پچھلے دنوں ہمارے ایک بزرگ کالم نویس سید انور محمود صاحب
دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ شاہ صاحب سچ کڑوا ہوتا ہے کے عنوان سے ملک کے
بیشتر اخبارات میں لکھتے رہے ۔ہماری شاہ صاحب سے وابستگی ہماری ویب رائٹرز
کلب کی مرہون منت ہوئی ، ہماری ویب رائٹرز کلب آن لائن لکھنے والوں کا ایک
انتہائی مشہور اور منظم کلب ہے ۔ شاہ صاحب اس کلب کی داغ بیل ڈالنے والے ہر
اول دستے کا قلیدی حصہ تھے ۔ آپ کی لکھنے لکھانے سے دلچسپی کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طبعیت کی ناسازگاری کے باوجود ہماری ویب رائٹرز
کلب کی کم و بیش ہر نشست کے ساتھ ساتھ دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے
بلکہ اپنی شرکت کا احساس بھی کراتے رہتے تھے۔آپ کی گفتگو و تحریریں تجربے
اور معلومات کا نچوڑ ہوا کرتی تھیں ۔ آپ نے قلم کا استعمال بغیر کسی دباؤ
یا خوف کے کیا، آپ لکھنے والوں کی فہرست میں ایک چمکتے دمکتے ستارے کی
مانند جگمگاتے رہینگے اور ہماری ویب رائٹرز کلب آپکی یاد گاہے بگاہے مناتا
رہے گا۔ موضوع کی مناسبت سے جو بات مذکورہ سطور میں پوشیدہ ہے وہ ہماری ویب
رائٹرز کلب کے ذمہ دارا بہت اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری ویب رائٹرز
کلب نے شاہ صاحب کیلئے ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کرناتھا جو کہ انکے
صاحبزادے کی ملک سے باہر مصروفیات کے باعث مسلسل تعطل کا شکار ہے۔ امید ہے
اب یہ نشست کسی اورنشست کے ساتھ منعقد کی جائیگی۔
ہم ہر اس حکمران کو یاد کرتے ہیں جو حکومت کر کے جاچکا ہوتا ہے بلکہ ہمارے
یہاں تو کوئی حکمران کسی جرم کی پاداش میں اقتدار سے الگ کیا جاتا ہے تو
اسے تو ہم لوگ مظلومیت کا ایسا کفن پہناتے ہیں کہ اس کے جرائم کی فہرست
دیکھنا تو دور یاد کرنا گوارا نہیں کرتے۔ یہاں ٹہرجائیے اور ذرا اپنے اپنے
ذہنوں پر تھوڑا سازور دیجئے آپ کو یاد آجائے گا کہ ہم نے ملک و معاشرے کے
کتنے مجرموں کو مظلوم بنا کر تاریخ میں روشن رکھا ہوا ہے ۔ اس سے یہ بات تو
واضح ہو جائے گی کہ ہم لوگ خود ہی انصاف کے دشمن ہیں ۔ جب کبھی بھی کسی
مجرم کے ساتھ اسکے کئے گئے جرائم پر انصاف کا وقت آنے لگتا ہے تو ہم اسے
ساری دنیا کے سامنے معصوم بنا کر پیش کردیتے ہیں اور انصاف مجبور اور لاچار
کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ کتنے ہی جرائم کی فائلیں آخری فیصلے کی
مہر ثبت کرنے سے پہلے ہی تاریک اسٹوروں میں بند ہوجاتی ہیں اور نئے دور میں
تو ریکارڈ کو آگ بھی لگنے لگی ہے۔ یعنی ایک این آر او سے تو سب واقف ہیں
مگر اس طرح جرائم کی فائلیں جل جانے سے کتنے این آر او ہوچکے ہیں۔
ہمیں جن لوگوں کی قدر انکی زندگی میں کرنی چاہیے ہم انکے مرنے کا انتظار کر
رہے ہوتے ہیں یا پھر شائد یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں مرنا ہی نہیں ہے ۔
کتنے ہی لوگ ہماری زندگیوں میں صرف ایک جملہ کہنے کیلئے آتے ہیں اور وہ
جملہ ہماری زندگی بدل دیتا ہے ۔ مگر ہم جملہ کہنے والے حقارت سے یا پھر غیر
اہم قرار دے چکے ہوتے ہیں۔ یقیناًآپکی زندگی آپکے لئے بہت خاص ہے اس وقت تک
جب تک یہ ہے ، لیکن یہی زندگی آپ کی خصوصیات کی بدولت سب کیلئے اہم ہوسکتی
ہے اور ہوتی بھی ہے مگر جب تک ہے۔
ہمارے مزاج اور روئیے سے یہ ثابت ہے کہ ہم پاکستانی من حیث القوم مردہ پرست
واقع ہوئے ہیں، زندگی میں پوچھتے تک نہیں ہیں اور مرنے کے بعد ایسے زارو
قطار رہ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ان سے زیادہ کسی کا نقصان ہی نہیں ہوا ، آخر
ایسا کیوں ہے ؟ موت کا کوئی وقت متعین نہیں ہے اور یہ ہر گھڑی ہمارے ساتھ
ساتھ گھوم رہی ہے یہ ہماری پیدائش سے ہی ہمارے پیچھے پڑ جاتی ہے اور ہم ہیں
کہ دنیا کی رنگینیوں میں پیسوں کی جھنکار میں ایسے اندھے اور بہرے ہوجاتے
ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔ ہم نے اکثر
سنا ہوگا اور کہا بھی ہوگا کہ ابھی کل ہی تو اس سے راستے میں ملاقات ہوئی
تھی ، ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو کہیں جاتے ہوئے نظر آیا تھا اسطرح کہ جملے
عام سی بات ہے ۔ ہم ایسے میں کاش کا لفظ استعمال کرتے ہیں،
ہمیں چاہئے کہ اپنے معاشرے میں رہنے والے ہر اس شخص کی پذیرائی کریں جو
آپکی زندگی کو آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ، خصوصی طور پر ان
لوگوں کا جو آپکی زندگی کو آسان بنا رہے ہیں جن میں سب سے پہلے اور سب سے
بڑھ کر ہماری مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں اور بیویاں اس پذیرائی کی مستحق ہیں
پھر مثلاً آپکے گھروں میں کام کرنے والیاں اور والے ، آپکی گاڑی کی مرمت
کرنے والے ، آپکے گلی محلے کو صاف ستھرا رکھنے اور کچرا اٹھانے والے ، آپکے
بچوں کی اسکول وین چلانے والے ، اسکول کے دروازے پر تعینات حفاظتی عملہ
،اور اسطرح کے بہت سارے افراد جو ہماری زندگیوں میں کسی نا کسی طرح کی
اہمیت رکھتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو قابل احترام بھی ہیں اور زندگی میں ہی
پذیرائی کے حقدار ٹہرتے ہیں۔ معاملات نجی نوعیت کے ہوں یا پھر اجتماعی ہمیں
ایک دوسرے کی خدمات پر کم از کم شکریہ کہہ کر اس کی پذیرائی کرنی چاہئے
۔اکثر ایسا ہوجاتاہے کہ اچھا ابھی کرتا ہوں اور پھر ابھی کبھی نا ہونے
کیلئے تمام ہوجائے یا میں نا رہوں یا پھر آپ نا رہیں۔ ہم نے ایک رات اپنے
والد صاحب سے کچھ پوچھنا تھا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا کہ چلو صبح پوچھ
لینگے مگر صبح تو ہوئی مگر پھر ابو کبھی نا اٹھنے کیلئے سوچکے تھے، اب خیال
آتا ہے کہ کبھی ابو کی گرانقدر خدمات کا انکو سلیوٹ ہی نہیں کیا کبھی انکی
انتھک اور بے لوث خدمت کا شکریہ تک ادا نہیں کیا،ایک ہلکا ہلکا سا یہ دکھ
گاہے بگاہے ان سوچوں کیساتھ تکلیف پہنچاتا ہے ۔
ہم اپنی اس روش کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں ؟ جو ہماری گرانقدر شخصیات
ہیں ہم انہیں انکے جیتے جی ہی پرکھ کر انہیں پذیرائی کیوں نہیں دے سکتے؟کسی
کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اسکے لئے کچھ بھی کرلو اس سے اسے کوئی سروکار
ہو ہی نہیں سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرا ٹہرا جائے معمالات اور پرکھا
جائے اور جو کوئی بھی جس فیلڈ میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے اسکی
باقاعدہ پذیرائی کریں ناکہ اسکے کئے کو چوری کریں یا پھر اس کے کئے کو چوری
کروانے میں مدد گار بنیں۔ اس پذیرائی کا اہتمام ہر عمر کے افراد کیلئے ہونا
چاہئے ان میں بچے بھی ہوسکتے ہیں جو آج یقیناًکسی نا کسی اہم کارہائے
نمایاں سرانجام دینے میں مصروف ہیں اور عمر رسیدہ لوگ جو معاشرے کی اصلاح
کا کام سرانجام دے رہے ہیں، سب کے سب پذیرائی کے مستحق ہیں۔ پذیرائی کرنے
سے معاشرتی برتاؤ میں بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔ اسلئے زندگی میں ہی
پذیرائی کیجئے پھر کیاہوا اور کیا کیا ، کیا معلوم۔ |