انسانی معاشرے کی بقاو استمرار کیلئے ضروری اور اہم عنصر
نظام معیشت ہے کہ جس کے ذریعے سے سماج کے گزر بسر کے لیے مناسب و خاطر خواہ
انتظام ہوتا ہے۔یہ نظام معیشت اگر عدل و انصاف پر استوار ہو تو سوسائٹی کے
کسی گروہ و طبقہ کا استحصال نہ تو ممکن ہوتاہے بلکہ وہ معاشرہ امن و آشتی
کی حیات بسر کرتاہے۔ المیہ اس امر کا ہے کہ فطرتی اصولوں سے منحرف ہوجانے
کے بعد انسانی سماج مسائل کا شکار ہوچکی ہے۔کیونکہ قانون فطرت اس بات کا
متقاضی ہے کہ سما ج میں باہمی تعاون کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔ ہر فرد بشر
اپنے گردوبیش کے افراد کی سرپرستی و تعاون یقینی بنائیں۔انسانیت کو جو
تعلیمات ہدایت اسلام نے عطا کی ہیں ان پر عملداری کے نتیجہ میں اولین
مسلمانوں کا معاشرہ ہی نہیں بلکہ جب تک ان رہنما اصولوں پر عمل کیا
جاتارہاہے گل گلزار بن چکے تھے اور راحت البالی کی زندگی فخر و سرور کے
ساتھ بسر کرتے تھے کہ اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں تلاش کرنے
کے باوجود بھی زکوٰۃ حاصل کرنے کیلئے افریقہ کے جزیروں میں بھی کوئی بندہ
نہیں ملتا تھا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسلام نے معاشرے و خاندان کو
اس بنیاد پر منظم و مرتب کردیاہے کہ اپنی ذات ،اپنے والدین و اولاد، عزیز و
اقارب اور دوست احباب کی پریشانیوں اور آزمائشوں سے گلوخلاصی کا مکلف بنایا
گیا ہے جب ہر ایک اس ذمہ داری کو اداکرتاہے جو کہ باعث و برکت اور ثواب ہے
کو اختیار کرنے والے نا صرف خود بلکہ ان کے متعلقین بھی ہمیشہ امن و آشتی
کی زندگی بسر کریں گے۔
غیر مسلم معاشروں میں اشتراکیت و کیمونیزم فروغ پایا جس کے نتیجہ میں جہاں
حق دار کی حق تلفی کا درس دیا گیا وہیں پر برابریت کے نام پر جہد مسلسل
کرنے والے کو اس کی محنت کا ثمر عطا نہیں کیا جاتا۔یہ افکار و نظریات اسلام
سے متصادم ہونے کی وجہ سے مضر صحت و سرطان سے بھی زیادہ تیز زوال ملک و قوم
کا موجب ہیں۔اس پر طرہ یہ ہے کہ ٹیکسز کاظالمانہ نظام، سودی کاروبار،رقم کے
حصول میں جلدی اور لوٹانے میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حاجت
مند کو تکلیف و اذیت سے دوچار کیا جائے ۔افسوس کن امر ہے کہ دنیا کی خود
ساختہ مہذب قوموں کے منہج پر چلنے کے نتیجہ میں مسلم معاشرہ اپنی بے مثل و
مثال اور روشن تعلیمات سے کوسوں دور نکل چکا ہے۔ کیونکہ مادیت پرستی کے اس
دور میں بظاہر آنکھوں کو خیرہ کرنے اور دل کو بہانے والی چیز میں کشش ہوتی
ہے اور مغرب و اقوام مغرب اور سوشلزم و کیمونیزم کو اختیارکرنے والے بظاہر
عیش کی زندگی بسر کرتے ، جہازوں، ٹیکنالوجی ،عشرت کدوں کے مزے لیتے نظر آتے
ہیں تو کمزور ایمان رکھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا اور اسلامی
مالیات سے متصادم نظام کو اختیار کرنے میں سعادت سمجھنے لگتا ہے جو کہ دنیا
و آخرت کی دائمی ذلت و رسوائی کاموجب ہے۔
علامہ سید سلمان حسینی حسنی ندوی دامت برکاتہم نے امام شاہ ولی اﷲ محدث
دہلوی ؒ کی حجۃ اﷲ البالغہ بیان کردہ اسلام کے مالیاتی نظام کو بڑی خوب
صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔جس سے ہر مسلمان کو راہنمائی لینے چاہئے معمولی
قطع و برید کے ساتھ وہ بیان قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ انہوں نے کہاکہ
زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کے حکم کی بجاآوری میں انفرادی و اجتماعی مصلحتیں
کیا ہیں۔انفرادی مصلحت عیاں ہے کہ جو شخص اپنے جائز مال میں سے زکوٰۃ و
صدقہ دیتاہے تو اس کا مال طاہر و طیب ہونے کے ساتھ اس میں برکت و اضافہ بھی
ہوتا ہے بظاہر میں اس کے مال میں سے کچھ رقم نکل رہی ہوتی ہے مگر درحقیقت
وہ رقم سات سو گنا اضافہ کے ساتھ واپس پلٹتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے
بخل سے منع کیا ہے کہ جائز و ضروری مقامات پر خرچ سے اجتناب کرنا بخل پن
میں شمار ہوتاہے جس کے نتائج نقصان دہ ہیں۔ اس کا سب سے پہلے اور بڑا نقصان
اس کی اپنی ذات کو ہوتاہے کہ مال و دولت یہیں رہ جائیگی جبکہ وہ خالی ہاتھ
منوں مٹی تلے سپرد خاک ہوجائے گا۔اسی لیے احادیث میں بیان کیا ہے کہ انسان
کا وہی کچھ ہے جواس نے کھایا پیا اور پہنا باقی سب اس کی اولاد یا عزیز و
اقارب کے حصہ میں چلا جائے گا۔دوسرا فائدہ اور مصلحت اجتماعی یہ ہے کہ
زکوٰۃ و صدقات کی بروقت ادائیگی کے سبب سے معاشرے میں بسنے والے غربا و
مساکین بھی عزت و عظمت کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجائیں گے جس کے باعث
سماج سے دھوکہ دہی، چور بازار، کرپشن اور لوٹ مار کا مرض ہمیشہ کیلئے ختم
ہوجائیں گے۔تاہم زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کے وقت اس بات کو ضرور ملحوظ
خاطر رکھا جائے کہ مستحق کی جملہ پریشانیوں کے ازالہ کیا جائے نہ کہ کئی
سوافراد کو ایک وقت کا کھانا دیکر دستبردارہوجایاجائے چونکہ حاجت مند کی
حاجت براری ماہ و سال کیلئے کرنا اور اس کو دست سوال دراز کرنے سے مستغنی
کردینا ہی حقیقی مددومعاونت ہوگی۔زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت و ضرورت کو تحریر
و تقریر کے ذریعہ سے اجاگر کرنا علماء امت پر لازمی ہے کہ معاشرہ امن و
آشتی کا مرکز بن سکے۔ اسلام نے تو اس حدتک مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر
آپ کی ضرورت و حاجت سے کچھ بھی زائد ہوتو اس کو راہ خدا میں خرچ کردیا جائے
اور اولین ترجیح اپنے عزیز و اقارب کو دی جانی چاہئیے۔اگرموجودہ حالات میں
مسلم ممالک میں اسلام کے مالیاتی نظام زکوٰۃ کی عملی تنفیذ و ادائیگی کا
اہتمام ہوجائے تو ہمیشہ کیلئے ٹیکسزکے نظام کو ختم کرنا پڑجائے گا اور کوئی
بھی مسلمان دنیا کے کسی حصے میں تنگ دستی کی زندگی بسر نہیں کرے گا۔ |