تاریحی کتابوں میں یہ واقعہ کثرت سے درج کیا گیا ہے کہ
ابتدائے اسلام میں جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کیا تو ایک دن وہ
خانہ ٔ کعبہ پہنچے ،ان کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ وہاں اسلامی طریقے
سےنماز پڑھیں ، نماز پڑھتے ہوئے جب مشرکین نے دیکھا تو انہیں طیش آگیا وہ
دوڑتے ہوئے آئے اور حضرت ابوبکر ؓپر ٹوٹ پڑےیہاں تک کہ ان کو اس بری طرح
سے زدوکوب کیا کہ ان کیلئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ نماز ادا کرسکیں ۔یہ
مذہبی جبر کا زمانہ تھا اس وقت پورے مکہ میں کفرو شرک اور جہالت کا غلبہ
تھا یہی وجہ تھی کہ جب اسلام کا آغاز ہوا تو وہ سبھی اس کے مخالف ہوگئے ،انہیں
اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگا کہ اگر اسلام کا غلبہ بڑھا تو عوامی اور
سیاسی سطح پر ان کی قیادت اور سرداری خطرے میں پڑ جائے گی ۔ظلم و جبر کی اس
کہانی کا تسلسل روز اول سے جاری ہے اور شاید قیامت تک جاری رہے ۔ تاریخ یہ
بھی بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓکے ساتھ پیش آنے والے اس سخت ترین واقعے کے
بعد بھی مسلمانوں میں کوئی اشتعال نہیں پیدا ہوا ، انہوں نے صبر کیا لیکن
اپنی تحریک کو سرد نہیں ہونے دیا اور انتہائی منظم طریقے سے توحید اور
اعلائے کلمۃالحق کا کام کرتے رہے ۔مخالفین نے بھی ہار نہیں مانی اور متواتر
حملے اور مزاحمت کرتے رہے ،اس ضمن میں متعدد جنگیں بھی ہوئیں، یہاں بھی
مسلمانوں نے ایک منفرد کردار ادا کیا ، انہوں نے مشرکین پر کبھی اپنی جانب
سے کوئی جنگ مسلط نہیں کی ، یہی سبب ہے کہ مشرکین سے ساری جنگیں دفاع میں
لڑی گئیں ، ان کی ساری توجہ اشاعت اسلام پر تھی اور اس کام میں انہوں نے
اپنی پوری طاقت صرف کردی یہاں تک کہ ایک دن ایسا آگیا کہ پوری سرزمین عرب
جو کفر و الحاد اور ظلم و طغیان سے بھری ہوئی تھی اسلام کی نرم و لطیف
آغوش میں آگئی ۔
مذکورہ بالا واقعہ ۶۱۰ءکا ہے جسے گزرے ہوئے ۱۴۰۸سال ہوچکے ہیں ،اس دوران
پوری دنیا میں کیسے کیسے انقلابات آئے لیکن اسلام کا غلبہ جاری رہا ، ایک
سروے کے مطابق آج دنیا میں تیزی سے بڑھنے والے مذاہب میں اسلام اولین مقام
پر ہے یہاں تک کہ امریکہ جیسے ملک میں9/ 11 کے بعد جس میں اسلام اور
مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا اوروہاں اسلام کے خاتمے کیلئے زبردست
تحریک چلائی گئی تھی لیکن اس کے برعکس وہاں اسلام اور تیزی سے پھیلنے لگا
۔یہی صورتحال آج ہندوستان میں بھی ہے۔ سیکولر قوتوں کے کمزور ہونے کے بعد
یہاں فرقہ پرستوں کا غلبہ بڑھتا ہی جارہا ہے، مرکزی حکومت پر قابض ہونے کے
بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کو حاصل کرنے کا نشانہ بھی چند ماہ
قبل مکمل ہوچکا ہے اس کے بعد تو جیسے فرقہ پرستی کا ایک طوفان ہی ابل پڑا
ہر طرف قہر ہی قہر کی حکمرانی ہے اخبارات میں کئی کئی بیانات ایک ساتھ شائع
ہورہے ہیں ، اس کی چند مثالیں ہم یہاں پیش کررہے ہیں ۔آرایس ایس کے سربراہ
موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ گئوکشی کے خلاف ایک قانون وضع کیا جائے جس کی
روسےملک بھر میں گئوکشی ممنوع قرار دی جائے ،اگر چہ انہوں نے یہ بھی اپیل
کی ہے کہ اس تعلق سے تشدد نہ کیا جائے کیونکہ اس سے تحریک کو نقصان پہنچ
سکتا ہے۔الور واقعہ کے بعد عدالت نے جن چھ ریاستوں کو نوٹس جاری کئے ہیں ان
میں ۵؍ریاستیں بی جے پی کے زیر انتظام ہیں یہ اپیل اسی پس منظر میں کی گئی
ہے ۔دوسری خبر تلنگانہ کے گوشا محل سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی ٹی راجہ
سنگھ سے متعلق ہے جنہوں نے گذشتہ دنوں ایک پروگرام کے دوران رام مندر کی
مخالفت کرنے والوں کو یہ کہہ کر دھمکی دی ہے کہ اگر وہ باز نہیں آئے تو ان
کا سرقلم کردیا جائے گا ۔ انہوں نے مخالفین کے بیانات کا خیرمقد م کرتے
ہوئے کہا کہ ہم کئی سالوں سے اس دن کا انتظار کررہے ہیں کہ تم غدارلوگ سر
تو اٹھاؤ ہم تمہارا سر ہی کاٹ دیں گے ، یہ وہی شخص ہے جو بار بار نفرت
انگیز بیانات دے رہا ہے لیکن آزاد گھوم رہا ہے اب تک اس سے کوئی باز پرس
نہیں کی گئی ، اس نے حیدرآباد میں کرن جو ہر کی فلم کی نمائش کے خلاف
سنیما گھروں کو جلانے کی بات کی تھی ، گجرات کے اونا میں دلتوں کے خلاف
گئورکھشکوں کی غنڈہ گردیوں کو درست قرار دیا ، اسی نے عثمانیہ یونیورسٹی کے
طلباء کی جانب سے گوشت فیسٹیول منعقد کئے جانے پر دادری جیسے حملے کی دھمکی
دی تھی ۔تیسری خبر راجستھان کے دیولی گاؤں سے تعلق رکھتی ہے جہاں ۲۰۰سال
پرانی ایک مسجد کی تعمیر نو کا کام جاری تھا ، ا س علاقے میں ایک ہی مسجد
ہے جہاں دور دراز کے گاؤں کے لوگ نماز کی ادائیگی کیلئے آتے ہیں ،
مسلمانوں نے اس خستہ حال مسجد کواز سر نوتعمیر کرنے کے ارادے سے دو ماہ قبل
شہید کردیا تھا مگر عین تعمیر کے دوران بی جے پی کے ممبر اسمبلی کمل سنگھ
ملک وہاں پہنچے اور تعمیراتی کام رکوا دیا اس کی شہ پر مقامی ہندوؤں کی
ایک بڑی تعداد بھی پہنچ گئی اور رات بھر جے شری رام کے نعرے لگاتی رہی جس
سے وہاں کے مسلمانوں میں زبردست خوف و ہراس کا ماحول بن گیا ہے ۔مقامی
دیہاتی ہندوؤں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم مسجد کی تعمیر نو کی اجازت ہر گز
نہیں دیں گے۔ممبر اسمبلی کا کہنا ہے کہ جب تک انتظامیہ تحریری اجاز ت نہیں
دے دیتا مسجد نہیں بنائی جاسکتی ۔مسلمانوں نے ضلع مجسٹریٹ سے شکایت کی ہے ،
انہوں نے اس تعلق سے تحقیقات کا حکم تو دے دیا ہے لیکن تاد م تحریر مسجد کی
تعمیر نو کیلئے کوئی حکم نہیں جاری کیا ہے ۔
کہتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے ، آج پھر وہی مذہبی جبر کا
زمانہ لوٹ آیا ہے اور آج پھر اس کا جواب وہی ہے جو ماضی میں دیا جاچکا ہے
، یعنی صبر اور اتحاد کے ساتھ خود کو مضبوط و مستحکم کرنے کا عمل ،ہمارے
درمیان مسلکی اختلافات اتحاد کی راہ کا کانٹا بنے ہوئے ہیں ہمیں ان کانٹے
دارمسلکی جھاڑیوں کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا ایک خدا ایک قرآن اور ایک نبی کے
نام پر متحد ہوکر سارے گلے شکوؤں کو دور کرنا ہوگا ،خود غرضیوں اور مصلحت
پسندیوں سے پرے امن و اخوت کا پرچم بلند کرتے ہوئے امن و محبت کے دریا
بہانے ہوں گے ، اس کے بغیر ہمارا ہر احتجاج ہر چیخ و پکار اور ہر کوشش
صدابصحرا ہی ثابت ہوگی ، آپ سن رہے ہیںنا !
|