اقتدار کی ہوس نے ہمارے حکمرانوں کو اس قدر مخبوط
الحواس کر دیا ہے کہ تمام تر آئینی، ملی ، اخلاقی اور حتیٰ کہ نظریاتی
اقدار کوبھی روندتے ہوئے بات بالآخر ختم نبوت جیسے مقدس ، حساس ترین اور
مسلمانوں کی زندگی اور موت کے سوال کا درجہ رکھنے والے معاملہ میں نقب
لگانے کی جسارت تک جا پہنچی ہے ۔ اگرچہ عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت نے
پسپائی اختیار کرتے ہوئے اس اقدام کو واپس لے لیا اور اس کے ذمہ داران کو
سامنے لانے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ بھی کیا لیکن پہلے ’’ چوری
بھی اور سینہ زوری بھی ‘‘ کے مصداق حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں
نے ڈٹ کا کر اس مجرمانہ فعل کا دفاع بھی کیا۔ پہلے پہل تو انہوں نے اسے محض
پروپیگنڈا قرار دیا اور یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ دکھایا جائے کہ اس حوالے
سے کہاں ترمیم ہوئی ہے ۔ لیکن جب اصل معاملہ سامنے آگیا تو پھر بھی اپنی
غلطی کو مان لینے کی بجائے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بھرپور
کوشش کرتے ہوئے اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق کبھی معترضین کو اپنی
انگلش درست کرنے کا کہا گیا اور کبھی یہ کہا گیا کہ حلف نامہ اور اقرار
نامہ میں کوئی فرق نہیں۔آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہاں قارئین کی سہولت کے لیے
اُمیدوار فارم میں کی گئی ترمیم کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں ۔
ترمیم سے پہلے ایک اُمیدواراپنے فارم پر عقیدہ ٔ ختم نبوت کا اقرار کرنے
اور قادیانی ، لاہوری یا احمدی جماعت سے اپنے تعلق کا انکار کرنے سے پہلے
ان الفاظ میں حلف اُٹھاتا تھا : solemnly swear that یعنی میں صدق دل سے
قسم اُٹھاتا ہوں ۔ لیکن ترمیم کے بعد اب الفاظ یہ ہو گئے ہیں کہ : میں
سنجیدگی سے اقرار کرتا ہوں ۔ اسی طرح اُمیدوار فارم کے جس حصے پر اپنے
دستخط کرتا ہے اُ س کی ہیڈنگ کو بھی STATEMENT OF OATH سے بدل کر SOLEMN
AFFIRMATION کر دیاگیا ۔ گویا اصل جھگڑا oath( حلف) اور affirmation(اقرار
)کا ہے اور حکومت کے حمایتی ، سیکولر ، لبرل ٹولہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں
ہم معنی الفاظ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ہم معنی الفاظ ہیں تو
پھر تبدیلی کی ضرورت کیونکر محسوس کی گئی ؟
اس تفصیل سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ یہ محض دفتری غلطی نہیں ہو سکتی
بلکہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا عمل ہے ۔ہماری نظر میں یہ
ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
(1)۔ چونکہ میاں نواز شریف آئین کے آرٹیکلز 62، 63کے تحت نااہل قرار پائے
تھے ۔ لہٰذا پہلے تو آئین کی ان دفعات کو مذاق کا نشانہ بنایا گیا لیکن جب
دیکھا کہ ان دفعات کو آئین سے نکالنا ممکن نہیں تو پھرالیکشن ریفارمز کی آڑ
میں چپکے سے Oathکو Affirmationمیں بدل دیا گیا ۔ کیونکہ حلف اُٹھانے کے
بعد اگر جھوٹ پکڑا جائے تو منتخب نمائندہ چاہے وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو وہ
آرٹیکلز 62،63کے تحت نااہل قرار پائے گا ۔ لیکن اگرکوئی صرف اقرار کر کے
اسمبلی میں جائے اور اس کے بعد اس کا جھوٹ پکڑا بھی جائے تو وہ آئینی طور
پر نااہل قرار نہیں پائے گا ۔
(2) ۔ الیکٹورل رول ایکٹ 74ء میں قادیانیوں کی سیاست میں انٹری کا بھی ہر
طرح سے راستہ روکا گیا تھا ۔ لیکن حالیہ ترمیم میں کنڈکٹ آف جنرل الیکشن
آرڈر 2002ء کے سیکشن 7bاور 7cکو نکال دینے سے اب کسی قادیانی ، احمد یا
لاہوری فرقہ کے کسی فرد کا وووٹر لسٹ سے نام خارج کرنا ممکن نہیں رہا ۔
چونکہ آئین یہ سفارش کرتا ہے کہ جس بندے کا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہو وہ
قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ سکتا ہے ۔لیکن دوسری طرف اُمیدوار
کے فارم میں درج Oath کا لفظ 62، 63کے ذریعے کسی بھی ایسے اسمبلی ممبر کو
نااہل قرار دلوا سکتا ہے جس پر جھوٹ ثابت ہو جائے۔ اس لیے اس لفظ کو
Affirmationمیں بدل دیا گیا تاکہ اگر کوئی قادیانی بھیس بدل کر اسمبلی میں
بھی پہنچ جائے تو اُسے نااہل قرار نہ دیا جاسکے ۔
(3)۔ یہ ساری ترامیم دراصل اُسی لبرل ایجنڈے کا حصہ ہیں جس کا اظہار حکمران
جماعت کے سربراہ بطور وزیراعظم بہت پہلے ان الفاظ میں کر چکے تھے کہ : ’’
پاکستان کا مستقبل لبرل ازم سے وابستہ ہے ‘‘ ۔ لیکن محض ہولی و دیوالی میں
شرکت اور زبانی کلامی پاکستان کی نظریاتی اساس پر(ہندو اور مسلم ایک ، ان
کا خدا ایک ، کلچر ایک اور قادیانی ہمارے بھائی ہیں وغیرہ جیسے) نشتر چلانے
سے اُن عالمی قوتوں کی تسلی و تشفی نہیں ہو سکتی تھی اور نہ ہوئی جو
پاکستان کو عملی طور پر لبرل ازم کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی تھیں جب تک
کہ پاکستان کے آئین میں سیکولر بنیادوں کو مضبوط نہ کیا جائے ۔ اب چونکہ
حکمران جماعت کے عروج کا ستارہ بھی گردش میں ہے تو لہٰذا اپنے قائد کے لبرل
ایجنڈے کی آئینی لحاظ سے تکمیل کی طرف قدم بڑھا کر عالمی قوتوں کو متوجہ
کرنے کی یہ ایک کوشش کی گئی تاکہ لڑکھڑاتے اقتدار کو کچھ دیر استحکام نصیب
ہو جائے ۔
(4)۔ اقتدار کے لیے ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ قومی مفادات کا سودا کیا ،
قومی عزت ،وقار ، غیرت و حمیت تک کو بیچ ڈالا ، اقتدارکے لیے ہی ہمارے
سیاستدانوں نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے ۔مشرف نے امریکی صدر کی ایک کال پر
پورے ملک کو امریکہ کی کالونی بنا دیا ۔ دنیا کے واحد خطے پر نافذ اسلامی
نظام کے خاتمے کے لیے ہم کفار کے فرنٹ لائن اتحادی بنے اور حتیٰ کہ اسلام
کے نام پر بننے والے اس ملک میں ہم ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر
اسلام سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے اور اس بے وفائی کے عملی ثبوت بھی بار بار
فراہم کیے۔ گویا ہم اپنے حکمرانوں سے کسی بھی قسم کی اچھی توقع نہیں رکھتے
مگر کم ازکم ان سے یہ اُمید بھی نہیں رکھتے تھے کہ وہ آقائے دو جہاں حضرت
محمد ﷺ سے اس قدر غداری اور بے وفائی کے مرتکب ہوں گے کہ آپ ﷺ کے خاتم
النبیین کے مقام و مرتبے پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر تیار ہو جائیں
۔کیونکہ اتنا تو کم از کم حکمران بھی جانتے ہیں کہ
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
چنانچہ اقتدار کی ہوس اپنی جگہ لیکن اصل محرک کچھ اور بھی ہے اور وہ ہے
IMFاور ورلڈ بینک کی غلامی۔ کیپیٹلزم ہمارے حکمرانوں کو مجبور کرتا ہے کہ
وہ عالمی قوتوں کی ڈکٹیشن پر چلیں ۔ پاک آرمی کے سابق چیف مرزا اسلم بیگ نے
آج سے چند سال قبل اپنے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ بعض عالمی
قوتیں پاکستان کو لبرل ازم کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہیں ۔یہی ایجنڈا آج ہر
سیاسی جماعت میں نظر آرہا ہے چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہو ۔ یہی
وجہ ہے کہ آئین میں ترمیم کا یہ پراسس کم از کم تین سال سے جاری تھا اوراس
پر کام کرنے والی کمیٹیوں میں ہر پارٹی کے نمائندے موجود تھے لیکن کسی نے
اس پر اعتراض نہیں کیا ۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ
تمام سیاسی پارٹیاں بھی اس کام میں برابر کی مجرم ہیں ۔ بلکہ جنرل (ر) کے
مطابق پاکستان کے نئے ماڈل کی علمبردار جماعتیں تو وہ ہیں جو اس وقت
اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ اب ظاہر ہے اگر عالمی قوتیں چاہتی ہیں
کہ نئے ماڈل میں پاکستان عملاً لبرل ازم کی راہ پر گامزن ہو تو پھر انہوں
نے لازماً کوئی لائحہ عمل بھی دیا ہوگا جس پر چل کر خود انہوں نے لبرل ازم
کی منزل حاصل کی ۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ پیٹرن کیا ہے ؟
پاکستانی آئین کی طرح یورپین ممالک کے آئین میں بھی ہر اُمیدوار کے لیے
پہلے ایک حلف نامہ ہوتا تھا ۔ جس میں وہ قسم اُٹھاتا تھا کہ وہ ملحد یا بے
دین نہیں ہے ۔لیکن آج سے 322 سال قبلQuakers نامی ایک گمراہ عیسائی فرقہ نے
حلف لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم صرف اقرار کریں گے ۔کیونکہ حلف
اُٹھانے کے بعد بے دین ثابت ہو جانے پر نااہل قرار پانے کا خطرہ موجود تھا
۔ چنانچہ Quakers act 1695منظور ہوا جس میں اُمیدوار کے فارم پر درج لفظ
Oathکو Affirmationمیں تبدیل کر دیا گیا ۔ یعنی حلف نامہ کی جگہ اقرار کی
بنیاد پڑی ۔ اس قانون میں بھی وہی الفاظ درج ہیں جو موجودہ ترمیم میں شامل
کئے گئے ہیں ۔
An Act that the Solemne Affirmation & Declaration of the People called
Quakers shall be accepted instead of an Oath.
اس کے بعد انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اسکاٹ لینڈکے ملحدین نے بھی یہ
کہتے ہوئے حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا کہ ہم تو اﷲ کو مانتے ہی نہیں پھر
ہم کیوں قسم اُٹھائیں ۔لہٰذا وہاں بھی آئین میں ترمیم کرکے حلف کو ختم کر
دیا گیا ۔ اس کے بعد 1880 ء میں چارلس براڈلاف نامی ایک شخص برطانیہ میں
الیکشن جیت کر منتخب ہوا مگر اس کو حلف اُٹھانے سے روک دیا گیا کیونکہ وہ
لادین تھا ۔ اس نے حلف کے بجائے اقرار کی استدعا کی جو مسترد کردی گئی اور
اس سے سیٹ چھین لی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب میں چرچ سے بیزاری کی بناء
پر مذہب سے رشتہ ٹوٹ رہا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ براڈلاف ضمنی انتخابات میں
بھی جیت گیا اور پھر سے حلف اُٹھانے سے انکار کیا جس پر اسے گرفتار کر لیا
گیا ۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ 1886ء میں پانچویں بار بھی ضمنی الیکشن
میں وہی جیتا تو بالآخر حلف میں اُس کی مرضی کی ترمیم کی گئی اور وہ ترمیم
Affirmation Law یا Solemn Affirmation کہلائی ۔ اسی براڈلاف نے برطانیہ
میں سیکولر سوسائٹی کی بنیاد رکھی اورایک طویل جدوجہد کے بعد 1888 ء میں
Oath Act منظور کروا لیا جس کے ذریعے ملحدین کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ
حلف کی بجائے صرف اقرار نامہ پر سائن کریں ۔ یہیں سے مغرب میں سیکولر قانون
سازی کی بنیاد پڑی جس کے بعد مذہب کو سیاست سے بالکل الگ کر دیا گیا ۔
آج مغرب کی سیاست تو مذہب سے آزاد ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ کسی دوسرے مذہب
بالخصوص اسلام کا بھی سیاست میں کوئی عمل دخل نہ رہے ۔ کیونکہ انہیں خوب
معلوم ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو ایک مکمل نظام حیات رکھتا
ہے اور اس وقت دنیا میں تیزی سے پھیل بھی رہا ہے اور اگر یہ دنیا کے کسی
بھی خطہ میں بطور نظام سامنے آگیا تو یہ کیپیٹلزم کے لیے خطرے کی علامت
ہوگی ۔ چنانچہ اسی بناء پر ایک طرف افغانستان پر 17سال سے جنگ مسلط ہے اور
اسلامی نظام کے خلاف عالمی قوتوں کی ’’ فتح ‘‘ سب سے بڑی مجبوری بن گئی تو
دوسری طرف پاکستان اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں
اصلاحات کے نام پر آئین میں سیکولر بنیادوں پر تبدیلیوں کا عمل جاری ہے ۔
اور مسلمان حکمران کہیں ہوس اقتدار کے ہاتھوں مجبور ہو کر اور کہیں IMFاور
ورلڈ بینک کی جکڑبندیوں کی وجہ سے عالمی قوتوں کی ڈکٹیٹشن قبول کر رہے ہیں
۔ جبکہ یہی چیز مسلمان ممالک کی آزادی پر سب سے بڑا سوالیہ نشان بن رہی ہے
۔ آج جو خوشامدی لہجہ خواجہ آصف نے ایک آزاد اور خود مختار ملک کے وزیر
خارجہ کی حیثیت سے امریکہ میں جا کر اپنا یاہے شاید ہی کبھی اشرف غنی نے
اپنایا ہو جس کی حکومت کو ہم کٹھ پتلی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔غلامی کی اس
نئی قسم کی وجہ سے آج اُسی مغربی پیٹرن کے مطابق آئین کو سیکولر بنانے کا
وہی پراسس پاکستان میں بھی جاری ہے اوربدقسمتی سے ہمارے ہاں سیکولر اور
لبرل طبقہ پاکستان کو ایک نئے ماڈل کے طور پر دیکھنے کے لیے ایسی تبدیلیوں
کو ضروری سمجھتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ مصور پاکستان نے اسی سنگین
غلطی سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ؐ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
یہ ملک جس نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا وہی نظریہ اس کے استحکام اور
سلامتی کا واحد ذریعہ بھی ہے ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سے پہلے
بھی پاکستان نظریہ سے انحراف کی وجہ سے ہی تقسیم کا شکار ہوا تھا ۔ یہی
خطرات آج بھی موجود ہیں کہ اگر پاکستان کے کسی بھی نئے ماڈل کی بنیاد اُس
نظریہ سے انحراف پر رکھی گئی تو پاکستان اپنے وجود کا جواز کھودے گا ۔اس
لیے کہ یہ ملک ہم نے ایک سیکولر ملک سے علیحدہ ہی اسی لیے کیا تھا تاکہ ہم
یہاں سیکولر ازم ، لبرل ازم کی بجائے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا نظام قائم
کریں گے ۔پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااﷲ کے نعرے پر ہی مختلف ذاتوں ،
نسلوں ، قوموں ، قبیلوں ،ریاستوں اور راجواڑوں کے لوگ مل کر ایک قوم بنے
تھے ۔ 70سال سے ہم یہاں اسلام تو نافذ نہیں کر سکے مگر حضور ﷺ کی محبت وہ
واحد قوت ہے جو آج بھی تمام اختلافات کے باوجود سب کو متحد کر سکتی ہے ۔اگر
یہ آخری ڈور بھی ٹوٹ گئی تو کوئی آئین یا کوئی جمہوریت اس قوم کو متحد نہیں
رکھ سکے گی ۔ کیونکہ آئین اور جمہوریت پر تو یہ سنگین سوال ابھی سے اُٹھ
رہا کہ کیا عوام نے اپنے نمائندوں کو اسی لیے منتخب کیا تھا کہ وہ پاکستان
کی نظریاتی اساس پر حملہ آور ہونے کے بعد ختم نبوت کی شقوں کو بھی آئین سے
نکال دیں ؟ |