نظریہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی یہ مملکت خداد
پاکستان روز اول سے ہی اپنے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی چلی آرہی ہے۔ اپنے
قیام کے ساتھ ہی پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ اور چیلنج
اپنے بقاء کا تھا۔ قیام پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں نے جب یہ
دیکھا کہ اب پاکستان ناگزیر ہوتا چلا جا رہا ہے تو بنیئے اور فرنگی گٹھ جوڑ
نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمان برصغیر کو ایک ایسا کٹا پھٹا پاکستان دیا جائے
کہ جس کے وجود کو برقرار رکھنا ان مسلمانوں سے ممکن نہ ہو اور پھر ہم اپنے
اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہوتا دیکھ سکیں گے۔ مگر پاکستان کا پودا جو کہ
لاکھوں مسلمانون کے خون جگر سے آبیار ہوا تھا، وہ آندھیوں اور طوفانوں کا
مقابلہ کرتے ہوئے پروان چڑھتا رہا۔اس دوران جنگیں مسلط کی گئیں، راتوں رات
ترنگے کو لاہور اور راولپنڈی پر لہرانے کے خواب دیکھے گئے مگر ان خوابوں کی
تعبیریں دشمنان پاکستان کے لیے بہت بھیانک نکلی تھیں اور پاکستان شب و روز
ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ان کے سینے پر مونگ دلتا رہا مگر جب عقابوں کے
اس نشیمن پر زاغ مسلط ہوئے تو دشمنوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا اور
انکی سازشیں رنگ لائیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو عین عالم شباب میں اپنے
مشرقی بازو کی جدائی کے گہرے زخم سہنے پڑے جن کے گھاؤ آج تک نہیں بھرے
جاسکے۔ان زخموں کا مداوا تو نہیں ہو سکتا تھا مگر مستقبل میں ایسے زخموں سے
بچنے کی پلاننگ کی گئی اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے پر کام شروع ہوا تو ایک
اسلامی ایٹمی پاکستان دنیا کے سامنے کھڑا تھا۔ اسی دوران امریکہ میں نائن
الیون ہوگیا جس نے پوری دنیا کی سیاست و معیشت پر اثر ڈالا۔امریکہ اپنے لاؤ
لشکر اور اتحادیوں کے ساتھ ہمارے ہمسائے میں آن موجود ہوا ۔ یوں ہمارا خطہ
پوری دنیا میں جنگ کے ایک مرکز کے طور پر سامنے آگیا۔ اگرچہ اس سے قبل ہم
اسی سرزمین پر اپنے کمتر وسائل کے ساتھ دنیا کی ایک بڑی سپر پاور رشین
فیڈریشن کو شکست سے دوچار کرکے ٹکڑوں میں تقسیم کرچکے تھے۔ مگر اب پوری
دنیا ہمارے دروازے پر کھڑی تھی اور ہماری چھوٹی سی بھی جذباتی حرکت ہمارے
لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی تھی۔ اس لیے اس جنگ کو حکمت عملی
کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ ہوا(بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ پاکستان کا یہ
فیصلہ بہترین تھا)۔ انہی دنوں میں پوری دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں آگئی۔
انہی حالات میں پراکسی وار کا ایک نیا روپ دنیا کے سامنے آیا جس میں عقیدے
کی بنیاد پر اسلامی ممالک میں دہشت گردوں کے نئے نئے گروپس کھڑے کیے گئے جو
بظاہر تو مسلمان تھے اور قران اور محمدﷺ کے فرمان کی بات کرتے تھے مگر
درحقیقت ان کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہ تھا۔ بلکہ فرمان نبویﷺ کے مطابق
یہ لوگ اسلام سے ایسے نکلے ہوئے تھے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان دہشت
گرد گروہوں نے مسلمان ملکوں کے نقشے بدل دیے اور آگ اور خون کے کھیل کھیلنا
شروع کردیا۔ پاکستان کے دشمنوں نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھایا اور دہشت
گردی کی اس جنگ کے شعلے پاکستان میں بھی پھینک دیے۔ را نے ان دہشت گرد
گروپس کو افغانستان میں بیٹھ کر تربیت دینا شروع کردی اور پھر پاکستان میں
ان کو بارود کا کھیل کھیلنے کے لیے بھیج دیا جاتا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک
مشکل ترین دور تھا۔ کہ ایک طرف مغربی بارڈر پر امریکہ اور اس کے اتحادی
براجمان تھے، دوسری طرف مشرقی بارڈر اور لائین آف کنٹرول پر بھارت شر
انگیزی پھیلا رہا تھا، جبکہ ملک کی اندرونی کیفیت یہ تھی کہ فاٹا میں ملکی
رٹ مکمل طور پر ناکام ہوچکی تھی، بلوچستان میں باغی کھلے عام دندناتے پھرتے
تھے، کراچی میں روزانہ درجنوں لاشیں گرتیں تھیں، ٹارگٹ کلنگ کا کاروبار
عروج پر تھا، پورے ملک میں دہشت گرد جہاں چاہتے دھماکہ کرکے کے معصوم اور
بے گناہ شہریوں کو موت کی وادی میں پہنچا دیتے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ
جات(دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک) جہاں ماضی میں دنیا بھر سے
سیاح آیا کرتے تھے۔ اب وہاں بارود کی بو پھیلی تھی۔ دھماکوں اور خودکش
حملوں نے پاکستان کی فضا کو بوجھل کردیا تھا۔ ایسا ہی ایک حملہ پاکستان میں
کھیل کے میدان بھی ویران کرگیا،3 مارچ 2009کی صبح کو پاکستان میں کھیلنے کی
لیے آئی ہوئی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور پر دہشت گردوں کی طرف سے حملہ
ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان پر کھیل کے دروازے بھی بند ہوگئے تھے۔ را اور
سی آئی اے کا طوطی بڑھ چڑھ کا بول رہا تھا اور ان اداروں کا پھیلایا ہوا
بڑا منظم پراپیگنڈا جڑ پکڑ رہا تھا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ انہی ہی
حالات میں سولہ دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے
معصوم بچوں اور اسکول انتظامیہ پر حملہ کرکے 132 بچوں سمیت 141 افراد کو
شہید کرکے اپنے موت کے پروانے پر دستخط کرلیے ۔ یہ پاکستان کے محافظوں کے
لیے اخیر تھی۔ اسی کی بنیاد پر کچھ مشکل فیصلے کیے گئے اور پورے پاکستان
میں ضرب عضب آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔ دہشت گردوں سے پاکستان کی جان
چھڑوانے کا فائنل راؤنڈ شروع ہوچکا تھا۔ اس جنگ میں افواج پاکستان، پولیس،
قانون نافذ کرنے والے اداروں ، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بالخصوص عوام
پاکستان نے لاتعداد قربانیاں دیں اور دہشت گردوں کو شکست فاش دی۔ کلبھوشن
یادیو جیسے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے دیگر نیٹورکس پکڑے گئے اور دن بدن امن
کے دشمنوں کے گرد شکنجہ کسا جانے لگا اور پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھا کہ سری
لنکا کی ٹیم پر حملے کی وجہ سے پاکستان میں کھیل کے میدان ویران ہوئے تو آج
وہی سری لنکا کی ٹیم ایک بار پھر پاکستان میں موجود ہے۔ یہ پوری قوم کی فتح
ہے اور دہشت گردوں اور انکے پیچھے موجود پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی
عبرتناک شکست ہے کہ الحمدﷲ پاکستان نے دہشت گردی پر قابوپاکر تاریک اور
سیاہ راتوں کو ختم کرکے ایک روشن سحر کا آغاز کردیا ہے اگرچہ اس کے لیے
ہمیں پچاس ہزار سے زائد جانوں کے نذرانے پیش کرنا پڑے مگر آج ہم شاداں و
فرحاں ایک روشن سحر میں کھڑے ہیں جس کے بعد اجالے ہی اجالے ہیں اور ا جالوں
کو حاصل کرنے کے لیے ہماری قربانیاں بے ثمر نہیں رہیں
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا |