چڑیا کمیٹی اور امام مسجدکی تنخواہ کم ترین تنخواہیں

کسی زمانے میں پی ٹی وی پر ایک پنجابی ڈرامہ نشرہوا کرتا تھا اس ڈرامے کا نام چڑیا کمیٹی تھا ۔ اس مزاحیہ ڈرامہ کی کہانی یہ تھی ٗوزیر صاحب کے دفتر میں چڑیا اپنا گھونسلہ بنا لیتی ہے ۔ جب گھونسلے کے تنکے وزیر صاحب کے سر پر گرتے ہیں ٗ تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ انکے کمرے کی چھت پر چڑیا نے نہایت راز داری سے گھونسلہ ہی نہیں بنایا بلکہ گھونسلے میں انڈے اوربچے بھی موجود ہیں۔ چڑیا کے بچوں کو محفوظ رکھتے ہوئے اس گھونسلے کی کسی اور جگہ منتقلی کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ۔جس کا نام چڑیا کمیٹی تجویز کیاگیا ۔ اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔ گھونسلہ اپنی جگہ پر موجود رہا اور وزیر صاحب وزارت سے فارغ ہوکر گھر چلے گئے ۔ اس ڈرامے کی یہ کہانی درحقیقت سرکاری محکموں کی سست روی ٗ بدترین کارکردگی اور آپس میں خطوط و کتابت پر زبردست طنز تھی کہ کس طرح ایک چھوٹے سے کام کے لیے قوم کاپیسہ ٗوقت اور توانائی ضائع کی جاتی ہے اور نتیجہ پھر بھی نہیں نکلتا۔ نوائے وقت میں امام مسجد کی کم ترین تنخواہوں کے بارے میں ڈیڑھ سال پہلے میرا ایک کالم شائع ہوا تھا۔ اس کالم پر ایک کورنگ لیٹر لگاکر میں نے وزیر اعظم نواز شریف کو بھجوا دیا اورگزارش یہ کی کہ اما م مسجد اور خطیب حضرات کو سرکاری ٹیچر قرار دے کر ان کی تنخواہیں اساتذہ کے برابر مقرر کی جائیں اور جو سہولتیں (دوران ملازمت اور بعد ازریٹائرمنٹ انہیں ملتی ہیں ) وہی سہولتیں امام مسجد / خطیب حضرات کو بھی دی جائیں ۔اس خط کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ بھجوائے ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے ۔ نواز شریف وزارت عظمی سے نااہل ہوکر نیب عدالت میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ 23 اکتوبر 2017ء کو مجھے چیف سیکرٹری پنجاب اوقاف ڈیپارٹمنٹ ٗ پٹیشن سیل کے فوکل پرسن کے دستخطوں والا ایک خط موصول ہوا جو سیکشن آفیسر پٹیشن سول سیکرٹریٹ پٹیشن سیل سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کو لکھا گیا ہے اور مجھے اس خط کی نقل برائے اطلاع بھجوائی گئی ہے ۔ انگلش زبان میں لکھاہوا یہ خط کوئی عام شخص پڑھ بھی نہیں سکتا کیونکہ نہ اس کا کوئی سر ہے اور نہ پاؤں ۔ یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے ۔کوئی بوڑھی عورت ایک نوجوان کے پاس گئی اور کہا بیٹا میری بیٹی کو خط لکھ دو جو دوسرے شہرمیں رہتی ہے ۔نوجوان نے معذرت کرتے ہوئے کہا اماں جی میں خط نہیں لکھ سکتا کہ میرے پاؤں میں بہت تکلیف ہے ۔ عورت نے کہا بیٹا لکھنا تو تم نے ہاتھ سے ہے ٗ پاؤں میں تکلیف کا اس سے کیا تعلق ۔ نوجوان نے جواب دیا اماں جی میری لکھائی کوئی اور نہیں پڑھ سکتا چنانچہ مجھے ہی وہاں جاکر یہ خط پڑھنا بھی ہوگا ۔بالکل یہ کیفیت اس خط کی ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے سرکاری اداروں میں گھومتا پھر رہا ہے اور مسئلے کا کوئی حل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ۔ سیدھی سی بات ہے کہ حکومت امام مسجدوں کی درجہ بندی کرکے ایک قانون اسمبلی میں پاس کروالے ۔ کہ حافظ قرآن اور خطیب حضرات کو کم ازکم تنخواہ 30 ہزار ٗ مدرسوں والی جامع مسجد کے امام / مفتی صاحبان کے لیے تنخواہ 40 ہزار مقرر کردی جائے ۔دینی مدرسوں کے اساتذہ اور پرنسپل کو بھی اسی ترتیب سے تنخواہ دینے کاپابند کردیاجائے ۔دینی مدرسوں کو اساتذہ کر تنخواہیں دینے کے لیے معقول سالانہ گرانٹ مقرر کردی جائے تاکہ ان پر مالی بوجھ نہ پڑے۔ بس اتنی سی بات ہے جو حکومت اور انتظامی اداروں کے لیے کالا باغ ڈیم بن چکی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ میرے خط پر باہمی خط و کتابت پرمشتمل ایک بھاری فائل بن چکی ہوگی جس کو اٹھانے کے لیے بھی ایک توانا شخص درکار ہوگا ۔ میں جس مسجد میں نماز پڑھتاہوں اس مسجد کے حافظ قرآن خطیب قاری محمداقبال عارف صاحب ہیں جن کو اس وقت بھی صرف 13 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ۔ اس معمولی تنخواہ میں ان سے امام ٗ خطیب ٗ موذن ٗ خادم اور منتظم کی ڈیوٹی بھی لی جاتی ہے ۔ جبکہ حکومت نے مزدور کی تنخواہ 15 ہزار مقرر کررکھی ہے۔ کیا ہم اپنے امام اور حافظ قرآن کی یہ عزت کرتے ہیں جسے معاشرے کا بہترین اور افضل ترین شخص بھی قرار دیا جاتاہے اور تنخواہ ہم اسے ایک مزدور سے بھی کم دیتے ہیں ۔افسوس تواس بات کا ہے کہ نئے امام کی سلیکشن ایسے کی جاتی ہے جیسے بکرا عید پرخریدنے سے پہلے بکروں کا جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔آواز سریلی ہے ٗشادی بھی ہوئی ہے یا نہیں ۔دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں اور چال کس قدر مستانی ہے۔ کوئی دنیاوی عیب تو نہیں ان میں۔کوئی موذی بیماری تو نہیں لاحق۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی معاشرے کااعلی اور افضل ترین انسان خیرات کی روٹیاں اور ایصال ثواب کے کھانے کھا کر خود اوراپنے بیوی بچوں کو زندہ رکھنے مجبور ہوتا ہے ۔جب بھی امام مسجد کی تنخواہ زیر بحث آتی ہے تو انتظامیہ کے لوگ یہ تصورکرتے ہیں کہ شاید انہیں آسمان سے من سلوا اتر تا ہے ۔نہ امام کو بھوک لگتی ہے ٗ نہ امام کے بیوی بچوں کو تعلیم اور علاج معالجے اور نہ ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے بس جیسے ہی شام ڈھلتی ہے تو فرشتے قطار در قطار مسجد میں رنگ برنگے کھانے لے کراترنا شروع کردیتے ہیں اور امام مسجد کی تمام دنیاوی خواہشات کو بھی پورا کردیا جاتاہے ۔ یہ ہماری معاشرتی سوچ کاکمال ہے ۔ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے ۔ میں اپنے جس امام مسجد کی بات کررہا ہوں ان کے پانچ بچے ہیں جو مختلف سکولوں میں پڑھتے ہیں ایک بچہ معذور جبکہ 14 سال کی بیٹی کے پیٹ میں رسولیاں ہیں ۔جس کا فوری آپریشن کروانا ضروری ہے ۔کیا وہ 13 ہزار روپے تنخواہ میں آپریشن کرواسکتے ہیں ۔ نواز شریف کو تو اﷲ تعالی نے امام مسجد کے مسائل حل کرنے کی فرصت نہیں دی اورمعاملہ اب تک سرکاری اداروں میں فٹ بال بنا ہوا ہے لیکن شہباز شریف کو وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیئے۔کہیں چڑیاکمیٹی والا حال ان کا بھی نہ ہوجائے ۔ قیامت والے دن یہ حکمران اﷲ کو کیا جواب دیں گے کہ ہم نے تیرے بہترین اور نیک صالح بندوں کو اتنی تنخواہ نہیں دے سکے کہ وہ پیٹ بھر سکیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 668683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.