ڈولفن فورس سب سے پہلے متعارف کر انے کا سہر ا تر کی
کے سر جا تا ہے جس نے اپنی فور س کو اس نہج پر تیا ر کیا کہ وہ ان تما م
خصو صیا ت کی حامل تھی جو کہ ایک ڈولفن مچھلی میں پائی جا تی ہے جس کی سب
سے واضح اور اہم خوبیا ں اس کی دانشمندی ،رہنمائی اور دو سروں کی خوشگو ار
ما حول میں امداد کر نا ہے ڈولفن وہ جا نو رہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے ما
حول سے دوسرے ما حول میں ایڈجسٹ کر نے اور اس ماحول کے طو ر طر یقے انداز
اورر مو ز کو سر عت کے ساتھ ایڈپٹ کر نے کی صلاحیت سے مالا ما ل کیا ہوتا
ہے با الفاظ دیگر ڈولفن جا نو ر ہو نے کے باوجو د محافظ کے طور پر اپنا کر
دار اداکر تی ہے اسی چیز کو دیکھتے ہوئے پنجا ب حکومت نے اس تجر بے کو دیگر
تجر با ت کی طر ح پرکھنے کامنصوبہ بنا یا اور تر کی کے اشتراک ،ان کی
معاونت اور تجر با ت کی روشنی میں ڈولفن فورس تر تیب دی گئی اور پھر مطلوبہ
ٹریننگ کے بعدان کے ٹرینڈ دستوں کولاہور کے بعد پنجا ب کے بڑے شہروں
راولپنڈی ،ملتان ، بہاولپور ،گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں پاسنگ آؤٹ کے
بعد تعینات کر دیا گیاہے۔
پنجاب میں ڈولفن فور س کی تعینا تی کا مقصد یہی ہے کہ پولیس پر نااہلی ، بد
عنوانی، کا ہلی و سستی کے ساتھ ساتھ فرائض میں غفلت بر تنے جیسے امور کی جو
چھا پ لگی ہوئی ہے۔ اسے دھو یا جا ئے اور اس فورس کی ترکی اور لا ہور میں
کارکر دگی کو مد نظر رکھتے ہوئے حوصلہ افزا اور عوام دوست نتائج کو سا منے
لا یا جا ئے۔ پو لیس ایک معتبر ،انسان دوست اور ہمدردادارے کے طورپر اپنی
ساکھ، عزت اور وقار کو بحال کر سکے۔ دہشت گر دی، ملک دشمنی ،عوامی وقومی
مفادات کو نقصان پہچانے والے ناسوروں اور عناصر سے نبردآرماہو اجا سکے ۔پس
ان اموراور نتائج کے حصو ل کیلئے ان انسانوں (پولیس مین )کو ڈولفن کا کر
دار نبھا نا ہو گا بصورت دیگر نتائج کی خواہش پرپا نی پھر جا ئے گا ۔ حالا
نکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اشر ف المخلوقات ہے۔ تواس کی دانشمندی
اور علمی اہمیت کا تقاضا یہی ہے کہ ڈولفن کے کر دار کو انسان سے ہٹ کر بھر
پور انداز میں اداکیا جا ئے ۔ مظلوم وبے بس لو گوں کو رہنما ئی دی جا ئے ان
کو تحفظ کا احساس دلایا جا ئے ۔ ظالموں کے سامنے سینہ سپرہو کر کلمہ حق کو
بلند کیا جا ئے ۔ مہم جو ئی کی خصوصیا ت کو با مقصد انداز میں استعما ل میں
لا یا جا ئے۔ چو کیدار اور محافظ کے طور پر اپنا وجو د ظاہر کیا جائے
منوایا جائے نہ کہ ایک سخت خواور خونخو ار سر دار کے طور پر اپنی طاقت کوبے
جا استعما ل کیا جائے، قواعدوضوابط کو ملحوظ خاطر رکھ کر انسانو ں کے ساتھ
معاملا ت کوچلا یا جا ئے۔
گزشتہ روز ملتان میں ہونے والے واقعے نے ڈولفن فورس کی درج بالا خصوصیا ت
کی قلعی کھو ل کر رکھ دی ہے جب انہوں نے روایتی پو لیس والوں سے بھی دو ہا
تھ آگے جا کر عام شہر یو ں کی تلا شی اور چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا جو کہ
انتہائی تذلیل بھر ا اور مضحکہ خیز تھا جس میں شہر یوں کو انکی سواری سے
اتار کر گھٹنو ں کے بل زمین پر بٹھا یا جا تا اور پھر اس کے منہ بازوں اور
دیگر جگہوں پر بھی تلا شی لی جا تی ہے جو کہ بلامبالغہ انتہا ئی نا پسندیدہ
غیر انسانی و غیر اخلاقی عمل تھا ۔میڈیا کے ہائی لائٹ کرنے پر سی پی او
ملتان نے اس پر نو ٹس لیا جس کا نتیجہ تا حال پینڈنگ ہے اور شاید حسب سابق
ہی آئے۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آیا یہ طر یقہ لا ہو ر اور دیگر شہر وں میں بھی
اپنایا جا رہا ہے یا پھر ملتان اور جنو بی پنجا ب کیلئے مخصو ص کیا گیا ہے
کیو نکہ ویسے بھی ہمیشہ سے یہ حکومتی حلقوں بیوروکریٹ اور ارباب اختیار کا
یہ وطیر ہ رہا ہے کہ جنو بی پنجا ب اور اسکی عو ام کو تیسرے درجے کا شہر ی
سمجھا جا تا ہے تیسر ے درجے کی مر ا عا ت و سہو لیا ت دی جا تی ہیں شاید
یہی وجہ ہے کہ ملتان اور جنو بی پنجا ب کی عوام کی جامہ تلاشی اور چیکنگ
کیلئے یہی طر یقہ مختص کیا گیا ہو اسی طریقے پر ان کی تربیت کی گئی ہو ۔اور!
اگر ایسا ہے تو پھر آرپی آو ملتا ن محمد ادریس صاحب کو ڈولفن کے حوالے سے
منعقدہ تقر یب میں اس چیز کو واضح کر نا چا ہئے تھا ۔ ان کے طر یقہ کا ر کو
شیئر اور مشتہر کر نا چا ہے تھا تاکہ عوامی شہری اور سماجی حلقوں میں اسے
بر ا نہ سمجھا جا ئے ۔اور! اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جن اہلکاروں نے یہ طر
یقہ اپنا یا ان کے خلا ف سخت کا روائی عمل میں لا ئی جا ئے تا کہ آئندہ سے
ایسی پر یکٹس کو نہ دہر ایا جا سکے اورڈولفن فورس کا جو امیج عوام کے ذہنوں
میں ابھارا گیا ہے اسے بحال رکھا جاسکے اور ان پر چیک اینڈ بیلنس انتہائی
ضروری ہے کیونکہ عرصہ دراز سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کے خواہاں بہت سے پولیس
افسر اور ملازمین خود ہی تبدیل ہوگئے ہیں لہذا ڈولفن فورس کو اپنی جون میں
رکھنے کیلئے ازحد ضروری ہے کہ ان کو الگ سے سیٹ اپ کے تحت چلایا جائے ۔ |