آج میں جب اقبال کے بارے میں اپنے خیالات کو مجتمع کرکے
لکھنے لگی تو میرے سامنے ایک فلسفی، ایک مفکر، ایک سیاست دان، ایک مبلغ ،
ایک درویش، ایک مجدد، ایک سیاح جو پوری دنیا گھومتا ہے اور ملت کی عظمت
رفتہ کی تلاش کرکے اس کے حال کو سنوارنے کے لئے ایک دوا کے طور پر استعمال
کرتا ہے اور ایک شاعر رنگین نوا آکھڑا ہوا اورمیں اس کی دبنگ شخصیت کی سحر
آفرینی کے سامنے بے بس ہوگئی تاہم اس سمندر میں سے کچھ گوہر کچھ موتیوں کی
تلاش ضرور کی۔ اگر میں قوم پر ان کے احسانات کا احاطہ کروں تو ممکن نہیں ۔
قارئین! برصغیر میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکمرانی کی لیکن اپنی ہی
کوتاہیوں اور کمزوریوں کی بدولت جب نہ صرف حکومت اور ریاست سے محروم ہوئے
بلکہ وہ وقار اور تمکنت بھی داؤ پر لگ گئی جو مسلمان کی شان ہے ایسے میں
ایک مضبوط اور توانا آواز نے مسلمانوں کے تن مردہ میں جان ڈالی ۔ پنجاب کے
میدانوں سے محمد اقبال کی آواز اُٹھی اور جرس کارواں بن کر مسلمانوں کو ان
کا راستہ بتانے لگی۔۔۔
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ بار ہوگا
اور پھر اقبال کی شاعری نے وہ کردار ادا کیا جو کوئی طبیب اور جراح کرتا ہے
اُنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم اور ملت کے امراض کی نشاندہی کرکے ان کا
علاج بھی تجویز کیا اگر وہ زوال مسلم کی وجہ بتاتے ہیں کہ ۔۔۔
اپنی اصلیت پہ قائم تھا جو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشان کاروانِ بو ہوا
تو ساتھ ہی علاج تجویز کرتے ہیں۔۔۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
حضرت علامہ اقبال جس وقت اپنی شاعری سے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کر رہے
تھے مسلمان ایک پر آشوب دور سے گزر رہے تھے۔ ایک طرف فرنگی یعنی انگریز کی
ریشہ دوانیاں تھیں تو دوسری طرف ہندو کی مکاریاں اور تیسری طرف مسلمان کی
بے حسی اور بے راہ روی جو امت کو پستی اور مزید پستی میں دھکیل رہی تھی۔
ایسے میں قوم کی ہمت بندھانا کچھ آسان نہ تھا لیکن اس مرد مومن نے قوم کو
جگانے اوران کی ہمت بلند رکھنے کا کام بخوبی سر انجا م دیا۔اُنہوں نے اُمید
اور بے غرضی کی شاعری کی اور مسلمانوں کو بار بار یاد دہانی کرائی کہ اگر
وہ اپنے آپ میں یقین محکم پیدا کریں تو پھر انہیں کو ئی شکست نہیں دے سکتا۔
کبھی قوم کے سامنے انکے حالات کو تصویر درد کی صورت میں رکھا کبھی اللہ
تعالیٰ سے شکوہ کناں ہوئے کہ۔۔۔
جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بد ہن ہے مجھ کو
کبھی دعا گو ہیں کہ۔۔۔
چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں
کبھی قوم کے سامنے ان کی کوتاہیاں رکھتے ہیں کہ ۔۔۔
یوں تو سید بھی، مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
درد دل اور خون جگر میں ڈوبی ہوئی یہ صدا آخر اس قوم کو متحد کرنے میں
کامیاب ہوئی۔ اقبال ہی کی درخواست پر حضرت قائد اعظم لندن سے واپس تشریف
لائے اور اس درماندہ کارواں کی رہبری سنبھالی ۔ یوں نہ صرف خود قوم کی
رہنمائی کرتے رہے بلکہ انہیں ایک ایسے میرِ کارواں کو سونپا جس نے انہیں
منزل پر پہنچا کر دم لیا، اقبال کا کردار ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن اور
تابناک باب ہے اور روشنی کو قید نہیں کیا جاسکتا ہے نہ محدود کیا جاسکتا ہے
لہٰذا اقبال کی شاعری نے بھی ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کیا ان کے افکار
نے ایران، افغانستان ، مصر اور سعودی عرب کی زمینوں سے آگے نکل کر یورپ کا
سفر کیا تو ان کی شاعری کے تراجم انگلش، روسی، چینی ہر زبان میں ہوئے اور
یوں مشرق کا یہ سورج مغرب کے اُفق پر بھی پوری آب و تاب سے چمکا، جغرافیائی
حدود کی طرح ان کا کلام وقت کی قید سے بھی آزاد ہوا اور نہ صرف اس کی
خوبصورتی برقرا رہے بلکہ وہ آج بھی اتنا ہی موثر ہے جتنا ایک صدی پہلے تھا
۔ آج بھی23مارچ 1940میں اُٹھنے والے بینر پر لکھا ہوا شعر۔۔۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھر ڈوبے ادھر نکلے
لہوگرمادیتا ہے۔ اگر انجمنِ حمایت اسلام کے اجلاس میں بیٹھے ہوئے حاضرین
مکمل خاموشی اور یک سوئی کے ساتھ کلام اقبال سنتے تھے تو اس کی اثرپذیری آج
بھی کم نہیں۔ میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں
تک اقبال کا پیغام اس کی مکمل سمجھ بوجھ کے ساتھ پہنچاناہے،اس کلام کو صرف
تقریر وں اور تقریبات تک محدود نہیں رکھنا بلکہ اسے اپنے قومی منشور کا حصہ
بنانا ہوگا
تاکہ ایک بار پھر بکھری ہوئی قوم کو یکجا کیا جاسکے اور اپنااحتساب کیا
جاسکے اور اگر ہم نے ایسا کر لیا تو ہمیں دنیا میں ایک بار پھر سپر پاور
بننے سے نہیں روک سکتا کہ بقول کہ اقبال ۔۔۔
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب |