والدہ آ ج بہت پریشان سی لگ رہی تھیں ۔ ہماری عادت ہے
کہ ہم والدہ کو ذرا بھی پریشان دیکھیں تو جب تک وہ بات سن نہ لیں ، چین سے
نہیں بیٹھتے۔والدہ نے بتایا کہ آج سعدیہ آئی تھی ہمارے گھر۔ اس کی کزن کا
انتقال ہوگیا تھا تو وہ کچھ دنوں سے وہاں گئی ہوئی تھی۔سعدیہ ہمارے پڑوس
میں رہتی ہیں۔اچھے پڑوسی بھی رب کی بہت بڑی نعمت ہوا کرتے ہیں۔والدہ سب کے
غم بانٹتی ہیں تو سعدیہ بھی اکثر اپنے دکھڑے والدہ کو سنا کر دل کا بوجھ
ہلکا کر لیتی ہیں ۔ سعدیہ نے اپنی کزن مناہیل کی کہانی سنا کر والدہ کو اشک
بار کر دیا ۔کیوں کہ ہم اپنی والدہ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے اس
لئے ہم بھی قلم کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ کے ساتھ اپنا درد بانٹتے ہیں۔ تو
آئیے مناہیل کی کہانی سعدیہ سے سنتے ہیں۔
سعدیہ اور مناہیل کزن ہیں۔میٹرک تک دونوں ساتھ پڑھتی رہیں۔سعدیہ کی فیملی
ویل سیٹ تھی،حالات بھی اچھے تھے، والد کی اچھی نوکری تھی تو اس نے اپنی
تعلیم جاری رکھی۔مناہیل آگے نا پڑھ سکی ۔گھر کی دیواروں کو غربت نے کمزور
کر دیا تھا ،تو وہ کمزور دیواروں کو کاندھا دینے کے لئے باہر نکل کھڑی
ہوئی۔بھوک سے بڑی کوئی چیز ظالم نہیں ہوتی۔انسان ہر بھوک سے لڑ سکتا ہے،
مگر پیٹ کی بھوک سے نہیں لڑ سکتا۔بہنوں میں بڑی ہونے کی وجہ سے گھر کا آدھا
بوجھ وہ تنہا اٹھانے لگی۔چھوٹی بہنوں کو گھر میں ہی آرام و سکون کی زندگی
دینے کے سہانے خواب اس نے اپنی آنکھوں میں سجا لئے۔ مناہیل ایک غریب گھر سے
تعلق ضرور رکھتی تھی، مگر ا س دنیا میں جب سے وہ باہر نکلی اور اپنے حالات
سے مجبور ہو کر اس دنیا کی بھیڑ میں آئی، اس نے خود کو، اپنی آن کو ضائع
نہیں کیا۔ کبھی بھی وہ باہر کی دنیا میں پھرتے بھیڑیوں کا شکار نہیں
ہوئی۔وہ صوم صلوٰۃ کی پابند تھی، اور دین داری کا جوہر اس میں صاف نظر آتا
تھا۔وہ اپنی مجبوری کی خاطر نوکری کے لئے گھر سے نکلی تھی۔
سعدیہ کا گھر بھی قریب ہی تھا۔ وہ گہری سہیلیاں تھیں۔ اولاد اور ماں باپ کا
تعلق ایسا ہو کہ اولاد والدین سے کچھ نہ چھپائے۔ہر بات چاہے کیسی بھی کیوں
نہ ہو، جب اولاد شئیر کرے تووالدین کا فرض ہے کہ وہ کھلے دل سے اور مثبت
سوچ کے ساتھ سنیں۔اور اپنے بچوں کوبھروسے اور اعتمادکا احساس دلائیں۔کچھ
باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں والدین سننا نہیں چاہتے، مگر اولاد بتانے کے لئے
بے چین ہوتی ہے لیکن انھیں کوئی سنتا نہیں۔خاص طور میں بیٹیاں شرم و حیا ء
کی وجہ سے یا باپ بھائی کے خوف سے بتانے سے کتراتی ہیں۔پھر وہ اپنی سہیلیوں
، دوستوں کو بتلا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں ۔اور سہیلیاں بھی ہم عمر ،
نا تجربہ کار ہوتی ہیں لہذا وہ ایسا مشورہ دیتی ہیں ، اور ایسی ایسی غلط
ترکیبیں بتاتی ہیں جس سے والدین کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔والدین کو ہر بات
سننی چائیے۔ اور اولاد کے ساتھاایسا گہرا تعلق اور دوستانہ رویہ ہو کہ کوئی
سرخ لکیر بھی باقی نہ رہے۔
والدین کے ایسے ہی ترش رویوں کی وجہ سے اولاد کے دل میں خواہشات،تمناؤوں،
آرزؤں کی جو آگ بھڑک رہی ہوتی ہے، وہ بعد ازاں ایسے آلاو کی شکل اختیار
کرلیتی ہے، جس سے کئی زندگیوں کی شمع گُل ہو جائے۔والدین کے سخت رویوں ،
اپنی ضد ، انا کی خاطر کئے جانے والے فیصلوں کی وجہ سے اولاد یاتو باغی بن
جاتی ہے، یا ایسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہے جووالدین کے لئے باعث
شرمندگی ہوتے ہیں۔اور پھر پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔سعدیہ یہ بات
سن کر دھک سے رہ گئی کہ اس کی کزن اس دنیا سے چلی گئی۔ وہ چیخ چیخ کر ساری
دنیا میں اعلان کرنا چاہتی تھی کہ اس کی کزن کی جان اس کے والدین نے لی
ہے۔اس کے قاتل کوئی اور نہیں اسے گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کرنے والے اس کے
جنم داتا ہیں۔غم ایسا دیمک ہیں جو آہستہ آہستہ انسان کو اندرسے کھوکھلا
کرتارہتاہے ۔ کیا والدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اولاد کو کمائی اور دولت جمع
کرنے کی مشین بنا دیں۔پیسے کی بھوک انسان کو کبھی ختم ہوئی ہے۔پھر مناہیل
تو ایک 20 سال کی لڑکی تھی۔ ا س کے کیا ارمان ہوں گے، کیا سپنے دیکھے ہوں
گے، کس کس طرح اس نے اپنے مستقبل کے سہانے خواب پیروئے ہوں گے۔ کتنا
خوبصورت محل سجا رکھا ہوگا ۔ ایسے میں ہمارے سماج کی بے درد آندھیوں نے ا س
کے سارے خواب چکناچور کرکے اس کے درد و الم میں اور اضافہ کر دیا۔
حضرت شیخ سعدی ؒ کی یہ بات یاد آتی ہے کہ انسان تلوارخنجر کا دیا زخم سہ
جاتا ہے لیکن زبان کا دیا زخم نہیں سہ سکتا۔مناہیل کے والدین میں حس بالکل
نہیں تھی۔وہ ان والدین میں سے تھے جو اپنی خاندانی ناک بچانے کے لئے اولاد
کو بلی کا بقرا بنادیتے ہیں۔مناہیل بھی ان تنکوں میں سے تھی جس نے والدین
کی زبردستی تھونپے جانے والی امنگوں ، خواہشوں کے دریا میں اپنے جذبات کو
اور اپنے آپ کو بہا دیا۔جب اسے خوش بو سے معطر سفید کپڑوں میں ملبوس سکون
سے سوتا ہوا دیکھا تومناہیل کی ہر بات یاد آنے لگی۔ وہ کہا کرتی تھی : ایک
دن میرے گھر والے پچھتائیں گے۔میرے ابو اپنی ضد میں جو بھی فیصلہ کرتے ہیں
اس میں اولاد کی مرضی اور منشا کا پاس نہیں ہوتا۔ سعدیہ ! تم بتاؤ کیا میں
نے والدین کو بتا کر غلط کیا کہ میری نسبت وہاں جوڑی جائے جسے میں بھی پسند
کرتی ہوں۔پھر شرعی طریقہ اپناکر وداع ہونے کی بات کی۔ ہاں اگر میرے والدین
کو وہاں کوئی خلش نظر آئے تو میں بھی با خوشی ان کے فیصلے سے راضی ہو جاؤں
گی۔لیکن جہاں میری نسبت باندھی گئی وہ ایک زبردستی کا رشتہ تھا۔اصل تعلق تو
قلب کا ہوتاہے۔شادی کے بعد میں نے بھی حالات سے سمجھوتا کر لیا ، شادی کو
دوسال ہونے کے بعدبھی اسے مجھ سے اُنس نہ ہوا ۔اور اُنس ہوتا بھی کیسے ، جب
شادی کی پہلی گھڑی میں مجھ سے سارے راز افشاں کرکے اپنی نظروں میں مجھے گرا
ہواظاہر کر دیا تھا۔میرے والدین کو میرے جذبات، میری خواہشات کا احترام
کرنا چاہئے تھا، کہ میں کیسا اور کِن خوبیوں کا حامل ساتھی چاہتی ہوں ۔اور
والدین کو پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں ، کیوں کہ وہ اپنی اولاد کی پسند نا
پسند سے باخوبی واقف ہوتے ہیں۔اُسے تو نماز ، قرآن ، دین سے کچھ بھی لگاؤ
نہیں۔وہ تو مجھ سے بھی عین وقت نماز میں اپنے کام پہلے کرواتا ہے۔وہ بس
انسان ہے، ایک ایسا انسان جو خدا اور دین سے ناآشنا ہے۔جو مذہب کی باتیں
کرنے والوں سے بھاگتا ہے، ان سے نفرت انگیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ کیا ہمارے
آقا ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرتِ فاطمہ رضی اﷲ عنھا سے نہیں پوچھا تھا کہ
بیٹی علی کا پیغامِ نکاح آیا ہے، کیا مین ہاں کر دوں؟ کیا میرے والدین کو
مجھ سے پوچھنا نہیں چاہئے تھا ؟ انھوں نے مجھے جس کے دامن کے ساتھ باندھا
،اس کی باتوں کی کڑواہٹ ،اور اس کے الفاظوں کا زہر میں اپنے انگ میں محسوس
کرتی ہوں۔وہ محافظ کم اور مخالف زیادہ ہے، صرف اس لئے کہ میں اس کی نہیں اس
کے والدین کی پسند ہوں۔
مناہیل غیر معمولی حساس لڑکی تھی ۔وہ ہر بات کو گہرائی تک لے جاتی تھی
۔والدین کی فرمانبرداری میں وہ ہمیشہ دو قدم آگے رہی۔ انھیں عادتوں کی وجہ
سے سسرال میں بھی سب کی آنکھوں کا تارا بن گئی تھی۔شادی کے بعد جو کچھ اس
کے شریک سفر نے کیا ، وہ کبھی اس نے اپنے والدین کے سامنے ظاہر نہیں کیا۔وہ
ہر دکھ غم کو سینے میں دبائے کڑھتی رہتی۔پھر وہ بیمار ہوئی اور جانبر نہ ہو
سکی۔غموں کے بوجھ نے بیماری کی شکل اختیار کی اور مناہیل نے ہمیشہ کے لئے
آنکھیں بند کر لیں۔والدین اس کی جدائی کے بعد یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کاش
ہم نے اپنی بیٹی کو سنا ہوتا ۔ اس کے غم میں شریک ہوئے ہوتے۔ سعدیہ اپنی
پیاری کزن کو آخری آرام گاہ جاتا دیکھتی رہی اور والدین کے لئے یہ دعائیں
کرتی رہی کہ اے لوگو ! اب بھی وقت ہے بے ہودہ رسم ورواج ، خاندانی شان کو
بچانے کے لئے اپنی اولاد وں کو ایسی بٹھی میں مت جھونکو جہاں سے ان کی لاش
آئے۔اسلامی روایات کو سمجھ کر فیصلے کروکہ تمھاری اولاد بھی اپنی اولاد کو
یہ وراثت دے سکے۔کیوں کہ یہی حقیقی وراثت ہے۔ |