جوڈیشل کمپلیکس راولپنڈی میں منعقدہ زیرسماعت مقدمات کے
جلدتصفیہ کے لیے ضلعی عدالتوں میں متعارف کرائے گئے مصالحت مراکزکے بارے
میں ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس
منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ عدل وانصاف پرمبنی معاشرے کے قیام ،جرائم کی روک
تھام، اورسماجی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہرشعبہ زندگی میں قانون کی حکمرانی
قائم ہوتاکہ باہمی لڑائی جھگڑے اورتنازعات کم سے کم ہوں اورمعمولی بحث
وتکرارسے جنم لینے والے اختلافات مقدمات کی شکل میں سال ہاسال عدالتوں میں
زیرسماعت نہ رہیں۔عدالتوں میں مقدمات کابوجھ کم کرکے ہم فریقین کے مصائب کم
کرسکتے ہیں۔جس کے لیے ہرسطح پرعملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔عدالتی نظام
میں لائی جانے والی اصلاحات کامطمع نظریہ ہے کہ عوام کوحصول انصاف میں کوئی
رکاروٹ پیش نہ آئے۔جسٹس سیّدمنصورعلی شاہ نے کہا کہ باہمی گفت وشنیدسے
معاملات حل کرنے کے لیے قائم کیے گئے مصالحتی مراکزکے شاندارنتائج حاصل
ہوئے ہیں اوربڑی تعدادمیں مقدمات فریقین کی موجودگی میں محض چائے کی ایک
پیالی پرحل ہورہے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اپنے اپنے اضلاع
میں چیف میڈیئٹرکاکرداراداکریں ۔اورماتحت عدلیہ کے ججزبھی زیرسماعت مقدمات
کوجن میں صلح کی گنجائش ہے مصالحتی سینٹر بھجوانے کے بجائے خودمصالحت
کرائیں تاکہ فریقن کوفوری انصاف مل سکے۔چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کہتے ہیں
کہ اس مقصدکے لیے خصوصی تربیت یافتہ ججزکے فعال کرداراورمصالحتی عمل کے لیے
سازگارماحول فراہم کرنے سے مقدمات کے فریقین کے آمنے سامنے بیٹھ کراپنے
معاملات کاتصفیہ کررہے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ مصالحتی عمل تیزکرنے کے لیے
تمام جج صاحبان کوخصوصی تربیتی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔جسٹس
سیّدمنصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ عدلیہ کوجدیدخطوط پر استوارکرنے کاعمل تیزی
سے جاری ہے اوراس مقصدکے لیے جہاں عدالتوں میں تمام مطلوبہ سہولیات فراہم
کی جارہی ہیں۔وہاں وکلاء کے مسائل بھی ترجیحی بنیادوں پرحل کیے جارہے
ہیں۔تاکہ انہیں پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں کوئی مشکل پیش نہ
آئے۔انہوں نے کہا کہ فرسودہ عدالتی نظام کی اپ گریڈیشن میں تمام اسٹیک
ہولڈرزکے ساتھ ساتھ ہم میڈیاکے بھرپورتعاون کے بھی شکرگزارہیں جس سے عوام
الناس کوعدالتی سسٹم کی نئی جہتوں سے متعارف کرانے میں مددمل رہی
ہے۔اورمیڈیاجس موثراندازمیں انصاف کابول بالاکرنے میں عدلیہ کے
کردارکواجاگرکررہاہے اس سے عام آدمی کوحصول انصاف کے سلسلے میں راہنمائی
حاصل ہورہی ہے۔جسٹس سیّدمنصورعلی شاہ نے کہا کہ آئی ٹی کی مددسے متعارف
کرائے گئے نئے ماڈل کورٹس کے قیام ،کیس منیجمنٹ سسٹم، عدالتوں میں نظم وضبط
کی بہتری مقدمات کی سماعت کے طریقہ کارکی آٹومیشن اوروڈیولنک کی مددسے
مقدمات کی سماعت سے تیزی آئی ہے اورریکارڈ تعدادمیں مقدمات کے فیصلے ہوئے
ہیں۔تاہم بڑی تعدادمیں مقدمات ابھی تک زیرسماعت ہیں۔انصاف کے متلاشی
افرادامیدکے ساتھ عدالتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ
جسٹس سیّدمنصورعلی شاہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں سے عوام کاعلیہ پراعتمادبڑھ
رہاہے۔اورہم نے اپنی کارکردگی کومزیدبہترکرکے وہ نتائج حاصل کرنے ہیں جن سے
مقدمات تیررفتاری سے طے پائیں اورفریقین کوبلاتاخیرانصاف مل سکے۔انہوں نے
راولپنڈی ڈویژن میں مصالحتی مراکزکے کامیاب نتائج پرڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج
راوالپنڈی سہیل ناصرکی کاوشوں کوسراہااورتمام ججزکی خدمات پرانہیں مبارک
باددی۔جن کی وجہ سے کئی سال پرانے مقدمات تصفیہ سے حل ہورہے ہیں۔ڈسٹرکٹ
اینڈ سیشن جج راولپنڈی سہیل ناصرنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راواپنڈی ڈویژن
میں قائم مصالحتی مرکزسے اب تک ۱۱۶ مقدمات کے فیصلے ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا
کہ مصالحتی مرکزکاقیام ان مقدمات میں فریقین کے لیے نہایت مفیدثابت ہورہا
ہے۔جوباہمی تصفیہ سے معاملات کوسلجھاناچاہتے ہیں اورعرصہ درازسے اپنے
مقدموں کے فیصلوں کے منتظرہیں۔انہوں نے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس
سیّدمنصورعلی شاہ کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اے ڈی آرکے ساتھ جس طرح
ضلعی عدلیہ میں ماڈل قائم کی گئی ہیں اورمقدمات کے جلدفیصلوں کے لیے
دیگرسہولیات فراہم کی گئی ہیں وہ ایک ریکارڈہے۔سویٹ ہوم کے سرپرست زمردخان
نے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی طرف سے مصالحتی مراکزکے قیام کے فیصلے
کاخیرمقدم کرتے ہوئے اسے پورے ملک کے لیے ایک ماڈل قراردیااورکہا کہ اس
نظام سے ہزاروں کی تعدادمیں مقدمات صرف بات چیت سے حل ہوسکتے ہیں۔قبل ازیں
ضلعی عدلیہ اٹک میں میڈیئٹر کے طورپرخدمات سرانجام دینے والے جج
مقصوداحمدانجم نے بتایا کہ مصالحت کاعمل کامیابی سے جاری ہے اوران مراکزسے
فریقین کواطمینان بخش انصاف حاصل ہورہا ہے اوراس نظام کے ثمرات عام لوگوں
تک پہنچ رہے ہیں ۔
ایک طرف مقدمات کے جلدتصفیے اورفوری انصاف کے لیے قائم کیے گئے مصالحتی
مراکزکے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں جس کی تفصیل چیف جسٹس لاہورہائی
کورٹ جسٹس سیّدمنصورعلی شاہ کے خطاب میں آپ پڑھ چکے ہیں دوسری طرف جرگے
اورپنچایتیں انصاف کے نام پرناانصافی کیے جارہی ہیں۔یہ جرگے اورپنچایتیں
کیسے کیسے فیصلے سناتی ہیں اس سے ویسے توقارئین اچھی طرح واقف ہیں راقم
الحروف کے سامنے ایسے ہی فیصلوں پرمبنی چندایک اخبریں قومی اخبارمیں
موجودہیں جونمونہ کے طورپرلکھے جارہے ہیں۔رحیم یارخان اورصادق آبادسے
مشترکہ خبرہے کہ ایک مشہوربرادری کی ایک خاتون نے ایک اوربرادری کے نوجوان
سے شادی کرلی۔اس کی برادری کے وڈیروں نے جرگہ بلالیااورخاتون کوطلاق لے
کربرادری میں شادی کرنے کاحکم سنایاخاتون نے حکم نہ ماناجس پروڈیروں نے اسے
اپنے ڈیرہ پرچالیس روزتک قیدرکھااورزیادتی کرتے رہے۔موقع پاکروہ خاتون
گھرپہنچ گئی ۔اس نے میڈیاکوبتایا کہ وڈیرے سمیت چھ سے زائدافرادنے چالیس
روزتک قیدرکھا اورزیادتی کانشانہ بناتے رہے موقع پاکروڈیروں کی قیدسے
فرارہوکرقریبی رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی۔اس کا شوہر وڈیروں کی قیدمیں ہے
رابطہ کرنے پرپولیس ترجمان نے بتایا کہ اس خاتون نے گھرسے فرارہوکرایک
اوربرادری کے نوجوان سے شادی کرلی تواس کے ورثانے اس کے شوہرکے خلاف تھانہ
ماچھکہ میں مقدمہ درج کرایاتاہم خاتون نے بیان پرمقدمہ خارج
کردیاگیا۔بعدازاں دونوں میں طلاق ہوگئی اورخاتون دارلامان چلی
گئی۔اورمندرجہ بالاالزمات پرمبنی درخواستیں اعلیٰ حکام کوارسال کردیں لیکن
پھردارالامان سے واپسی پراپنی درخواستوں سے متعلق بیان حلفی دے کردست بردا
ر ہوگئی ۔اس نے اب آگے شادی بھی کرلی ہے اوراپنے گھرآبادہے ۔ڈہرکی سے خبرہے
کہ سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجودجرگہ نے پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور دو
معصوم بچیاں ونی کرنے کی سزاسنادی۔تفصیل اس خبرکی یوں ہے کہ ڈہرکی کے قریبی
گاؤں کلن مہرکے رہائشی نے ایک سال قبل گھوٹکی کی عدالت میں ایک خاتون سے
پیارکی شادی رچانے والے نوجوان کے خلاف علاقہ کے بااثرافرادکاغیرقانونی
جرگہ کرکے اس کی دومعصوم پانچ اورسات سالہ بھتیجیوں کوونی کرنے اورپانچ
لاکھ روپے جرمانہ اداکرنے کافتویٰ جاری کردیا۔اس سلسلہ میں نوجوان کے بھائی
نے بتایا کہ ہم نے جان بچانے کے لیے تین لاکھ روپے دے کرباقی رقم اوراپنی
معصوم بچیوں کارشتہ دینے سے انکارکردیاہے۔جس پرعلاقہ کے بااثروڈیرے نے
دیگرلوگوں کے ساتھ میرے گھرپرحملہ کرکے گھرمیں موجودعورتوں اورٹی بی کے مرض
میں مبتلامیرے تین بیٹوں کوسخت تشددکانشانہ بنایا۔ہماری چیخ وپکارپرہمیں
قتل اورونی کی گئی معصوم لڑکیوں کواغواکرنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے ملزمان
فرار ہوگئے۔انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، آئی جی سندھ اوردیگراعلیٰ
حکام سے غیرقانونی جرگہ کرنے والے بااثروڈیروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے
اپنی زندگیاں اورونی کی جانے والی معصوم بچیوں کواغواہونے سے بچانے کی اپیل
کی ہے۔
ایک طرف ہماراایساعدالتی نظام ہے کہ جس کے بارے میں یہ بات مشہورہے کہ
داداکے مقدمات کی پیروی پوتے کرتے ہیں ۔ مقدمات کافیصلہ ہونے میں سال ہاسال
لگ جاتے ہیں۔ضروری نہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کوغیرضروری طول دیاجاتا
ہو۔بعض اوقات قانونی اورانصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بھی وقت
درکارہوتاہے۔معمولی نوعیت کے مقدمات کی سماعت اوران کے فیصلے کرنے میں بھی
خاصاوقت لگ جاتا ہے۔انصاف میں تاخیرکی ایک وجہ عدالتوں میں بہت زیادہ
مقدمات کاہونابھی ہے۔ کیوں کہ عدلیہ کوانصاف کے لیے آئے ہوئے تمام سائلین
کوسنناہوتاہے۔عام لوگ قانون نہیں جانتے اس لیے انہیں عدالتوں سے انصاف حاصل
کرنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرناپڑتی ہیں۔وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے
لیے بھاری فیس بھی اداکرناپڑتی ہے ۔وکیل کی فیس کے ساتھ ساتھ دیگربھاری
اخراجات بھی برداشت کرناپڑتے ہیں۔اس لیے کہاجاسکتاہے کہ ہمارے عدالتی نظام
میں انصاف کاحصول مہنگابھی ہے اوردیرسے بھی ملتاہے۔دوسری طرف سال ہاسال
سے رائج جرگہ اورپنچایت سسٹم ہے۔جس میں انصاف کے نام پرانصافی کی جاتی
ہے۔یہ جرگے اور پنچایتیں علاقہ کے باثرافرادوڈیرے اورسردارہی منعقدکرتے
ہیں۔ان کی دہشت اتنی ہوتی ہے کہ کوئی ان کے سامنے بولنے کی جرات بھی نہیں
کرسکتا۔یہ وڈیرے اورسردارجرگوں اورپنچایتوں میں ایسے ایسے فیصلے سنادیتے
ہیں کہ انسانیت بھی شرماجاتی ہے۔سائل عدالتوں کارخ کرے تواسے انصاف کے حصول
کے لیے طویل انتظارکرناپڑتاہے اورجرگہ یاپنچایت سے رابطہ کیاجائے تواس کے
فیصلے سب کے سامنے ہیں کہ وہ کس طرح کے فیصلے کرتے ہیں۔عدلیہ سے انصاف چاہے
تاخیرسے ہی ملتاہے تاہم عوام کااعتمادپھربھی عدلیہ پرقائم ہے۔ اس لیے
شہریوں کی کثیرتعدادانصاف کے حصول کے لیے عدلیہ سے رجوع کرتی ہے ۔ جیسا کہ
اس تحریرمیں لکھاجاچکاہے کہ انصاف میں تاخیرکی ایک وجہ مقدمات کابہت زیادہ
تعدادمیں ہونابھی ہے۔جس سے عدالتوں پربوجھ بڑھ جاتاہے۔ اس سے ایک طرف انصاف
فراہم کرنے میں تاخیرہوتی ہے تودوسری طرف عدالتوں کومقدمات کابوجھ بھی بہت
زیادہ ہوتاہے۔انصاف میں تاخیرکااحساس ہماری عدلیہ کوبھی ہے۔اس لیے وقتاً
فوقتاً عدالتی سسٹم میں اصلاحات متعارف کرائی جاتی ہیں۔ ان اصلاحات
کامقصدسائلین کوجلدسے جلدانصاف کی فراہمی ہوتا ہے ۔ مصالحتی مراکزکاقیام
بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔مصالحتی مراکزمیں ایسے مقدمات کاتصفیہ کیاجاتاہے
جومعمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اورجن مقدمات کاتصفیہ باہمی گفت وشنیدسے
کیاجاسکتاہو۔ایسے مقدمات غصہ میں آجانے اورعدم برداشت کی وجہ سے ہی عدالتوں
میں آتے ہیں۔ لوگ معمولی سے معمولی باتوں پرغصہ میں آجاتے ہیں جب کہ فریق
ثانی کی برداشت بھی جواب دے جاتی ہے یوں معمولی سے معمولی بات سے شروع ہونے
والامعاملہ عدالتوں میں طویل انتظارکے بعد حل ہوپاتاہے۔فریقین غصہ
پرقابوپالیں اوربرداشت کرناسیکھ جائیں تومعمولی باتوں سے شروع ہونے والے
معاملات کے لیے عدالتوں میں آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔جس سے عدالتوں
پرمقدمات کابوجھ کم ہوجائے گا۔عدالتوں پرمقدمات کابوجھ کم ہونے سے انصاف کی
فراہمی میں تیزی آجائے گی ۔ گھریلو جھگڑوں ، طلاق، تنسیخ سمیت دیگرفیملی
کیسزکے تصفیے بھی ان مصالحتی مراکزمیں کیے جائیں توماتحت عدلیہ پرمقدمات
کابوجھ مزیدکم ہوجائے گا۔مصالحتی مراکزکے قیام کامقصدعدالتوں پرمقدمات کے
بوجھ کوکم کرنااورجلدسے جلدانصاف فراہم کرناہے۔جس طرح فوڈ کورٹ بنانے کی
خبریں بھی شائع ہورہی ہیں۔اسی طرح سیاسی مقدمات سمیت ایسے مقدمات جن کی وجہ
سے عام آدمی کوانصاف فراہم کرنے میں غیرضروری تاخیرہوتی ہے۔جووقت عدلیہ
مندرجہ بالانوعیت کے مقدمات کی سماعت کرنے میں صرف کرتی ہے وہی وقت عام
آدمی کے مقدمات سننے میں صرف کرے توانصاف کی جلدفراہمی ممکن بنائی جاسکتی
ہے۔ایسی نوعیت کے مقدمات کے لیے بھی الگ سے عدالتیں بنائی جائیں
توبہترہوگا۔مصالحتی مراکزکے قیام، اغراض ومقاصداوران مراکزسے انصاف کے حصول
کے طریقہ کارسے عوام کوآگاہی دینے کے لیے ہرشہراورہرضلع میں
سیمینارزاورمذاکروں کااہتمام کیاجاناچاہیے جن میں زندگی کے تمام شعبوں سے
وابستہ افرادکی شرکت ضرورہونی چاہیے۔ |