دولت کی حرص و حوس ابتدا سے ہی
انسانی معاشرے کا حصہ ہے ،اس کے لیے انسان جائزو ناجائز تمام وسائل اختیار
کرنے کی کوشش کرتا ہے شاید اسی لیے دولت جمع کرنے کی مذمت میں قرآن مجید نے
بہت سی آیات میں سخت تنبیہات فرمائی ہیں۔دولت کے حصول کی خواہش بعض اوقات
انسان کو ایسے راستوں پر ڈال دیتی ہے جہاں وہ اپنی حیثیت اور اپنے مقام سے
بڑھ کر ایسے کام کر بیٹھتا ہے جو قانون واخلاقیات میں جرم کے نام سے پہچانے
جاتے ہیں۔انسان سوچتا ہے کہ دولت جمع ہوجانے سے اس کے تمام مسائل حل
ہوجائیں گے،کل مشکلات آسان ہو جائیں گی اور ہر قسم کی پریشانیوں کا مداوا
ممکن ہوسکے گا، دنیا کے پیمانوں میں اگرچہ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے
لیکن حقیقت یہ ہے دولت بہت سی قباحتیں بھی اپنے ہمراہ لاتی ہے اور بعض
اوقات تو دولت کی دراندازی سے انسان کا کل امن و سکون غارت ہو جاتا ہے اور
انسانی معاشرہ دولت کی پوجا میں ایسی دوڑ کے اندر شریک ہو جاتا ہے جو انسان
کی موت کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اور بالآخر جہنم کا گڑھا اس کا مقدر بنتا
ہے ۔دولت کی پیاس ختم کرنے کا ایک ناجائز ذریعہ ”چوری“ بھی ہے جس میں انسان
دوسرے کے مال کو اپنی ملکیت میں لینے کی قبیح حرکت کرتا ہے، اس عمل کو کل
آسمانی مذاہب نے جرم گردانا ہے۔
شریعت اسلامیہ میں چوری کے عمل کو”سرقہ“کا نام دیا گیا ہے اور اسکی سزا خود
قرآن مجید نے مقرر کی ہے جو بطور حق اﷲ تعالیٰ نافذ کی جاتی ہے جبکہ ایسی
سزاؤں کو ”حدوداﷲ “کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید
کی سورة المائدہ آیت نمبر38,39 میں فرمایا کہ”اور چور خواہ مرد ہو یا عورت
دونوں کے ہاتھ کاٹ دو،یہ ا ن کی کمائی کا بدلہ ہے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے
عبرت ناک سزا۔اﷲ تعالیٰ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔ پھر
جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اﷲ تعالیٰ کی نظر
عنایت پھر اس پر مائل ہو جائے گی،اﷲ تعالیٰ بہت درگزر کرنے والا اور رحم
فرمانے والا ہے“۔ ان آیات میں اﷲ تعالی نے جہاں چوری کے خلاف اپنے شدید غصے
کا اور غضب کا اظہار کیا ہے وہاں چور اور چورنی کے لیے سزا کا بھی اعلان
کیا ہے۔اس کے علاوہ بھی سورة ممتحنہ آیت 12میں اﷲ تعالی نے فرمایا کہ”اے
نبی ﷺ جب آپ کے پاس مومن عورتیں بیعت کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں
کہ وہ اﷲ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی۔ چوری نہ کریں گی، زنا نہ
کریں گی،اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی ،اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان
گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی،تو
ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو یقیناََ اﷲ تعالی درگزر
فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے“۔گزشتہ شریعتوں میں بھی چوری قابل سزا
جرم رہا ہے چنانچہ سورة یوسف میں اﷲ تعالی نے بتایا کہ حضرت یوسف علیہ
السلام کی شریعت میں چور جس کی چوری کرتا تھا پھر اسکی غلامی کرتا تھا۔
اسلامی شریعت میں ”کسی کا قیمتی مال حرز سے نکال کر لے جانا بغیر کسی حق
ملکیت یا اسکے شبہ کے سرقہ کہلاتا ہے“اور سرقہ کرنے والے کا دایاں ہاتھ کاٹ
دیا جاتا ہے۔ چوری کے مال کی کم سے کم مالیت ”نصاب“کہلاتی ہے،چنانچہ نصاب
کے بقدر یا اس سے زائد مال کی چوری ہو گی تو حد سرقہ کی پہلی شرط پوری ہو
جائے گی۔ چوری کے مال کا قیمتی ہونا ضروری ہے مختلف فقہاء کے ہاں اس کی
مختلف قیمتیں متعین کی گئیں ہیں تاہم کم از کم دس درہم پر جمہور علماء کا
اتفاق ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسے ایک قول مروی ہے کہ اگر چوری
چوتھائی دینار کے برابر ہو تو اس پر حد جاری ہو گی،دوسری روایت میں پانچ
درہم کی قیمت بھی بیان کی گئی ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ رسول
اﷲﷺ اور حضرات ابوبکروعمر کے زمانے میں ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جاتا
تھا، پوچھا کہ ڈھال کی کیا قیمت ہوا کرتی تھی تو حضرت انس رضی اﷲ تعالی عنہ
نے جواب دیا کہ پانچ درہم۔ ایک اور روایت ہے کہ ایک چور نے کپڑا چرایا تو
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جس
پر اعتراض کیا گیا کہ اس کپڑے کی مالیت دس درہم سے کم ہے چنانچہ حضرت عثمان
رضی اﷲ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ اس کپڑے کی مالیت کااندازہ لگائیں جو آٹھ
درہم بتایا گیا،اس پر حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم واپس
لے لیا۔اسلامی شریعت کا ایک مصدقہ اصول ہے کہ بعد والا حکم ناسخ ہوتا ہے
اور پہلے والے فیصلے کو منسوخ کردیتا ہے چنانچہ نصاب کے بارے میں اگرچہ بہت
سے اقوال ہیں لیکن دس درہم پر اکثریت کا اتفاق ہے کیونکہ خلافت راشدہ کے
آخری زمانے میں اسی پر تعامل رہا۔ دس درہم کی فی زمانہ جو قیمت ہوگی وہ وقت
کے لحاظ سے اس زمانے میں چوری کا نصاب ہوا کرے گی۔
”حرز“حد سرقہ کی دوسری شرط ہے۔”حرز“سے مراد وہ کم سے کم انتظامات ہیں جو
مال کی حفاظت کے لیے کیے گئے ہوں۔ بغیر کسی حفاظتی تحویل کے موجود مال یا
سازوسامان کے ہتھیا لینے پر حد سرقہ جاری نہیں کی جائے گی۔حرز کا تعین عرف
و رواج کے مطابق ہوگا کیونکہ دیہاتوں میں معمولی اور چھوٹی دیوار کو بھی
ملکیت کے ثبوت کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے جبکہ شہروں میں اس سے زیادہ
انتظام کی ضرورت ہوتی ہے،جانور کو باندھنا اور دیگر سواریوں کو تالا لگانا
حرز ہوتا ہے، بصورت دیگر سازوسامان اور مال کو لاوارث سمجھ لیا جاتا ہے۔
مکان کی چار دیواری حرز ہے اور اس سے مال نکال کر لے جانا سرقہ کی ذیل میں
آتا ہے،کھونٹے سے بندھی ہوئی کشتی اور جانور اور تالا لگی سواری بھی حرز کے
اندر شمار ہوں گے اور انہیں کھول کر لے جانے والا سرقہ کا مرتکب سمجھا جائے
گا۔ مالک کی نظر میں موجود شے بھی حرز میں سمجھی جاتی ہے جیسے ایک شخص کی
سواری گھاس چر رہی ہو اور کسی کھونٹے سے بندھی نہ ہو لیکن مالک نے اس پر
نظر رکھی ہو تو اس سواری کو لے جانے والا حد سرقہ کا مرتکب سمجھا جائے گا۔
سونے والے کے نیچے دبی ہوئی چیز بھی حرز میں ہوگی لیکن قبر حرز نہیں ہوگی
اور کفن نکالنے والا حد سرقہ کی ذیل میں نہیں آئے گا کیونکہ مردہ مالک بننے
کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کھلے ہوئے جانور، کھلی
ہوئی سواریاں اور عام سڑکوں، چوراہوں اور ویرانوں پر موجود سازوسامان و مال
و اسباب پر ناجائز قبضہ کرنے والے حد سرقہ کے اگرچہ مرتکب نہیں ہوں گے تاہم
انہیں کوئی تعزیر دی جا سکے گی جو حد سرقہ یعنی ہاتھ کاٹنے سے شدید تر بھی
ہو سکتی ہے۔
شور مچانے پر اگر چور سامان چھوڑ کر بھاگ جائے تو فبہا اور اگر مزاحمت کرے
تو اس کے خلاف جوابی کاروائی کرنا جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے
ایک قول منقول ہے کہ چور کو خوفزدہ کرو مگر پکڑو نہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ ہی کے زمانے میں حاطب بن ابی بلتعہ ؓ اپنے غلاموں کو کھانے کو
نہیں دیتے تھے جس پر ان غلاموں نے ایک شخص کی اونٹنی ذبح کر کے کھا لی،حضرت
عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے غلاموں کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے ان کے آقا حاطب بن
ابی بلتعہ ؓ سے اونٹنی کی قیمت سے دوگنا تاوان وصول کیا۔ قحط کے زمانے میں
ایک شخص حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس اونٹنی کی چوری کی شکایت لایا
کہ اس کی اونٹنی چوری کر کے ذبح کر لی گئی تھی، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے اسے دو اونٹنیاں دے دیں اور ساتھ کہا کہ ہم قحط کے زمانے میں حد سرقہ
جاری نہیں کیا کرتے۔ شبہ کے مال سے چوری کرنے پر بھی حد جاری نہیں ہوگی
جیسے دس آدمی کچھ مال کے مشترک مالک ہیں اور ان میں ایک آدمی اس مال کا کچھ
حصہ چوری کرلیتا ہے تو اس پر حد سرقہ جاری نہیں کی جا سکے گی کیونکہ اس مال
میں اس کے حصے کا بھی حق شبہ تھا۔ مال چھیننے والے پر حد سرقہ جاری نہیں ہو
گی کیونکہ وہ چوری نہیں ہے اور اگر راستہ روک کر مال چھینا گیا ہے تو حد
حرابہ جاری ہوگی،اسی طرح امانت میں خیانت کرنے والے پر اور عاریتاَ َچیز لے
کر واپس نہ کرنے والے پر بھی حد سرقہ جاری نہیں ہو سکے گی اور یہ لوگ تعزیر
کے مستحق ہوں گے۔ بعض فقہا سبزیوں اور پھلوں کے کھا لینے کو اور جانوروں کے
دودھ دوہ کر پی لینے کو بھی چوری نہیں سمجھتے لیکن یہ کہ صرف کھانے پینے کے
بقدر ہی لیے گئے ہوں یعنی مسافر دوران سفر کسی باغ سے بغیر اجازت پھل توڑ
کر کھا لے یا بغیر اجازت جانور کا دودھ دوہ کر پی لے تو حد سرقہ جاری نہیں
کی جائے گی لیکن اگر کپڑے اور برتن بھر بھر کر لے جانے لگیں تو پھر جملہ
شرائط پوری ہونے پر پھلوں اور سبزیوں اور جانوروں کے دودھ چوروں پر بھی حد
جاری ہو گی۔ چور کے پاس سے چوری کا سامان برآمد ہوجائے تو اسے مالک کو واپس
کردینا لازم ہے۔ سامان کی برآمدگی، اقرار جرم اور گواہان چور کا جرم ثابت
کرنے کے طریقے ہیں۔
یورپی تہذیب کی ناروا تقلید میں اسلامی شریعت کی سزائیں نافذ نہ ہونے کے
باعث آج چوری ایک فن اور پیشہ بن چکا ہے،افراد سے لے کر ادارے تک اس
گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں اور چوروں کے منظم گروہ ہیں جو مقامی سطح سے بین
الاقوامی سطح تک باہم مربوط ہیں اور بعض مقامات پر تو اس قدر طاقتور ہیں کہ
وہاں کی حکومتیں بھی بے بس ہیں اور بے بس کیوں نہ ہوں کہ مغربی جمہورہت کی
بہت ساری قباحتوں میں ایک قباحت یہ بھی ہے تیسری دنیا میں جرائم پیشہ لوگ
اس یورپی تہذیب کے مکروہ تحفے کے باعث بڑی آسانی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ
جاتے ہیں اور پھر اپنے ہم پیشہ افراد کے لیے تحفظ کا سامان فراہم کرتے ہیں
اور اقوام کی اقوام اور بھری آبادیوں کے شہر کے شہر ہیں جو اس طرح کے جرائم
پیشہ چوروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے انسانیت کا جینا
محال کر رکھا ہے اور ”انسانی حقوق“کے دعوے دار انہیں اس طرح کی سزاؤں سے
بچانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلامی شریعت کی تجویز کردہ
سزائیں ہی انسانیت کو جرائم کی اس دلدل سے نکالنے کی ضامن ہیں اور آفاقی
قوانین ہی انسانیت کے بہترین خیرخواہ ہو سکتے ہیں جن میں تمام طبقات کے لیے
فوز و فلاح کی ضمانت موجود ہے۔ |