آج ہمیں اپنے اردگرد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی
حد تک ڈپریشن کا شکار نظر آتی ہے- تاہم یہ ڈپریشن کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا
ہے؟ اس بارے میں لوگوں کو بہت کم علم حاصل ہے- جی ہاں اگر ڈپریشن کا بروقت
علاج نہ کروایا جائے تو یہ خودکشی کرنے کا سبب بھی بن جاتا ہے- ڈپریشن کیا
ہے؟ اس کی علامات کیا ہیں؟ اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟ ان تمام سوالوں کے
جوابات جاننے کے لیے ہماری ویب کی ٹیم نے معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اقراﺀ
ناز سے خصوصی ملاقات کی اور ان سے اہم معلومات حاصل کی جو کہ اب قارئین کی
خدمت میں پیش ہے:
ڈاکٹر اقراﺀ کہتی ہیں کہ “ ڈپریشن ہمارے سامنے کئی طریقوں سے آتا ہے٬ جیسے
کہ اکثر لوگ ہمارے پاس صرف سر درد کی شکایت لے کر آتے ہیں لیکن مکمل سوال و
جواب اور معائنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں“-
|
|
“ اکثر لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں کام کرنا پڑا تو ہم
ڈپریشن میں آگئے لیکن یاد رکھیں کہ ڈپریشن صرف دو دن کے لیے نہیں ہوتا بلکہ
اس کا ایک دورانیہ ہوتا ہے- اور ایک ماہرِ نفسیات ہی سوال و جواب کے ذریعے
جان سکتا ہے کہ آپ کو ڈپریشن ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو کس قسم کا ہے“-
“ ڈپریشن کی چند علامات ہوتی ہیں جیسے کہ مریض کو نیند یا تو کم آتی ہے یا
پھر بہت زیادہ٬ اسی طرح بھوک نہیں لگتی یا پھر بہت زیادہ لگتی ہے- اس کے
علاوہ مریض کا کسی کام میں دل نہیں لگتا٬ وہ اکتاہٹ کا شکار رہتا ہے٬ لوگوں
سے بھی ملنا جلنا پسند نہیں کرتا اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی
اندھیرے میں کمرے میں تنہا بیٹھا رہے“-
“ یہ لوگ نہ دفتری عملے سے بات چیت کرتے ہیں٬ نہ معاشرے کے دیگر افراد سے٬
یہاں تک گھر والوں سے بھی کوئی بات نہیں کرتے“-
ڈاکٹر اقراﺀ کا مزید کہنا تھا کہ “ ہمیں چاہیے کہ اگر ہم اپنے اردگرد کسی
شخص میں ایسی علامات دیکھیں تو فوراً اسے ماہرِ نفسیات کے پاس لے کر جائیں
تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ کس نوعیت کے ڈپریشن کا شکار ہے؟ ڈپریشن کی
علامات سے اس کے دورانیے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے- اگر ڈپریشن شدید ہو تو
مریض کو علاج کے لیے اسپتال میں داخل بھی کیا جاسکتا ہے“-
|
|
“ اگر ڈپریشن کے مریض کا بروقت علاج نہ کیا جائے اور اس کا دورانیہ بڑھ
جائے٬ مریض پہلے سے زیادہ اداس رہنے لگے اور پہلے سے دو گنا یا تین گنا
زائد وقت تنہائی میں گزارنے لگے تو وہ خودکشی بھی کرسکتا ہے-
“اسے خیالات کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے- اس کے خیالات میں
اضافہ ہونے سے وہ ڈپریشن کی ایسی قسم میں بھی داخل ہوسکتا ہے جس میں آوازیں
آنے لگتی ہیں کہ تم اپنے آپ کو ختم کرلو- اس دوران میں ڈپریشن کے مریض کے
خیالات اس حد تک مضبوط ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہ اسے خودکشی کرنے پر مجبور
کردیتے ہیں“-
“ ہم اکثر خودکشی کے واقعات کے بارے میں سنتے ہیں اور اگر ہم تھوڑی سی کوشش
کریں اور خودکشی کرنے والے شخص کے اہلِ خانہ سے بات چیت کریں تو ہمیں معلوم
پڑے گا کہ خودکشی کرنے والا گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل دباؤ کا شکار چلا آرہا
تھا“-
ڈاکٹر اقراﺀ یہ بھی بتاتی ہیں کہ “ ڈپریشن صرف بڑوں کو ہی نہیں بلکہ بچوں
اور نوجوانوں کو بھی ہوسکتا ہے- بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اگر وہ طالبعلم
ہیں تو ان میں یہ دباؤ مستقل ہے یا کہ عارضی- اور اگر بچوں میں بھی یہی
علامات پائی جاتی ہیں تو انہیں بھی علاج کی ضرورت ہے- اور اگر ڈپریشن شدید
ہوتا ہے تو انہیں اسپتال میں داخل بھی کروایا جاسکتا ہے اور وہاں ان کا
علاج دواؤں اور تھراپی کی مدد سے کیا جاتا ہے“-
|
|
“ تاہم اگر علامات کم ہیں تو آپ گھر پر بھی کوشش کرسکتے ہیں جیسے کہ ایک
ورزش ہوتی ہے کہ خود کو ماضی یا مستقبل کے بجائے حال میں موجود رکھیں-
دراصل ہم انسان ہیں اور ہماری کچھ سوچیں ہوتی ہیں جو کہ زیادہ تر اپنے ماضی
یا پھر اپنے مستقبل کے حوالے سے ہوتی ہیں- لیکن یہاں آپ خود کو حال میں
ظاہر کریں گے“-
“ اس کے لیے چند ورزشیں ہیں جو سننے میں تو مضحکہ خیز لگتی ہیں لیکن حقیقت
میں انتہائی کارآمد ہیں- جیسے کہ پانی کو محسوس کر کے پئیں- دراصل ہمیں
پانی پیتے ہوئے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں لیکن
جب ہم پانی محسوس کر کے پئیں گے تو ہمیں یہ بھی پتہ چلے گا کہ پانی کہاں
جارہا ہے“-
“ اس کے علاوہ کمرے کے درجہ حرارت کو محسوس کریں- ایسی چھوٹی چھوٹی
سرگرمیاں اختیار کریں جو جلد مکمل ہوجائیں- طویل منصوبے نہ بنائیں بلکہ
مختصر کام کریں اور طے کرلیں آج میں صرف اتنا کام مکمل کرلوں گا- اس کام کے
لیے خود کو شاباشی بھی دیں- ناک کے ذریعے گہرے سانس لیں اس طرح آپ خود کو
پرسکون محسوس کریں گے“-
|
|
ڈاکٹر اقراﺀ کا آخر میں کہنا تھا کہ “ صحت مند دماغ کے لیے ورزش انتہائی
ضروری ہے اس کے لیے علیحدہ وقت نکالیں- دن بھر کے کام کو ہرگز ورزش نہ
سمھجیں- صرف 10 سے 15 منٹ اپنے لیے ضرور نکالیں“-
“ آپ کو اپنے جذبات٬ احساسات اور مزاج کے بارے میں بہت کچھ سمجھ آئے گا-
انسان کی شخصیت ان سب چیزوں سے مل کر بنتی ہے اور جب آپ اس کے بارے میں
سمجھ جائیں گے تو خود کو بہتر انداز میں دوسروں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں“- |
|
|