جہاں ہمیں آج کل ہر طرف چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دست و
گریباں دکھائی دیتے ہیں اور کسی انسان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے
وہیں دوسری طرف امریکہ کی ایک بھری عدالت میں ایک مسلمان باپ نے اپنے
نوجوان بیٹے کے قاتل کو معاف کر کے نہ صرف معافی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر
دی بلکہ اسلام کا روشن پہلو بھی اجاگر کیا-
مقتول کے والد نے اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرتے ہوئے جب گلے لگایا تو
عدالت میں موجود ہر شخص حیران رہ گیا اور یہ چونکا دینے والا منظر دیکھ کر
خود جج کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے-
|
|
24 سالہ Trey Relford کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر امریکہ کی ایک عدالت نے
منگل کو 31 سال قید کی سزا سنائی تھی- Trey پر 19 اپریل 2015 کو ڈکیتی کی
واردات کے دوران صلاح الدین جٹمود نامی نوجوان کو قتل کرنے کا الزام تھا-
صلاح الدین کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ Kentucky کے علاقے Lexington پیزا
ڈلیور کرنے گیا-
سماعت کے دوران مقتول کے والد ڈاکٹر عبدالمنعم جٹمود نے اپنے بیٹے کو ایک
نرم دل٬ سخی اور شرمیلا نوجوان قرار دیا اور ساتھ ہی کہا کہ “میرے بیٹے کو
لکھنے میں دلچسپی تھی- میرے بیٹے کا قتل میرے لیے بہت بڑا حادثہ تھا“-
تاہم عدالت اس وقت حیران رہ گئی جب ڈاکٹر عبدالمنعم جٹمود نے اپنی بات کے
اختتام پر اپنا رخ اپنے بیٹے کی قاتل کی جانب کیا اور یہ کہا کہ “میں اس
سانحے کے لیے Trey کو قصور وار نہیں ٹھہراتا- اور مجھے شیطان پر غصہ ہے جس
نے Trey کو بہکایا اور اس سے یہ جرم کروایا“-
ڈاکٹر عبدالمنعم نے مزید کہا کہ “ اس قاتل کو معاف کردینا انتہائی ضروری ہے
کیونکہ اسلام میں کسی کو معاف کرنا صدقہ جاریہ ہے“-
|
|
یہ دلوں کو جھنجھوڑ دینے والا منظر دیکھ کر جہاں عدالت میں جج کی آنکھوں
میں بھی آنسو اتر آئے-
اس موقع پر Trey کی والدہ بھی کھڑی ہوگئیں اور ان کا کہنا تھا کہ “میرے
بیٹے کا بچپن بہترین تھا لیکن نوجوانی میں اسے منشیات کی عادت نے تباہ
کردیا- میں ڈاکٹر عبدالمنعم کے پیارے بیٹے کے قتل کی بھرپور ذمہ داری لیتی
ہوں“-
اس کے ساتھ ہی Trey کی والدہ نے ڈاکٹر عبدالمنعم کو مخاطب کر کے کہا کہ “
میں دل کی گہرائی کے ساتھ آپ سے معافی مانگتی ہوں- اور آپ کی معافی کے اس
عمل نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا ہے“-
اس موقع پر خود Trey نے بھی معافی مانگتے ہوئے کہا کہ “ اس روز جو کچھ ہوا
مجھے اس پر افسوس ہے- آپ واقعی ایک طاقتور انسان ہو کہ آپ کے ساتھ اتنا کچھ
ہوا اور آپ نے پھر بھی معاف کردیا- میں آپ کے دکھ درد کا اندازہ بھی نہیں
لگا سکتا- اور میں آپ کی جانب سے دی جانے والی معافی پر آپ کا شکر گزار ہوں“-
|
|
اس سب کے اختتام پر ڈاکٹر عبدالمنعم نے شرمندگی سے دوچار Trey کو گلے لگا
لیا-
اس مقدمے میں تمام اشارے Trey کے خلاف تھے اور یہی ثابت ہوا کہ ڈکیتی کی
وارادت٬ آلہ قتل کی فراہمی اور ثبوتوں کو مٹانے کے جرم میں Trey ہی ملوث
تھا-
مقتول صلاح الدین کے والد ڈاکٹر عبدالمنعم ملک بھر میں موجود اسلامک
اسکولوں کے پرنسپل کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے لیکن اب وہ
تھائی لینڈ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ صلاح الدین کی والدہ کا انتقال صلاح
الدین کے قتل سے دو سال قبل 2013 میں ہی ہوچکا تھا-
|
|
|