چند ماہ پہلے16جنوری2017ء روزنامہ دنیا ملتان ، جس میں
کئی ایک سنسنی خیز خبریں آئی جن میں سے ایک افسوس ناک خبرکہ اسلام آباد کے
ایک ساتویں جماعت کے طالب علم اسامہ نے اپنی ٹیچر سے عشق کی ناکامی میں
اپنی محبت کا آخری خط لکھ کر خود کووالد کے پستول سے گولی مار کر ہلاک کر
لیا۔
اور آج پھر 23اکتوبر 2017ء کواسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے محترم
عبدالباسط(سٹوڈنٹ آف DVM)نے تفصیل بتائی کہ شائن سٹار ہوٹل میں محبت میں
ناکامی کے سبب محمد اویس نے پہلے اپنی لور انوکشہ کو گولی ماری اور بعد میں
خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی اور یہ دونوں کلاس فیلوتھے اور اسلامیہ
یونیورسٹی میںBS CS(بیچلر ان کمپیوٹر سائنس)کے سٹوڈنٹ تھے۔
نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے
کہاں سے بچ کر چلنا ہے،کہاں جانا ضروری ہے
آئے روز اس طرح کی خبریں میڈیا پر معمول بن گئیں ہیں۔عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو
ایچ او)کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے
اور یہ تعداد کسی بھی جنگ یا قدرتی آفت میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں
زیادہ ہے۔
خود کشی کے اسباب میں چند ایک نمایاں ہیں مثلاکتنے طلبہ امتحان میں فیل ہو
جانے کی وجہ سے اپنے آپ کو مارلیتے ہیں کتنے لوگوں کو کا رو بار کا خسارہ
برداشت نہیں ہوتا ٹینشن میں آکروہ خود کو قتل کرلیتے ہیں کتنے لوگ قرض لے
لیا کرتے ہیں اور جب ادا نہیں کر پاتے تو اپنے آپ کو بچانے کیلئے خود کشی
جیسا جرم اپنا لیتے ہیں بے شمار جگہوں میں ساس کی باتوں ٹاپوں اور اس کے
زہریلے کلمات سے تنگ آکر بہو خود کو جلا لینے میں عافیت سمجھتی ہے بیٹا
اپنے والد کی ڈانٹ سرزنش اور پھٹکار سے عاجز آکر خود کو خاکستر کر
لیتاہے۔محبوب کی جدائی سے پریشان حال محبوبائیں اونچی اونچی عمارتوں سے کود
کر خود کشی کر لیتی ہیں میڈیااور ولی وڈاورہولی وڈ کے ایکٹروں کی فلموں اور
ڈراموں میں خود کشیاں دینی علم سے دوری غربت اور معاشی تنگی گھریلو
جھگڑیعشق میں ناکامی ان کے علاوہ اس طرح کے اور بے شمار حالات ہیں جو خود
کشی کی وجہ بنتے ہیں آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شریعت اس بارے کیا کہتی ہے۔
سورت بقرہ میں اﷲ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے کہ :اﷲ تعالیٰ ہمیں خیر و شر
دونوں پہلووں سے آزماتا ہے یعنی کبھی خوشی دے کر آزماتا ہے تو کبھی غم میں
مبتلا کرکے آزماتا ہے کبھی مصائب وآلام سے دو چار کرتا ہے تو کبھی دنیا کے
وسائل سے بہرہ ور کرکے ،کبھی صحت و فراخی کے ذریعے تو کبھی تنگی و بیماری
کے ذریعے کبھی تونگری دے کر تو کبھی فقرو فاقہ میں مبتلا کرکے اور ان سارے
حالات میں صبر کر نے والوں کے لیے اﷲ کے انعامات اور جنت کی بشارت ہے۔گویا
ان پریشانیوں کے مقابلے کا سب سے اہم ہتھیار صبر ہے اور جو صبر کو چھوڑ کر
خود کشی کو اختیار کرتا ہے اﷲ کے ہاں یہ بندہ حرام اور ناراضگی خداوندی کا
مرتکب ہو جاتا ہے۔خود کشی ایک حرام عمل ہے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ
جب اس پر کوئی مصیبت معاشی مصائب یا بیماری کی صورت میں نازل ہو جائے تو وہ
خودکشی کر کے اپنے آپ کو اس مصیبت سے نجات دلائے۔اﷲ تعالیٰ نے کئی ایک
مقامات میں اس کی حرمت کا اعلان کیا ہے:
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے
شک اﷲاِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے(البقرۃ:۱۹۵)
اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲتم پر مہربان ہے اور جو کوئی
زیادتی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں
گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے۔(النساء :۲۹۔۳۰)
امام فخر الدین رازیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
(اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو)۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے
اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔
صحیح بخاری (۵۴۴۲)میں مروی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو زہر دے کر ہلاک
کرتاہے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرتا ہے تو اسے یوم حشر تک اسی طریقہ سے
سزا دی جائے گی۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا:جس
شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس
میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر
اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ
دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ
کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ
دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے
گا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا:جو شخص
اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی (ہمیشہ)
اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں
پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص
اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا
رہے گا۔صحیح بخاری (۱۲۹۹)
حضرت جندب بن عبد اﷲؓسے متفق علیہ حدیث مبارکہ مروی ہے کہ نبی اکرم ؐنے
فرمایا:تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی زخمی ہو گیا۔ اس نے بے قرار ہوکر
چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ
مرگیا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر
سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔صحیح بخاری(۳۲۷۶)
حضرت حسن بصریؒ حضرت جندب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے
فرمایا:پچھلی امتوں میں سے کسی شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا، جب اس میں
زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس
پھوڑے کو چیر ڈالا جس سے مسلسل خون بہنے لگا اور نہ رکا۔ اس کی وجہ سے وہ
شخص مر گیا۔ تمہارے رب نے فرمایا: میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔صحیح
مسلم(۱۱۳)
دورانِ جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہی ہے صحیح بخاری (۳۹۷۰) میں ہے
حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں:ایک غزوہ (غزوہ خیبر) میں نبی اکرمؐ اور
مشرکین کا آمنا سامنا ہوا اور فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت)
ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی
بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے
تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اﷲؐ!آج
جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ آپ ؐ نے فرمایا: وہ
تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون
ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی
غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی
زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر
رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں
اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے نبی اکرم ؐ کی بارگاہ میں حاضر
ہوکر عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ آپ ؐنے
دریافت فرمایا: بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ
ؐنے فرمایا: بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ
دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ
لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ
جنتی ہوتا ہے۔
خود کشی کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ رحمتِ عالم ؐکے اِس عمل مبارک سے
ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے سراپا رحمت ہونے کے باوُجود خودکشی کرنے والے کی نمازِ
جنازہ نہیں پڑھائی۔حضرت جابر بن سمرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ کے
سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا، پس آپ ؐ
نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔صحیح مسلم(۹۷۸)دیگر مسلمانوں نے اس کی
نماز جنازہ پڑھ کر اسے دفن کر دیا۔
رسول اﷲؐ نے فرمایا:جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب پر قسم کھائے گا (کہ اگر
میں نے فلاں کام کیا تو میں نصرانی ہوں یہودی ہوں )تو وہ ایسا ہو جائے گا
جیسے کہ اس نے کہا اور کسی انسان پر ان چیزوں کی نذر صحیح نہیں ہوتی جو اس
کے اختیار میں نہ ہو اور جس نے دنیا میں کسی چیزسے خودکشی کر لی اسے اسی
چیزسے آخرت میں عذاب ہوگا اور جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی تو یہ اس کے
خون کرنے کے برابر ہے اور جو مسلمان کسی مسلمان کو کافرکہے تو وہ ایسا ہے
جیسے اس کا خون کیا۔صحیح بخاری (۶۰۴۸)
اسلام میں ایک انسانی قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا
ہے لہذا اپنی جان اور دوسروں کی جان بہت قیمتی ہے اسے خود اپنے ہاتھوں سے
ختم کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔
اور اکثر نو جوان اس خود کشی کا ارتکاب محبت کے نام پر کرتے ہیں کیا ایک
مسلمان کو ایسی محبت کی اجازت بھی ہے جس کا رونا آج لوگ روتے روتے اپنی جان
سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہ محبت ہی کیا جو جینے کا حق ہی نہ دے اوروہ تعلیم
ہی کیاجو مرد وزن کو صرف مرنے کے طریقے سیکھائے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
کاش۔۔!ہمارا معاشرہ بے پردگی اور مخلوط تعلیم سے تائب ہو جائے تو کبھی بھی
سربازار محبت کے نام پر خود کشیاں نہ ہوں ،کسی باپ کی پگڑی نہ اوچھالی جائے
،کسی ماں کا آنچل نہ گرایا جائے اور نہ ہی کسی ہوٹل میں کوئی غیرمحرم کے
ساتھ خون میں لت پت پایاجائے۔
والدین نے بیٹی،بیٹے کو دن رات کی ان تھک محنت اور پائی پائی جوڑ کر اعلی
تعلیم کے حصول کے لیے بھیجا تھا مگر ہمارے مخلوط تعلیمی نظام نے جو
یہودوہنود کا تیار کردہ نظام کوایجوکیشن سسٹم تھا ہماری نسلوں کو برباد
کردیا۔
بچوں کے شاہین اقبال نے غیروں کی تہذیب اپنانے والوں کے لیے اسی لیے نصیحت
کرتے ہوئے کہا تھا:
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیّت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف
فرنگی نظام صنف نازک کو اس کی نسوانیت سے محروم کرکے حیا باختہ اور آوارہ
بناتا ہیجبکہ اسلام مرد وزن کے بے حجابانہ اختلاط کو انسانی معاشرہ کے لئے
تباہ کن قرار دیتا ہے، اس سے شرم وحیاء کا جنازہ نکلتا ہے، بدکاری اور بے
حیائی کی راہ ہموار ہوتی ہے، نصاب اور ماحول کو مخلوط بنانے کے نتیجے میں
اخلاقی بگاڑ نے نہ صرف مغرب کے معاشرتی نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے بلکہ اس
اختلاط نے مسلم مالک میں بھی اخلاقی گراوٹ کے اضافے ،اساتذہ کے عزت واحترام
میں کمی ،دینی اقدار کی تضحیک اور ثقافتی اقدار کے مٹانے کی رفتار میں
اضافہ کردیا ہے ۔ہم اسلامی ملک میں رہتے ہوئے بھی ایسے مخلوط نظام کو
اپنانے پر مجبور ہیں جس نے ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی ،آوارگی اور
محبت کے نام پر خود کشیوں پر مجبور کر دیا ہے ۔
حالانکہ مغرب کے برعکس ہماری اپنی تہذیب ہے جو ہمیں جینے ،مرنے اور محبت
ونفرت کے سب اصول سیکھاتی ہے۔ کاش.! ہم اپنی تہذیب کو حقیقتا اپنائیں رائٹ
لیفٹ کے چکروں کو چھوڑ کرسچے مومن بنیں۔کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ہماری
قیادت ہو گی اور جنت ہمارا آخری گھر ہوگا۔ |