریں تاکہ ان کو بڑے بڑے گناہوں اور برے
اعمال کے ارتکاب سے بچالیں۔
جو لوگ اس تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں بعض بُرے اعمال کو ترک کرتے ہوئے نظر
آئیں تو کیا ان کے لئے یہ فضیلت اور افتخار کا مقام نہیں ہے؟!
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ انبیاء کے لئے یہ ”محالِ عادّی“
ہے ”محالِ عقلی“ نہیں ، کیونکہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ”محال عادّی“ انسان
کے اختیار میں ہوتا ہے، ”محال عادّی“ کی مثال اس طرح تصور کریں کہ ایک عالم
اور مومن مسجد میں شراب لے جاسکتا ہے اور نماز جماعت کے دوران شراب پی سکتا
ہے،( لیکن عادتاً مومن افراد اس طرح نہیں کرتے) یہ محال عقلی نہیں بلکہ
”محال عادّی“ ہے۔
مختصر یہ کہ انبیاء علیہم السلام چونکہ معرفت و ایمان کے بلند درجہ پر فائز
ہوتے ہیں جو خود ایک عظیم فضیلت اور افتخار ہے، جو دوسری فضیلت اور افتخار
کا سبب ہوتے ہیں اسی فضیلت کو عصمت کہتے ہیں۔(غور فرمائیے گا)
اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایمان اور معرفت کہاں سے آئی، تو اس کا جواب یہ
ہے کہ یہ عظیم ایمان اور معرفت خداوندعالم کی امداد سے حاصل ہوئی ہے، لیکن
اس وضاحت کے ساتھ کہ خداوند عالم کی امداد بے حساب و کتاب نہیں ہے، بلکہ ان
میں ایسی لیاقت اور صلاحیت موجود تھی ، جیسا کہ قرآن مجید حضرت ابراہیم
خلیل خدا کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ جب تک انھوں نے الٰہی امتحان نہ
دے لیا تو ان کو لوگوں کا امام قرار نہیں دیا گیا، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
<وَإِذْ ابْتَلَی إِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّہُنَّ
قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا>(1)
یعنی جناب ابراہیم علیہ السلام اپنے ارادہ و اختیار سے ان مراحل کو طے کرنے
کے بعد عظیم الٰہی نعمت سے سرفراز ہوئے۔
اسی طرح جناب یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ” جس وقت وہ
بلوغ اور طاقت نیز جسم و جان کے تکامل و ترقی تک پہنچے (اور وحی قبول کرنے
کے لئے تیار ہوگئے) تو ہم نے ان کو علم و حکمت عنایت فرمایا اور اس طرح ہم
نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں“
<وَلَمَّا بَلَغَ اٴَشُدَّہُ آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا وَکَذَلِکَ
نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ> (۲)
آیت کا یہ حصہ <َکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ> ہماری بات پربہترین دلیل
ہے کیونکہ اس میں ارشاد ہوتا ہے کہ (جناب) یوسف کے نیک اور شائستہ اعمال کی
وجہ سے ان کو خدا کی عظیم نعمت حاصل ہوئی۔
اسی طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو اسی
حقیقت کو واضح کرتے ہیں، ارشاد خداوندی ہوتا ہے: ” ہم نے بارہا تمہارا
امتحان لیا ہے، اور تم نے برسوں اہل
(1) سورہٴ بقرہ ، آیت۱۲۴․ (۲) سورہٴ یوسف ، آیت۲۲․
”مدین“ کے یہاں قیام کیا ہے (اور ضروری تیاری کے بعد امتحانات کی بھٹی سے
سرفراز اور کامیاب نکل آئے) تو آپ کو بلند مقام اور درجات حاصل ہوئے:
<وَفَتَنَّاکَ فُتُونًا فَلَبِثْتَ سِنِینَ فِی اٴَہْلِ مَدْیَنَ ثُمَّ
جِئْتَ عَلَی قَدَرٍ یَامُوسَی>(1)(۲) ”اور تمہارا باقاعدہ امتحان لیا پھر
تم اہل مدین میں کئی برس تک رہے اس کے بعد تم ایک منزل پر آگئے اے موسیٰ“۔
یہ بات معلوم ہے کہ ان عظیم الشان انبیا ء میں استعداد اور صلاحیت پائی
جاتی تھی لیکن ان کو بروئے کار لانے کے لئے کوئی جبری پہلو نہیں تھا، بلکہ
اپنے ارادے و اختیار سے اس راستہ کو طے کیا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے
ہیں کہ ان میں بہت سی صلاحیت اور لیاقت پائی جاتی ہیں لیکن ان سے استفادہ
نہیں کرتے، یہ ایک طرف ۔
دوسری طرف اگر انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی عنایات حاصل ہوئی ہیں تو
ان کے مقابل ان کی ذمہ داریاں بھی سخت تر ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا
جائے کہ خداوند عالم جس مقدار میں انسان کو ذمہ داری دیتا ہے اسی لحاظ سے
اسے طاقت بھی دیتا ہے، اور پھر اس ذمہ داری کے نبھانے پر امتحان لیتا ہے۔
۲۔ اس سوال کا ایک دوسرا جواب بھی دیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ فرض کیجئے کہ
انبیاء علیہم السلام خدا کی جبری امداد کی بنا پر ہر طرح کے گناہ اور خطا
سے محفوظ رہتے ہیں تاکہ عوام الناس کے اطمینان میں مزید اضافہ ہوجائے، اور
یہ چیز ان کے لئے چراغ ہدایت بن جائے، لیکن ”ترک اولیٰ“ کا احتمال باقی
رہتا ہے، یعنی ایسا کام جو گناہ نہیں ہے لیکن انبیاء علیہم السلام کی شان
کے مطابق نہیں ہے۔
(1)سورہٴ طہ ، آیت۴۰
(۲) جملہ < ثُمَّ جِئْتَ عَلَی قَدَرٍ یَامُوسَی ٰ> سے کبھی وحی کے قبول
کرنے کی لیاقت اور صلاحیت کے معنی لئے گئے ہیں اور کبھی رسالت حاصل کرنے کے
لئے جو زمانہ معین کیا گیا تھا اس کے معنی کئے گئے ہیں․
انبیاء کا افتخار یہ ہے کہ ان سے ترک اولیٰ تک نہیں ہوتا، اور یہ ان کے لئے
ایک اختیاری چیز ہے، اور اگر بعض انبیاء علیہم السلام سے بہت ہی کم ترک
اولیٰ ہوا ہے تو اسی لحاظ سے مصائب و بلا میں گرفتار ہوئے ہیں، تو اس سے
بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوگی کہ وہ اطاعت الٰہی میں کوئی ترک اولیٰ بھی نہیں
کرتے۔
اس بنا پر انبیاء علیہم السلام کے لئے با عث افتخارہے کہ خدا کی عطا کردہ
نعمتوں کے مقابل ذمہ داری بھی زیاہ ہوتی ہے اور ترک اولیٰ کے قریب تک نہیں
جاتے، اور اگر بعض موارد میں ترک اولیٰ ہوتا ہے تو فوراً اس کی تلافی
کردیتے ہیں۔(1)
(1) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۱۹۳ |