از افادات:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
میرے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے
ماتحت لوگوں کے معاملے میں مسؤل ہے؛ اس سے پوچھا جائے گا، اس سے سوال ہوگا۔
آپ اگر ایک باپ ہیں تو آٹھ، چار، پانچ بچے آپ کے زیرِ کفالت ہیں تو ان کے
معاملات کے آپ ذمہ دار ہیں۔ اگر آپ ٹیچر ہیں تو شاگردوں کے معاملات کے ذمہ
دار ہیں۔ اگر آپ نے ایک فیکٹری بنائی ہے اور دو تین سو لوگ وہاں کام کر رہے
ہیں تو جتنی آپ کی ذمہ داریاں بنتی ہیں تو وہ آپ وہاں نبھائیں گے۔ اور اگر
آپ ہادیِ قوم ہیں ، رہنمائے قوم ہیں تو پھر اس حساب سے آپ کی ذمہ داریاں
بنتی ہیں۔
اب بتائیے! یہ معاشرہ جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں ، یہاں عدم برداشت کا
کلچر ہے۔ آپ ایک دکان دار سے بھی سودا لینے جائیں اور ایک سے دو مرتبہ بھی
وہ کوئی بات پوچھے تو وہ تلخ ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ اس کہ تو دکان داری ہے؛اس
کو تو سُننا چاہیے۔ لیکن معاشرے کے اندر تلخی اتنی آگئی ہے ، عدم برداشت
ایسے پیدا ہوگئی ہے کہ مجھے بتائیے کہ وہ شخص جس کا فائدہ ہے تو وہ بھی آگے
سے تلخ ہو رہا ہے ؛ تو پھر اس معاشرے کی گراوٹ کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔
منبر و محراب سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ایسے تلخ جملوں کے تبادلے ہوتے ہیں
کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ منبر پر بیٹھنے والا شخص جو یہاں سے کہہ
رہا ہے یہ دین ہی ہے؟ہمارے یہاں اتھارٹی اﷲ کے رسول ہیں صلی اﷲ علیہ وسلم۔
اگر مَیں اپنے نفس کے شکنجے میں کسا ہوا ہوں اوراپنی انا کے پنجرے کے اندر
ہوں اور اس کو مَیں دین قرار دیتا ہوں تو یہ مَیں اپنے پہ بھی زیادتی کرتا
ہوں اورلوگوں پہ بھی زیادتی کرتا ہوں۔
سالارِ کارواں ہے میرِ حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
تو ہمارے لیے وہ (صلی اﷲ علیہ وسلم) سند ہیں۔ اگرمَیں بھی یہاں اپنی گفتگو
کو اس انداز سے مرتب کروں کہ اس سے معاشرے کے اندر بد اخلاقی کی نمو ہو تو
پھر مجھے بتائیے گا کہ آپ خیر کہاں سے تلاش کریں گے۔
چوں کفر از خانہ کعبہ بر خیزد
کجا ماند مسلمانی
ایک فارسی شاعر نے کہا کہ جب کعبے سے کفر کھڑا ہوجائے تو پھر مسلمانی آپ
کہاں سے تلاش کریں گے۔منبر و محراب؛ جس کی ذمہ داری ہی حسنِ اخلاق سکھانا
تھا تو اس کی ذمہ داری جو تھی اس کے بر عکس وہ کام کررہا ہے۔ جس کا کام
تصفیۂ قلوب تھا، تصفیۂ باطن تھا؛ اب وہ سالکین کاتصفیہ کرنے کی بجائے ان
جیبیں صاف کرنے کے چکر میں ہے کہ تمہارا دل تو صاف کر نہیں سکتا تمہاری جیب
صاف کردوں گا۔ تو پھر مجھے بتائیے کہ جو مسندِ مشیخیت پر بیٹھا ہے وہ کس
گراوٹ کا شکار ہے؟ اس لیے مجھے اور آپ کو اپنے ماحول کے اندر جہاں ہم بیٹھے
ہوئے ہیں ؛ ہمارے ماحول سے وابستہ صرف تین آدمی ہی کیوں نہ ہوں تو ہم وہاں
خیر اور بہتری ہی پھیلانے کے لیے کوشاں ہوں ۔ جب ہم ایسا کریں گے تو میرا
مالک ہماری مدد کرے گا۔
تو یہ ہمارے دین کی وہ نمایا چیزیں ہیں ؛ حسنِ اخلاق اور حیاء۔ اب دورِ
موجود کے اندر حیاء کا جوہر لُٹ گیا۔ اور پھر ہمارا الیکٹرانک میڈیا ، پھر
اس کے بعد اب سوشل میڈیا کی قیامت جو ہمارے اوپر ٹوٹ پڑی؛ اس نے خلوتوں کو
بھی پاکیزہ نہیں رہنے دیا۔ حیاء کا حقیقی جوہر موجود ہوگا تو پھر خلوت نا
پاکیزہ نہیں ہوسکتی۔ خلوت کے اندر بھی روشنی و اجالا اور چراغاں ہی رہے گا۔
ایک تو ہم نے اپنی اور اپنی نسل اور اپنے جو بھی ماتحت ہیں، جن کا ذمہ
ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ان کو حیاء کی اس دولت کے ماحول کو فراہم کرنا ہے۔
اور دوسرا ہم کبھی بھی اپنی اولاد سے، اپنے شاگردوں سے، اپنے حلقۂ احباب سے،
اپنے دوستوں سے کبھی بھی بد خُلقی کی بد بو اور نفرت کو پھیلنے نہ دیں۔ جس
سے آپ کا اختلاف بھی ہے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
وَجَادِلْہُم بِالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ۔(سورۃ النحل،آیت ۱۲۵) حالاں کہ
مجادلہ ہے ان سے ؛ لیکن یہاں حسن نہیں کہا۔ طلبہ موجود ہیں؛ احسن اسمِ
تفضیل کا صیغہ ہے Superletive Degree یعنی آپ جس سے مجادلہ بھی کریں تو اس
میں صرف حسن ہی نہیں ہے بلکہ احسن ؛ یعنی اس سے مجادلے میں بھی تمہارا
انداز اتنا خوبصورت ہو کہ دل موہ لینے والا ہو۔
تو دورِ موجود کے اندر جہاں ہم اپنے سایوں سے، رشتے داروں سے، اپنے ملنے
والوں سے، معاشرے میں، چلتے ہوئے بازار میں، گزرنے گاہوں میں؛ لوگوں کے
ساتھ رویے، تلخ جملے اور جو ہمارا اندازِ تکلم ہوتا ہے؛ یہ ہمارا دین کیا
کوئی بھی صائب معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے ہم خوب صورتی کو اپنا
شعارِ زندگی بنائیں اور اپنے رویوں میں جمال پیدا کریں۔ رویوں میں خوب
صورتی پیدا کریں تاکہ ہماری بولی روحوں کے اندر اترے اور من میں روشنیوں کا
ساماں کریں۔
(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیرِ ترتیب)
٭٭٭ |