تحریر: بنت عطا، کراچی
اولاد اﷲ کا بہت بڑا انعام ہے۔ ایک ایسا انعام جس کے لیے انبیاء کرام علیہم
السلام نے بھی دعائیں کی ہیں۔ اﷲ نے فرمایا: ’’مال اور اولاد تمہارے لیے
دنیا کی زینت ہیں ‘‘(القرآن) ۔ لہٰذا ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کی عزت کرو ‘‘(ابن ماجہ) ۔ عزت
سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک قیمتی متاع ہے اس کی قدر کرو اسے ضائع نہ کرو۔
اولاد کی قدر میں سے ایک بات یہ ہے کہ ان کا اچھا نام رکھا جائے بے تکا نام
بعد میں اولاد کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ اولاد کی قدر یہ بھی ہے کہ
ان کی اچھی تربیت کریں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی والد نے اپنی
اولاد کو بہترین اخلاق سے اچھا تحفہ نہیں دیا‘‘ (ترمذی) ۔ اسی تربیت کی وجہ
سے بچے کے کان میں اذان دی جاتی ہے تاکہ لاشعوری طور ہر بچے تک اﷲ کا نام
پہنچے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بچہ بولنے لگے اسے اﷲ کا نام سکھاؤ (البیھقی)
۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں ڈالیں ان کی
اطاعت کا جذبہ پیدا کریں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: ’’جب بچہ
7سال کا ہوجائے اسے نماز کا حکم دو اور جب 10سال کا ہوجائے اسے سرزنش کرو‘‘
(ترمذی) ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بچہ اﷲ کی نافرمانی کریگا تو والدین کی
اطاعت کیسے کرے گا۔
اولاد کی تربیت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ان کو ادب سکھایا جائے۔ دائیں ہاتھ
سے کھانا کھانا، بیٹھ کر پانی پینا، بڑوں کا احترام کرنا، اساتذہ کی عزت
کرنا، اکڑ کر نہ چلنا، چلا کر بات نہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اولاد کی تربیت میں
یہ بات شامل ہے کہ ان سے محبت کی جائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بچوں پر رحم نہ کرے (ترمذی) ۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم خود بچوں کو اٹھاتے، پیار کرتے، حضرت حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کو
کندھوں پہ بٹھا کہ گھماتے۔ آج کل والدین ہفتوں بچوں سے بات کرنے سے محروم
رہتے ہیں بہت سے والد ایسے بھی ہیں جنہیں یہ علم نہیں ان کا کونسا بچہ
کونسی جماعت میں ہے۔ بچوں سے گفتگو کرنا ان اے گھلنا ملنا ان کی تربیت کے
لیے ضروری ہے ۔ بہت سی مائیں ایسی ہیں جو بچوں کو والد سے متنفر کر کے
رکھتی ہیں نتیجتاً بچے والد سے دور رہنے میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔
اولاد کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے درمیان عدل و انصاف کیا جائے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اﷲ سے ڈرو اور اولاد کے درمیان انصاف کرو
(بخاری و مسلم)۔ آپ صلی علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ’’جو شخص بیٹیوں کی وجہ
سے آزمایا گیا یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوں گی‘‘ (مسلم)۔
نیز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’جس کو اﷲ نے دو بیٹیاں دیں اس
نے ان کی اچھی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو یہ شخص جنت میں میرے
ساتھ اس طرح ہوگا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے 2انگلیوں کو ملایا ‘‘(مسلم)۔
الغرض اگر ایک بچے کو نوازا جائے اور دوسرے کو محروم رکھا جائے تو عدل نہ
کرنے کی وجہ سے بچے ایک دوسرے سے متنفر ہوجائیں گے، بغض و حسد پیدا ہوگا۔
اولاد کی تربیت کا یہ بھی حصہ ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے چاہے بیٹے ہوں یا
بیٹیاں۔ بہت سے گھرانوں میں بیٹی کو تعلیم دینا معیوب اور غیر ضروری سمجھا
جاتا ہے حالانکہ تعلیم انسان کی زندگی میں نکھار پیدا کرتی ہے خصوصا لڑکیوں
کو تعلیم سے زیور سے آراستہ کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں تعلیم یافتہ گھرانے
وجود میں آسکیں۔
بدترین حالات میں اسلام کی تعلیمات عام کرنے میں عورتوں نے بہت بڑا کردار
ادا کیا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بے شمار احادیث مروی ہیں اور وہ خصوصا
عورتوں کو دین کا علم سکھاتیں تھیں۔ موجودہ جدید دور میں بھی بہت سے مواقع
ایسے آتے ہیں جہاں علاج معالجہ کے لیے عورتوں کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ان کی
تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
اسلام سے پہلے لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے بیٹی کی پیدائش کی
خبر سن کر ہی ان کے چہرے غم سے سیاہ ہوجاتے اس معاشرے میں بیٹی کو پالنا اس
کی حفاظت کرنا ایسا مشکل تھا کہ انہیں اس سے آسان اسے زندہ درگور کرنا
لگتا۔ ذرا سوچئے! اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی جسے معلوم ہو کہ اس کی بچی کو
زندہ درگور کردیا جائے گا۔ لاکھوں درود و سلام محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
پر کہ جنہوں نے معاشرے کو ایسا نظام دیا کہ بیٹی کو پالنا رسوائی نہیں بلکہ
سعادت سمجھا جانے لگا۔
اپنی اولاد کی حفاظت کے لیے ہمیں چاہیے ہم اپنے معاشرے کو اسلامی بنائیں اس
سے ہمیں اپنی بیٹیوں کی حفاظت اور پرورش کرنے میں آسانی ہوگی۔ جہاں اﷲ نے
اولاد کو ایک نعمت فرمایا وہیں اسے ایک آزمائش بھی قرار دیا ہمیں اولاد کی
محبت میں اﷲ سے غافل نہیں ہونا چاہیے اولاد کے لیے حلال روزی کا انتظام
کریں ایسا نہ ہو کہ اولاد کو راضی کرتے کرتے ہم خود کو جہنم میں ڈال دیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بد نصیب ہے وہ جو دوسروں کی دنیا بناتے
خود جہنم میں جا گرے‘‘۔
اولاد کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ اولاد کو پرسکون ماحول دیا جائے۔
والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے اولاد کا سکون برباد کردیتے ہیں۔ ان کی تعلیم
اور اخلاق پر اس سے بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ بہت سے بچے گھریلو جھگڑوں سے نیم
پاگل یا نفسیات کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان تمام باتوں
سے بچتے ہوئے گھر کا ماحول خوشگوار رکھیں۔ جس گھر میں گانے جھوٹ گالم گلوچ
کا ماحول ہوگا وہاں بچے بھی یہیں سب کرنے لگیں گے۔ اس کے برعکس جہاں نماز،
تلاوت قرآن، روزوں کی پابندی اور دیگر اچھے اخلاق کا ماحول ہوگا وہاں بچے
نادانستہ طور پر ان سب باتوں پر عمل شروع کردیں گے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا: ’’ہر انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی ،
نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘ (مسلم)۔
الغرض ماحول بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کی بہتر تربیت کے لیے
ان کے دوستوں پر کو دیکھا جائے۔ انسان سب سے زیادہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے‘‘
(ترمذی)۔ اولاد کی اصلاح دعا کے ذریعے کریں والد کی دعا اولاد کے حق میں
قبول کی جاتی ہے۔ اسے بد دعا کبھی نہیں دینی چاہیے کہیں وہی قبولیت دعا کا
وقت ہو اور بعد میں ہمیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ اﷲ نے اولاد کے لیے یہ
دعا بتائی ہے ’’اے اﷲ! میری اولاد کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ‘‘(القرآن)۔
اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں گے اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے
رہیں گے تو یہیں بچے اپنے والدین کے لیے پھل دار درخت ثابت ہوں گے۔ جوانی
میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، بڑھاپے میں سہارا اور مرنے کے بعد شفاعت کا
ذریعہ بنیں گے۔ یاد رکھیں اگر ہم نے آج اپنی اولاد کے معاملے میں بے پرواہی
برتی تو دنیا میں تو رسوائی اور پریشانی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا مگر آخرت
میں ان کے حصے کا گناہ بھی ہمارے پلڑے میں ڈال دیا جائے گا۔ اﷲ ہمیں اپنی
دنیا اور آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
|