مولانا سید برکت علی شاہ نقشبندی کی حیاتِ تابندہ و روحانی مقام پر چند اجمالی نقوش

 ولادت و تعلیم: مولانا سید ابو محمد برکت علی شاہ نقشبندی (بانی مسجد خانقاہِ برکتیہ اسلام پورہ مالیگاؤں)کی ولادت کم و بیش ۱۲۷۰ھ میں صوبہ پنجاب میں ہوئی۔ مادر زاد ولی تھے۔ بوقتِ ولادت زبان پر اﷲ اﷲ جاری تھا۔ ایام طفلی میں عام بچوں کی طرح لہو ولعب سے قطعی دل چسپی نہیں تھی۔ ۱۲۔۱۴؍سال کی عمر میں ہی تمام درسیاتِ نظامی سے فراغت حاصل کر لی۔ فارسی کی تکمیل چچا سے فرمائی۔ عربی درسیات کی تکمیل مولانا سید چراغ شاہ سے کی۔ حصول علم کے لیے پا پیادہ اسفار کیے۔ ذوق علم کے لیے موسیٰ زئی شریف بھی گزر ہوا اور وہاں مولانا خواجہ محمد عثمان [دامانی] صاحب کے دستِ مبارک پر بیعت فرمائی۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ حضرت مرشد کی خدمت میں خانقاہ شریف موسیٰ زئی تشریف لے گئے۔اور سلوکِ نقشبندیہ مجددیہ کی تعلیم لی۔ مرشد گرامی کی طرف سے اجازتِ مطلقہ طالبانِ حق کی رشد وہدایت کی مرحمت فرمائی گئی ۔ بعدِ وصالِ مرشد بہ حکمِ مرشد مولانا خواجہ سراج الدین [نقشبندی] جانشین و فرزند حضرت خواجہ عثمان دامانی سے سلوکِ مجددیہ کی تکمیل کی اور اجازت و خلافت پائی۔۱؂

شجرۂ نسب:مولانا سید ابو محمدبرکت علی شاہ حسینی سادات ہیں۔ شجرۂ نسب اس طرح ہے:مولانا سید برکت علی شاہ بن مولانا سید نورالدین شاہ بن مولانا سید غلام جیلانی شاہ بن مولانا سید غلام غوث شاہ بن مولانا سید عتیق اﷲ شاہ بن مولانا سید شاہ الہ یار رضوی بجواڑی[خلیفۂ حضرت سید حسن رسول نما]- اس طرح ۴۴؍واسطوں سے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ بن حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے جا ملتا ہے۔ حضرت مولانا شاہ الہ یار ر ضوی بجواڑی کا والدہ کی طرف سے رشتہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی سے ملتا ہے۔

آخرالذکر بزرگ حضرت سید حسن رسول نما [م ۱۱۵۳ھ]سے فیض یافتہ تھے جو خود کہتے تھے: ’’یہ بزرگ سید وجیہ الدین علیہ الرحمہ کی اولاد سے ہیں جن کا جدی نسب حضرت امام علی موسیٰ رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے۔ اور ماں کی طرف سے ان کا رشتہ حضرت مخدوم بہاء الدین زکریا علیہ الرحمہ ملتانی سے ملتا ہے۔‘‘۲؂

خانقاہ کا قیام:کلکتہ میں خانقاہ قائم کی۔ مسند ارشاد پر متمکن ہوئے۔ ارات مندوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ دو خانقاہیں اور قائم کیں۔ مالیگاؤں ضلع ناسک (مہاراشٹر) میں اور دوسری علاول پور ضلع جالندھر صوبۂ پنجاب میں۔ ان دونوں خانقاہوں میں بھی تشریف لے جاتے اور رشد وہدایت کا کام انجام فرماتے۔ ۳؂

حضرت کا قیام مالیگاؤں سے قریب سٹانہ میں بھی رہا جہاں ایک (سنی جامع)مسجد و خانقاہ قائم کی۔ گرچہ اب خانقاہی نظام باقی نہ رہا لیکن سنی جامع مسجد سٹانہ آج بھی آپ کی یادگار کے بطور موجود ہے اور دینی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔یوں ہی مالیگاؤں میں مسجداہلِ سنّت خانقاہِ برکتیہ نقشبندیہ[افتتاح ۱۸۹۶ء؛ ۱۲؍ربیع الاول نمازِجمعہ بحوالہ کتبہ در مسجد] بھی دینی خدمات کا محور ہے۔

خانقاہ شریف کالج اسکوائر[کلکتہ] میں باقاعدہ درس علم و تصوف جاری رہتا تھا۔ مرجع علم و فن تھے۔ بڑے وجید علما بھی اختلافی مسائل و بحث و مناظرہ میں آپ کے ہم خیال ہو جاتے تھے۔ آپ کی ذات بابرکت سے رشد و ہدایت کا دریا رواں دواں رہا۔ عموماً پورا ہندوستان اور خصوصاً بنگال آپ سے فیض یاب ہوا۔۴؂

مرشد کے ساتھ زیارتِ حرمین: شاہ محمد یونس لکھتے ہیں: ’’حضرت کے شیخ حضرت خواجہ مولانا محمد سراج الدین صاحب قبلہ نے زیارتِ حرمین شریفین کا عزم فرمایا۔ جب آپ کو خبر ہوئی تو آپ نے بھی ارادۂ حج بیت اﷲ شریف فرمایا۔ اس وقت آپ کے پاس محض دو تین سو روپے موجود تھے۔ پریشان تھے کہ حضرت پیرو مرشد کی خدمت میں کیا نذر پیش کریں گے۔اگرچہ اس وقت ایک آدمی کے لیے سفرِ حج کے اخراجات کے لیے ایک سو یا ڈیڑھ سو روپے ہی کفایت کرتے تھے۔ ایسی صورت میں اگر ڈیڑھ سو روپے کی رقم اپنے مصرف میں رکھتے تاہم ڈیڑھ سو روپے مرشد کی نذر کر ہی سکتے تھے۔ لیکن بہ ایں ہمہ پریشانی لاحق تھی۔ چنان چہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ خانقاہ شریف موسیٰ زئی پہنچتے پہنچتے حضرت کے پاس ۱۴۰۰؍روپیوں کی رقم کثیر فراہم ہو گئی۔ یہی نہیں اس وقت چوں کہ حجاج کرام کو جہاز پر کھانے پینے کا انتظام خود ہی کرنا پڑتا تھا لہٰذا مالیگاؤں سے ڈیڑھ ہزار مرغیوں کا بھی انتظام فرمایا۔ سفر حج میں آپ کے ہم راہ خلفا و خدام موجود تھے۔ جو احکام کی بجا آوری میں ہمہ تن تیار رہتے تھے۔لیکن جذبۂ محبت و خدمتِ شیخ طبیعت مبارکہ میں ایسا موجزن تھا کہ حضرت شیخ کی خدمت خود ہی بجا لاتے تھے۔ اور کسی دوسرے کو موقع دینا بھی گوارا نہیں فرماتے تھے۔‘‘۵؂

عبادت وریاضت: اوائل میں رات کو جہاں تشریف رکھتے تھے چھت کی کڑی سے ایک رسی لٹکا دی تھی۔ اور جب تک رات کو عبادت کے لیے مصلے پر رہتے تھے سر کے بال کو اس رسی سے باندھ دیا کرتے تھے تا کہ نیند کے غلبہ پر احساسِ تکلیف ہونے سے نیند اپنے آپ اچٹ جایا کرے۔سبحان اﷲ! طبیعت مبارکہ میں کس قدر اﷲ جل شانہٗ نے ذوق و شوقِ عبادت کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا کہ نفسانی آرام کو کوئی دخل دیا جانا بھی گوارا نہیں فرمایا جاتا تھا۔۶؂

کشف وکراماتِ : آپ کی ذات سے کشف و کرامات کا صدور بکثرت ہوا۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش ہیں؛
[۱] جب کوئی حاجت مند یا مصیبت زدہ آپ کے پاس حاضر ہوتا اور اپنا دُکھ درد بیان کرتا تو سن لینے کے بعد اگر آپ فرما دیتے کہ: ان شاء اﷲ تمہارا کام ہو جائے گا تو اس کی مُراد بفضلہٖ تعالیٰ بر آتی، اگر کسی کی حاجت براری کے لیے ہاتھ اُٹھا کر دُعا فرماتے تو اس کا کام بھی ہو جاتا، مگر کچھ دیر لگتی۔ ان دو صورتوں کے علاوہ تیسری صورت یہ بھی دیکھنے میں آتی کہ اگر کسی شخص کے حالات سننے کے بعد خاموشی اختیار فرما لیتے تو اس کا کام نہیں ہوتا۔ خاموشی کا سبب شاید یہی ہوتا کہ اس کے کام میں اﷲ تعالیٰ کی مرضی نہیں ہوتی، جو حضرت کو بذریعہ کشفِ صحیحہ معلوم ہو جاتا۔۷؂
[۲] ایک روز محبوب علی شاہ جو خادم خاص تھے اور لنگر کے منتظم بھی تھے، جن کے مزاج میں کچھ سختی تھی،چنان چہ وہ دخل در معقولات کو دیکھنا گوارا نہ کرتے تھے۔خانقاہ شریف کالج اسکوائر کے سامنے ایک گائے کے بچھڑے کی کسی حرکت بے جا پر خفا ہوئے پس اس پر دو ایک لاٹھی رسید کیے۔ وہ بچھڑا معاً زمین پر گرا اور مر گیا۔ حضرت اس وقت آرام فرما رہے تھے۔ گرد و نواح کے تقریباً تین چار ہزار ہندو افراد جمع ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لال بازار سے پولس بھی آگئی۔ حضرت یکایک اندر سے باہر تشریف لائے، ورنہ کسی خادم کی جرأت نہ ہوتی کہ حضرت کو اندر خبر کرتا۔ کیوں کہ یہ معمول تھا کہ جب آپ اندرون حویلی تشریف لے جاتے تو باہرخو اہ کوئی بھی آئے یا کچھ بھی ہو کوئی خبر اندر نہ دی جاتی۔ بلکہ اپنے مقررہ وقت ہی پر تشریف لاتے۔ اس روز قبل از وقت باہر تشریف آوری محض آپ کے کشفِ صحیحہ کی بین دلیل تھی۔ باہر آنے کے بعد حالات دریافت کرنے لگے اور سب سن لینے کے بعد مقام حادثہ پر جا کر لوگوں سے کہا کہ اس کی قیمت لے لو۔ لیکن اہلِ ہنود کا اصرار کہ وہ لوگ بچھڑا ہی لیں گے، عجیب فتنہ انگیز تھا۔ خدا کی شان کہ آپ کے دست مبارک میں جو چھڑی تھی اس سے دو ایک ضرب لگائی اور زبانِ مبارک سے فرمایاکہ اﷲ کے حکم سے اُٹھ، سبحان اﷲ وبحمدہٖ بچھڑا جس کو مردہ تصور کیا جاتا تھا بفضلہ تعالیٰ فی الفور اُٹھ کھڑا ہوا۔ فالحمدﷲ۔۸؂

آپ کے معاصر اکابرین سے بھی گہرے مراسم تھے، مولانا کرم الدین دبیر جہلمی سے دوستانہ تعلقات تھے، مناظرانہ معاملات میں بھی آپ مولانا دبیر کے دست راست تھے؛ مولانا دبیر نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی کتاب حسام الحرمین پر تصدیق بھی تحریرکی۔ جب کہ مولانا سید برکت علی شاہ نقشبندی کے خلیفہ حضرت مولانا اسحاق نقشبندی مالیگاؤں کے مشہور بزرگ کی حیثیت سے فیض لُٹا رہے ہیں، آپ کا آستانہ مالیگاؤں بڑا قبرستان کے صدر دروازے سے متصل ہے۔ ایک اور خلیفہ حافظ محمد اسماعیل نقشبندی سٹانوی بھی علم دوست تھے، دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے ابتدائی احوال میں آپ کا ذکر ملتا ہے۔ گویا اس تعلیمی مرکز سے آپ کی وابستگی رہی۔

وصال: ۱۴؍صفر ۱۳۴۵ھ/۱۹۲۶ء میں آپ کا وصال ہوا۔ مزار شریف دس نمبر قیصر اسٹریٹ کلکتہ میں مرجع خلائق و منبع برکات ہے۔

مآخذ:
[۱] سبل السلام، محمد یونس،مطبوعہ ڈھاکہ بنگلہ دیش ۱۹۶۸ء، ص۴۔۵ملخصاً
[۲] مرجع سابق،ص ۲تا۴ ملخصاً
[۳] مرجع سابق، ص۴۔۵
[۴] مرجع سابق، ص۷ ملخصاً
[۵] مرجع سابق،ص۶ ملخصاً
[۶]مرجع سابق
[۷]مرجع سابق، ص۷
[۸] مرجع سابق، ص۷۔۸

ًنوٹ: تفصیلی مطالعہ کے لیے راقم کی کتاب ’’مشائخ نقشبندیہ: حیات و افکار‘‘ کا مطالعہ کریں، جو استدلال کے آئینے میں چشم کشا تحریر ہے۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.