گاڑی ۔ عیاشی یا ضرورت

گاڑی رکھنا کبھی ایلیٹ کلاس کا مشغلہ تھا۔ شہر محدود ہوتے تھے۔ زیادہ تر آنا جانا پیدل ہو تا تھا۔ تھوڑا سا زیادہ فاصلہ ہو تا تو تانگہ وغیرہ آسانی سے مل جاتے ۔ٹریفک بھی معمولی ہوتی تھی ۔ آنا جانا دوبھر نہیں ہوتا تھا۔عام آدمی میں گاڑی خریدنے کی طاقت ہی نہیں ہوتی تھی اور اگر ہوتی بھی تو اسے فضول سرمایہ کاری سمجھا جاتا تھا۔بدلتے حالات میں شہر پھیل کر وسیع سے وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔وہ علاقے جو کبھی مضافات تھے اب شہر کا حصہ ہیں۔ کاروبار، دفتر ، رشتہ داروں سے میل ملاپ اور دیگر ضروریات کے لئے شہر کے ایک حصے سے دوسرے تک جاناتو پڑتاہے، وقت بھی انتہائی قیمتی ہو گیا ہے اس لئے آمدورفت کے لئے تیز رفتار گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی صورت حال بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے، اس میں جتنی مرضی بہتری لے آئیں وہ لوگوں کی مکمل ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔ویسے بھی پبلک ٹرانسپورٹ مین اور بڑی سڑکوں پر میسر ہوتی ہے جب کہ آبادی ان بڑی سڑکوں لے کر اندربہت دور تک ہوتی ہے۔ان آبادیوں سے لوگوں کا ان بڑی سڑکوں تک پہنچنا بھی ایک انتہائی مشقت طلب کام ہوتا ہے۔ اس لئے اب گاڑی عیاشی نہیں ایک ضرورت بن گئی ہے۔

گاڑی کی ضرورت اب کسی ایک علاقے اور طبقے تک محدود نہیں ، دنیا بھر میں یہی صورتحال ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں گاڑیوں کی آبادی بڑھنے کی شرح انسانی آبادی کے بڑھنے کی شرح سے بھی زیادہ تیز ہے۔دنیا میں آج تقریباً دس کروڑ گاڑیاں سالانہ تیار ہوتی ہیں۔جن میں بھارت کا حصہ پنتالیس لاکھ اور پاکستان کا سوا دو لاکھ سالانہ ہے۔سب سے زیادہ گاڑیاں تقریباً تین کروڑ سالانہ چین میں بنتی ہیں۔امریکہ ایک کروڑ بیس لاکھ، جاپان بانوے لاکھ اور جرمنی ساٹھ لاکھ گاڑیاں سالانہ بنا رہے ہیں۔لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کی حکومتیں گاڑیوں کی پیداوار بڑھا بھی رہی ہیں ، ان کی قیمتوں کو بھی کنٹرول میں رکھے ہوئے ہیں اور اپنے ملک میں بننے والی گاڑیوں کی کوالٹی پر بھی پوری نظر رکھتی ہیں۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں حکومت کو نہ تو گاڑیوں کی پیداوار بڑھانے میں دلچسپی ہے، نہ ہی ان کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کی اور نہ ہی گاڑیوں کی کوالٹی دیکھنے اور جانچنے کی۔یہاں گاڑیاں دنیا بھر سے مہنگی اور کوالٹی کے لحاظ سے دنیا بھر سے ہلکی ہوتی ہیں۔حکومت نے کبھی عوام کو سستی اور معیاری گاڑی فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی۔حکومت کو فقط ٹیکس سے دلچسپی ہوتی ہے یا پھر حکومتی اہلکاروں کو اپنی کمیشن سے۔بھاری کمیشن کے ڈر سے ماضی میں بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان نہیں آئے ۔یہاں کی غیر یقینی سیکورٹی صورتحال بھی دوسری بڑی وجہ ہے اور سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی ہے۔ اس وقت ملک میں کل چھ یا سات پلانٹ کام کر رہے ہیں۔جو انتہائی مہنگی گاڑیاں بیچ رہے ہیں۔سوزوکی مہران (800 cc)پاکستان کی سب سے سستی کار ہے جس کی قیمت ساڑھے سات لاکھ روپے ہے۔سہولتوں کے اعتبار سے اگر دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے، یہ گاڑی نہیں بس گاڑی نما ہے۔تھوڑی سی بڑی گاڑی یعنی 1000 CC پاکستانی گاڑی دس سے تیرہ لاکھ میں دستیاب ہے۔1300CCسے1800CC گاڑیاں پندرہ سے پچیس لاکھ میں مل جاتی ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے حالات اور زمینی حقائق بالکل ملتے جلتے ہیں ۔ لیکن بھارت میں ہنڈائی، رینالٹ، متسوبشی، نسان، BMW،سوزوکی، Mini ، Datsun ، Caparo ، Isuzu ، Kia ، ہندستان موٹرز، شیورلیٹ، ہونڈا، ٹویوٹا اور جنرل موٹرز سمیت درجنوں پلانٹ گاڑیاں بنانے میں مصرو ف ہیں دوسرا کوالٹی انتہائی بہتر ہے۔ قیمتیں اس قدر اچھی اور قابل رسائی ہیں کہ عام آدمی کو گاڑی خریدنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میں تقابل کے لئے بھارتی گاڑیوں کی قیمتیں دیکھ رہا تھا۔بھارت میں پانچ ایسی گاڑیاں ہیں جو بھارتی کرنسی میں تین لاکھ (پاکستانی کرنسی میں تقریباً چار لاکھ ستر ہزار)سے کم قیمت پر دستیاب ہیں ۔پاکستانی کرنسی میں ٹاٹا کی 624CC نانو کی قیمت تین لاکھ چون ہزار روپے، 796 CC سوزوکی اومنی کی قیمت تین لاکھ بہتر ہزار روپے، (799CC)ڈاٹسن ریڈی گو کی قیمت تین لاکھ اٹھتر ہزار، سوزوکی آلٹو ۔800 تین لاکھ چھیاسی ہزار اور(799 CC)رینالٹ (KWID) کی قیمت چار لاکھ گیارہ ہزارہے۔ ان چھوٹی گاڑیوں میں بھی زیادہ تر آٹو میٹک اور تمام سہولتوں سے مزیں ہیں۔

بھارتی کرنسی میں چار لاکھ (پاکستانی چھ لاکھ اٹھائیس ہزار)سے کم قیمت پر سات گاڑیاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔(1199CC) ٹاٹاکی Tiago پانچ لاکھ چار ہزار،(1196CC) سوزوکی ایکو پانچ لاکھ دس ہزار روپے، (998CC) سوزوکی آلٹوK10 پانچ لاکھ بارہ ہزار روپے، (1198CC)ڈاٹسن گو اور(824CC) ہنڈائی EDN دونوں پانچ لاکھ سولہ ہزار،(1198CC)ڈاٹسن گو پلس چھ لاکھ تین ہزار روپے او ر (1199CC) شیورلیٹ بیٹ چھ لاکھ پندرہ ہزار میں دستیاب ہیں۔سوزوکی ویگن ۔R، چھ لاکھ چوالیس ہزارمیں ملتی ہے۔ یہ سب قیمتیں پاکستانی کرنسی میں تبدیل شدہ ہیں۔ان کے علاوہ بار ہ سو اور تیرہ سو سی سی کی پندرہ کے قریب گاڑیاں پاکستانی کرنسی میں ساڑھے سات لاکھ سے کم قیمت پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ پاکستان میں جو اون کی وبا ہے یعنی گاڑی فوری چاہیے تو ڈیڑھ دو لاکھ قیمت سے زیادہ دینا پڑتا ہے، مجھے بھارت میں نظر نہیں آئی۔وہ بڑی گاڑیاں جو ہماری مارکیٹ میں چالیس پچاس لاکھ میں ملتی ہیں، بھارت میں دس بارہ لاکھ میں مل جاتی ہے۔

پاکستانی مارکیٹ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں دنیا بھرکی گاڑیوں کا کوڑا کرکٹ با آسانی بک جاتا ہے۔دنیا بھر کے لوگ تین چار سال گاڑی چلاتے ہیں اور جتنے میں خریدتے ہیں تقریباً اسی قیمت پر پاکستانیوں کو بیچ دیتے ہیں۔چونکہ وہ تین چار سال چلی ہوئی گاڑیاں پرانی ہونے کے باوجود معیار میں ہماری نئی گاڑیوں سے بہتر ہوتی ہیں۔ اسلئے لوگ ان گاڑیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔یہ دنیا بھر میں واحد اور انوکھی مارکیٹ ہے کہ جہاں جاپان کی تمام 660CC تین چار سال چلی ہوئی گاڑیاں بارہ سے پندرہ لاکھ میں ملتی ہیں۔اسلئے کہ حکومت اس میں سے سات لاکھ کے لگ بھگ ٹیکس وصول کر لیتی ہے۔ تھوڑی سی بڑی گاڑی یعنی 1000 CC جاپانی پرانی گاڑی پندرہ سولہ لاکھ میں دستیاب ہے۔حکومت کو صرف ٹیکس سے غرض ہوتی ہے ۔ ملک اور عوام کو کس چیز کی ضرورت ہے، اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

آج گاڑی چونکہ ضرورت بن چکی ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ بہت سے سرمایہ کار جو اس ملک میں گاڑیوں کے پلانٹ لگانا چاہتے تھے یا لگانا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ ان سے سستی ا ور معیاری گاڑیوں کی فراہمی کی ضمانت لے۔جو کمپنیاں پہلے کام کر رہی ہیں ان کی گاڑیوں کی کوالٹی اور ریٹ بھی بہترکرنے کی ضرورت ہے ۔گاڑیوں کی پیداوار اس قدر زیادہ ہونیا چاہیے کہ ہم پچھلے کئی سالوں سے Reconditioned کے نام پر جو سکریپ خرید رہے ہیں اس کی ضرورت نہ رہے۔دنیا بھر کی کمپنیاں اگر بھارت میں سستی گاڑی مہیا کر سکتی ہیں تو اسی قیمت پر وہی گاڑی ہمیں کیوں نہیں دے سکتے۔ضرورت صرف توجہ اور اخلاص کی ہے ۔ ذمہ داروں کا فرض ہے کہ اخلاص کے ساتھ اس مسئلے کی طرف توجہ دیں تا کہ اس ملک کے لوگ بھی اچھی اور معیاری گاڑیاں معقول قیمت پر خرید سکیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501374 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More