تحریر: بنت عطاء، کراچی
ہر گزرتے دور کے ساتھ نئی نئی ایجادات و سہولیات منظر عام پر آرہی ہیں۔ ہر
چیز کے استعمال کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ اس کے فوائد
بھی بے شمار ہوتے ہیں نقصان بھی بہت ہوتے ہیں۔ مثبت استعمال سے ہم اس کے
فوائد حاصل کرسکتے ہیں جب کہ منفی استعمال ہمیں خسارے سے دوچار کرسکتا
ہے۔سوشل میڈیا کے بھی بے شمار منافع و نقصان ہیں۔ اس کے نقصان کی اگر بات
کی جائیے تو سب سے پہلے یہ وقت کے بے انتہا ضیاع کا باعث بنتا ہے اور ہمیں
احساس بھی نہیں ہوتا ہم اپنا کتنا وقت اس میں گنوا دیتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ اس سے پڑھائی بے حد متاثر ہوتی ہے۔ بچے کو کسی اور چیز کا ہوش
نہیں رہتا دن رات اسی میں مگن رہتا ہے۔ اس سے انسان فضولیات کا عادی ہوجاتا
ہے غیر اخلاقی چیزیں دیکھنے، پڑھنے کو ملتی ہیں۔ فحاشی بے حیائی عروج پر
ہوتی ہے۔ فضول عشقیہ قسم کے اور مرد و عورت کے باہم دوستانہ ماحول جیسے
پیجز، گروپس جوئین کیے جاتے ہیں جہاں ہم غیر ضروری ناجائز کاموں میں پڑ کر
اپنی اور دوسروں کی آخرت برباد کرتے ہیں۔
اس میں محرم و غیر محرم کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ گناہ کی قباحت ختم ہوجاتی
ہے۔ غیر محارم سے دوستیاں انتہائی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ پھر جوان بچے
بچیوں کا گھر سے بھاگ جانا یا خودکشیاں کرلینا، والدین کی عزت کا جنازہ
نکال دینا معمول کی باتیں ہیں۔ دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی دائمی
خسارے کا باعث بن جاتا ہے۔
یہ انسان کو اپنے قریبی رشتوں سے دور اور اجنبی لوگوں سے قریب رکھتا ہے۔
کچھ افراد ایک ساتھ ایک جگہ بیٹھے تو ہوں گے مگر سب کے ہاتھوں میں موجود
موبائل انہیں دوسری دنیا کا باسی بنائے رکھتا ہے۔بدنظری عام ہوجاتی ہے غیر
مناسب چیزیں دیکھنا آنکھوں کا زنا عام ہوجاتا ہے۔ انسان ذہنی طور پر مفلوج
ہوجاتا ہے۔ اسکی سوچ بس اسی حد تک محدود رہتی ہے۔
میں یہ ہرگز نہیں کہتی سوشل میڈیا کا استعمال چھوڑ دیا جائیے میں صرف اتنا
کہتی ہوں کہ اس کا مثبت استعمال کیا جائے۔ آپ کو سوشل میڈیا ہر ایکٹیو رہنا
ہے بالکل رہیے بس اس کے طریقہ کار پر غور کرلیجیے اپنے لیے کوئی متبادل،
مناسب راستہ تلاش کیجیے۔ اس کے برعکس اگر اس کے فوائد کی بات کی جائے تو وہ
بھی کم نہیں۔ اس کے درست استعمال سے ہم اپنے قیمتی وقت کو ضایع ہونے سے روک
سکتے ہیں۔ ہم اس کے لیے وقت مختص کریں کہ ہم اتنا وقت اس کو دیں گے اس سے
زیادہ نہیں۔ اس سے ہم زیادہ سے زیادہ اپنا وقت بچا سکتے ہیں۔اگر ہم طالبعلم
ہیں تو اس کو اپنی تعلیم میں معاون بنائیں اپنی فیلڈ کے مطابق پیجز، گروپس
جوائین کریں ایسے دوست بنائیں جو پڑھائی میں ہماری مدد کریں اس سے آپ کو
علم کا ذخیرہ حاصل ہوگا۔
اگر ہم گھریلو خواتین ہیں مصروفیات کے باعث کہیں پڑھنے کچھ سیکھنے نہیں جا
سکتیں تو ہم آن لائین کورسز کرسکتے ہیں اپنی دنیاوی اور دینی تعلیم جاری
رکھ سکتے ہیں۔ یہ جدید دور ہے ہر سہولت ہمیں گھر بیٹھے با آسانی حاصل
ہوسکتی ہے بس قدم بڑھانے کی دیر ہے۔اگر ہم شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اس
لحاظ سے بھی یہ ہمارے لیے بہت مفید و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ پڑھانا بہت
اچھی بات ہے میں اس سے اختلاف نہیں کرتی لیکن اگر آپ ایک وقت میں پچاس، سو
یا ہزار افراد کے بجائے لاکھوں کروڑوں لوگوں تک اپنی بات پہنچادیں،ان کی
اصلاح کردیں تو میرے خیال سے یہ کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ہم مدارس میں اسکول
کالجز یونیورسٹیز میں پڑھاتے ہیں گھروں میں پڑھاتے ہیں زیادہ سے زیادہ ان
کی تعداد ہزاروں ہوتی ہے لیکن اگر ہم سوشل میڈیا کو اپنی بات آگے پہنچانے
کے لیے پلیٹ فارم بنائیں تو ہماری بات بہت ہی کم وقت میں لاکھوں کروڑوں
لوگوں تک با آسانی پہنچ جائے گی۔
آج ہم پچاس یا سو بچوں کو دینی یا دنیاوی تعلیم دینے میں، ان کی اصلاح کرنے
میں لگے رہتے ہیں جب کہ دوسری طرف غیر ملکی سازشیں اسی سوشل میڈیا کے ذریعے
لاکھوں کروڑوں لوگوں کی بیک وقت ذہن سازی کر دیتی ہیں۔ آج ہمارے بچے بات
غیر ملکیوں کی کرتے ہیں، طرز زندگی ان کا چاہتے ہیں، ان کے کلچر کو پسند
کرتے ہیں، اس پر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اگر ہم میں سے ہر فرد اپنی
استعداد کے مطابق اسی سوشل میڈیا کا درست استعمال کرے تو ہم اپنا کلچر،
اپنی سوچ، اپنا طرز زندگی، اپنے طور طریقے مختصر وقت میں کروڑوں لوگوں تک
با آسانی پہنچا سکتے ہیں۔ اپنا آپ منوا سکتے ہیں۔ اپنے دین کو فروغ دے سکتے
ہیں باطل کو شکست دے سکتے ہیں۔
اگر غیر ملکی اشیاء پر پابندی لگانے کی بات آئے یا انسانیت کا سرعام قتل
عام دیکھنے کو ملے تو ہم حکومت کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔ یہ سوچ کر
اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلادیتے ہیں کہ آخر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں یہ تو
حکومت کے کرنے کے کام ہیں افواج بھیجے، ان کے چینلز ان کی اشیاء پر پابندی
لگائے۔ یہ سوچ کر ہم اپنے فرائض سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں اپنے کرنے کے کام
بھول جاتے ہیں۔ اپنے قلم کے ذریعے اپنی آواذ اٹھائییے سوشل میڈیا کے ذریعے
پوری دنیا تک اپنی آواذ پہنچائییے۔ ہمارا مقصد کم وقت میں بہت بڑا مارجن
حاصل کرنا ہے۔ ہمارا مقابلہ شہروں کی حدود یا سرحدوں تک نہیں ہے ہمارا
مقابلہ بین الاقوامی ہے۔
سوشل میڈیا کے درست استعمال کو سمجھیں ، نفع نقصان آپ کے علم میں ہے اور یہ
نقصان صرف دنیاوی حد تک نہیں بلکہ آخرت کا بھی ہوگا۔ فرمان ربانی ہے’’ جو
کوئی ذرا سی بھی نیکی کرے وہ اس کا اجر پائے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی
کرے گا اس کی سزا پائے گا۔ فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے کہ سوشل میڈیا کا کیسا
استعمال کرنا چاہیے اچھا یا بہت اچھا۔ |