بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کی جانب سے اس سکیم کیلئے 20
کروڑ کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت 18 سے 45 سال تک کی بیواؤں سے
شادی کرنے پر 2 لاکھ ملیں گے،مدھیہ پردیس ریاست کی حکومت یہ سمجھتی ہے اس
اقدام کے ذریعے بیوہ خواتین کی دوبارہ شادیوں کو فروغ حاصل ہوگا اس سکیم کے
تحت سالانہ ایک ہزار افراد مستفید ہوسکیں گے یہ اقدام بھارتی پریم کورٹ کی
جانب سے حکومت کو بیوہ خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کرنے کا حکم
جاری ہونے کے بعد اٹھایا گیا ہے ،اقوام متحدہ کے زیراہتمام 23جون کوبیواؤں
کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے تاکہ بیوہ عورتوں کے ساتھ نارواسلوک کی مزمت
اورحسن سلوک کو فروغ دیا جاسکے ،اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے
بہت سے خطوں میں اب بھی بیوہ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے، جب
کہ زمانہ قدیم میں فرسودہ روایات کی پیروی کرتے ہوئے بیوہ عورت کو اُس کے
مرے ہوئے شوہر کے ساتھ ہی زندہ جلا دیا جاتا یا زمین میں دفن کر دیا جاتا
تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس انسانیت سوز رسم کا خاتمہ ہوگیا اسلام نے
جہاں پر عام خواتین کے حقوق کی پاسداری کی وہاں بیواؤں سے اچھے سلوک کی
تلقین کی ہے آئیے میں آپ کے سامنے اسلامی معاشرہ کی بیوہ عورتوں سے متعلق
فرمانِ نبوی اورکچھ تصاویر پیش کرتاہوں،حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت
ہیکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : بیواوں اور مسکین کی خبر گیری کرنے
والا ، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ،یہ ہی نہیں اسلام نے بیوہ
کو وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا ہے ،حضرت سعد بن الربیع رضی اﷲ عنہ کی بیوہ
خدمت نبوی میں حاضر ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع
کی ہیں جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے ہیں ، اب انکے چچا انکا حق
لے لینا چاہتے ہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے چچا کو بلا کر
فرمایا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی حصہ دو اور انکی بیوہ کو آٹھواں
حصہ اور اسکے بعد جو بچے وہ تمہارا ہے،فرمودات نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
عملی تصاویر پر غور کریں ،سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا جنابِ سیدنا
جعفر طیار رضی اﷲ عنہ کی زوجیت میں تھیں غزوہ موتہ میں حضرت طیار رضی اﷲ
عنہ شریک ہوئے اور سیدہ اسماء اپنے پیارے شوہر حضرت جعفر طیار رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہیں،بچوں کو بھی تیار کردیا ہوا ہے،آہٹ
کی آواز سنائی دیتی ہے لیکن یہ جعفررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نہیں بلکہ نبی پاک
صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ِ مبارک ہے،اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا انداز سے ہی
سمجھ جاتی ہیں کہ ان کے زندگی کے ہم سفر،ہجرت کے ساتھی اور پیارے شوہر جعفر
طیاررضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان سے بچھڑ چکے ہیں یہی معاملہ ہمارے معاشرے میں
ہوتا تو حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو پوری زندگی بچوں کے ساتھ تنہا
حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا لیکن وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم تھے،وہ کیسے جناب جعفر
طیاررضی اﷲ عنہ اہل کو بے یارومددگار چھوڑ سکتے تھے ،یارِغارولی کامل خلیفہ
اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انھیں اپنی زوجیت میں لے لیا
اور بچوں کو باپ جیسی گھنی شفقت اور محبت میسر آگئی،اﷲ تعالیٰ نے جناب صدیق
کو سیدہ اسماء کے بطن سے ایک بیٹا بھی عطاکیا ،سیدہ عاتکہ رضی اﷲ عنہا کا
پہلا نکاح حضرت عبداﷲ بن ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوا،آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہابہت خوبصورت تھیں اور اس جوڑے کی محبت عرب میں مثال بن گئی۔حضرت عبداﷲ
بن ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک دن وفورِ محبت میں ان سے عہد لیا کہ
اگر میں تمھاری زندگی میں وفات پاگیا تو دوسرا نکاح نہیں کروگی۔پھر حضرت
عبداﷲ بن ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ بعد شہید ہوگئے لیکن اس
معاشرے میں بیوہ خاتون کو تنہا چھوڑنے کی مثال محیر العقل تھی،اس لئے بڑوں
کو سمجھانے پر نکاحِ ثانی کے لئے راضی ہوگئیں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
جو آپ کے چچا زاد بھائی بھی تھے،نے حضرت عاتکہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے
نکاح میں لے لیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی شہید ہوگئے
عدت پوری ہونے کے بعد عشرۂ مبشرہ صحابی حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا اور حضرت عاتکہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان کے نکاح
میں آگئی ،مندرجہ بالا امثال سے مدنی معاشرہ کا حسن ومحبت واضح ہوتی ہے
اسلام نے حضرت انسان کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں معاونت کی ہے دنیا کو
انسانی تعمیر ،معاشرتی تعمیر ،عدل وانصاف اورسیاست وامامت کے لیے اﷲ تعالیٰ
کے نازل کردہ شارح کی تشریح پر مبنی کتاب وسنت کا مطالعہ کرنا چاہیے اوراسے
لوگوں کی زندگی میں نافذکرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں اس سے امن وسکون
کی فضا بحال ہوگی تنگ نظری ،انتہاپسندی اورجہالت کا خاتمہ ہوگا یقینا ہم
ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے جہاں بیوہ اورمطلقہ عورت
اپنی زندگی عزت کے ساتھ گزار سکے گی ،ہم ایسا معاشرہ تعمیر کرنے میں کامیاب
ہوجائیں گے جہاں بیوہ یامطلقہ پر کوئی تنقید کرنے والا اور طعن تشنیع کرنے
والا نہیں ہوگا،جبکہ مغربی اورصہیونی معاشروں میں بیوہ یا مطلقہ عورتوں بے
تحاشا مسائل ہیں ،ضروری ہے کہ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ہم بیوہ اورمطلقہ
عورتوں یکساں حقوق فراہم کریں پاکستان میں ایسے گھرانوں کے لیے بینظیر انکم
سپورٹ پروگرام متعارف کروایا گیا ہے اورمتعدد خود کارصلاحیتوں کے حامل
سنٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مراکز کے
اند ر شفافیت کو یقینی بنائے جائے تاکہ مستحق افراد کی مناسب دلجوئی یقینی
ہوسکے ،عورت عزت وعظمت کا مینارہ ہے ہر مرد عورت کی کوکھ سے جنم لیتاہے
زمین پر بسنے والی ہر فرد پر عورت کی عزت کرنا لازم ہے ۔جومعاشرہ عورت کی
عزت وتوقیر کو پہچان لیتاہے وہ ہی معاشرہ باصلاحیت افراد پیدا کرتے ہے ۔ |